فضل محمود روخانکالم

پروفیسر احمد فواد

ودودیہ ہال سیدو شریف گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کے طالب علموں سے بھرا ہوا تھا۔ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ مشاعرے کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے کیا گیا تھا۔ تاریخ اور دن تو مجھے یاد نہیں۔ البتہ عبدالواحد خان صاحب (پرنسپل جہانزیب کالج) کی ملازمت کے آخری مہینے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے سبک دوش ہونا تھا۔ تعلیمی میدان میں اُن کی بڑی خدمات ہیں۔ اللہ تعالا اُن کو صحت دے۔ وہ میرے لیے بہت قابلِ احترام ہیں۔ مَیں دل سے اُن کی قدر کرتا ہوں۔
اسی اثنا میں پروفیسر احمد فواد صاحب سٹیج پر آئے۔ انہوں نے اپنی غزل کے ایک شعر میں صنعتِ تعلی سے کام لیا:
بس خوشحال او رحمان رونڑہ راتہ خکاری
د دے نورو شاعرانو خو زہ پلار یم
یعنی ’’خوشحال اور رحمان میرے بھائیوں جیسے ہیں اور ان کے علاوہ تمام پشتو زبان کے شعراکا مَیں باپ ہوں۔‘‘
مَیں نے مشاعرے میں شریک بخت محمد بختؔ کو اشارہ کیا کہ اس کا جواب آپ نے دینا ہے۔ جب بختؔ کا نمبر آگیا، تو انہوں نے اپنے کلام کا آغاز اس طرح کیا:
دا خوشحال او رحمان دواڑہ مے زامن دی
د دے نورو شاعرانو زہ نیکہ یم
یعنی ’’خوشحال اور رحمان دونوں میرے بیٹوں جیسے ہیں اور ان کے علاوہ تمام شعرا میرے بیٹے ہیں۔‘‘
اس مشاعرے کے بعد میری دلچسپی پروفیسر احمد فواد میں بڑھنے لگی۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب اُن سے میرا تعلق صرف علیک سلیک کی حد تک تھا۔ دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے اور ہماری دوستی ارتقائی مراحل سے گزر رہی تھی۔ پروفیسر احمد فواد صاحب نے تعلق کو دوام بخشنے کی خاطر پہل کی اور میری جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ مَیں نے اُن بھی جھٹ سے ان کا ہاتھ تھام لیا۔
مَیں نے بس احمد فواد صاحب کو دور ہی سے دیکھا تھا۔ نزدیک آتے ہی مجھ پر آشکارا ہوا کہ ان کا باطن اور ظاہر ایک ہے۔ ایک بہترین شخصیت اور اعلا اخلاق کے مالک ہیں۔ سنجیدہ انسان ہونے کے باوجود مزاج میں شوخی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ ماتھے پر تفکرات نے لکیریں بنائی ہیں۔ ان کے لبوں پر مسکراہٹ بھی کبھی کبھی ہی دیکھی جاسکتی ہے۔ عموماً اوپر نہیں دیکھتے لیکن اگر کسی کے ساتھ آنکھیں چار ہوجائیں، تو اُن کی آنکھوں میں عجیب رنگ اور کشش دیکھی جاسکتی ہے۔مذکورہ رنگ، راست بازی، محبت اور خلوص کا ہے۔ گفتگو میں کسی کے ساتھ فری نہیں ہوتے۔ فاصلہ ضرور رکھتے ہیں۔
اللہ تعالا نے اُنہیں بڑی پیاری شکل و صورت دی ہے۔ شرعی داڑھی میں گویا ولی اللہ لگتے ہیں۔ گیسوئے دراز میں کبھی فلسفی بھی لگتے تھے۔ اعلا تعلیم یافتہ ہیں۔ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج سیدوشریف میں انگلش ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔
احمد فواد صاحب کا اُردو ادب میں بڑا نام ہے۔ وہ ایک اعلا پائے کے شاعر ہیں۔ ایک اچھے ناول نگار ہیں۔ ملکی سطح پر اُردو ادب کے اعلا پائے کے مشاعروں میں حصہ لیتے ہیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد والے اُنہیں بڑی چاہت سے بلاتے ہیں اور مشاعروں میں اُن کی بڑی پذیرائی ہوتی ہے۔ کئی کتب کے خالق ہیں۔ کسی زمانے میں اُردو کے بڑے بڑے اخبارات میں کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ ان اخباروں میں ’’اُمت، نوائے وقت، جنگ کراچی، اُردو ڈائجسٹ، زندگی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا اپنا نام فرید احمد ہے لیکن احمد فواد سے کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ضلع شانگلہ میں شگہ مارتونگ میں 1954ء میں پیدا ہوئے۔ حافظ قرآن بھی ہیں۔
مجھے ان کی دوستی پر فخر ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں