امجدعلی سحابؔکالم

مینگورہ، اک شہر بے مثال (آٹھویں قسط)

90ء کی دہائی میں مینگورہ شہر میں جو نسوار تیار کرنے والے مجھے یاد ہیں، ان کے نام بالترتیب ذیل میں دیے جاتے ہیں:
٭ امیر علی نسوارو والا نزد بینک سکوائر، مین بازار۔
٭ کوہستانے نسوارو والا، کتیڑا مین بازار۔
٭ اکبر نسواری، پامیر ہوٹل گلشن چوک۔
٭ بریتا نسواری، سہراب خان چوک ۔
اس لسٹ میں دو دیگر نسواربیچنے والوں کا اضافہ فیاض ظفر (سینئر صحافی) کرتے ہیں جو کم از کم مجھے یاد نہیں پڑتے۔ ایک ملت نسوار والا سہراب خان چوک اور دوسرا صرافہ بازار نسوارو والا۔ ان کے علاوہ بھی ہوتے ہوں گے،مگر کم از کم مجھے یاد نہیں۔
امیر علی سے مَیں روزانہ اپنے نانا جی ہیڈ ماسٹر (ر) غلام احد کے لیے تازہ نسوار کی ٹکیا خریدا کرتا تھا۔ اُس وقت چھوٹی ٹکیا چار آنے اور قدرے بڑی آٹھ آنے کی ملتی تھی۔ امیر علی چار آنے والی ٹکیا پلاسٹک کی تھیلی ہاتھ میں ڈال کر نسوار کی مخصوص مقدار اٹھا کر ہاتھ ہی میں گول گول گھماتا اور یہ گولا ایک چھوٹی سے پلاسٹک کی تھیلی میں ڈالتا جاتا۔ آٹھ آنے والے گولے کے لیے ایک ’’پلاس‘‘ نما آہنی آلہ بنایا تھا، جس میں نسوار کی مخصوص مقدار اٹھاکر چند لمحوں کے لیے پکڑے رکھتا۔ نتیجتاً تین انچ کا ایک گنا نما لمبا سا گولا بنتا، جسے بعد میں پلاسٹک کے قدرے بڑے تھیلے میں بند کیا جاتا۔
ناناجی چار آنے تھما کر کہتے: ’’جا! امیر علی سے کہنا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب نے بھیجا ہے۔‘‘ مَیں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا امیر علی کے سامنے کھڑا ہوکر چونی ان کے آگے رکھتا اور ناناجی کے الفاظ ان کے گوش گزار کرتا۔ بدلے میں وہ ناناجی کے لیے پہلے سے تیار شدہ نسوار کی مخصوص ٹکیا مجھے تھماتا اور کہتا: ’’ہیڈ ماسٹر صاحب سے سلام کہنا۔‘‘ روزانہ ان رٹے رٹائے جملوں کا تبادلہ ہوتا۔
میرے محترم استاد اور ماموں خورشید علی میر خیل کے بقول: ’’امیر علی، محمد علی اور سردار علی تین بھائی تھے۔ ان کا تعلق چپریال سے تھا۔ یہی کوئی 70 سال قبل مینگورہ نقلِ مکانی کرگئے ہیں۔ ان کے والد (مرحوم) اول اول فروٹ بیچتے تھے۔ 1980ء میں بیٹوں نے نسوار تیار کرنے اور بیچنے کا کام شروع کیا۔ بعد میں مسواک، ٹوپی اور تسبیح بھی بیچنے لگے۔‘‘
امیر علی سے یہی کوئی بیس پچیس قدم آگے کتیڑا میں کوہستانے نسوارو والا کا شہرہ تھا۔ مجھے یاد ہے 90ء کی دہائی میں کوہستانی کی تیار کردہ نسوار مینگورہ شہر میں دیگر نسوار تیار کرنے والوں سے یک سر مختلف ہوا کرتی تھی۔ مینگورہ شہر میں رایج نسوار کا رنگ کالا جب کہ کوہستانی کی تیار کردہ نسوار کا رنگ ہرا ہوا کرتا تھا۔ ہم دمِ دیرینہ احسان اللہ المعروف سانے ساکن بنجاریانو محلہ نے اس سلسلے کی ساتویں قسط کے بارے میں مجھے واٹس اپ پیغام بھیجتے ہوئے رقم کیا: ’’سحابؔ! تیری تحریر ادھوری ہے۔ بات کتیڑے کی ہو اور کوہستانے نسوارو والا کا ذکر نہ ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے۔‘‘
ہم دمِ دیرینہ کے بقول وہ جب انگلینڈ کے سفر کے لیے پَر تول رہے تھے، تو سرزمینِ انگلستان کے پشتونوں نے اُنہیں کوہستانی سے نسوار لانے کی تاکید کی۔ کہتے ہیں: ’’وہاں جاکر مجھے پتا چلا کہ کوہستانی کی نسوار میں کتنا دم ہے۔ میری ساتھ لے جانے والی تھوڑی سی مقدار کی نسوار کو وہاں ایک بڑی مقدار میں مکس کرکے استعمال میں لایا گیا۔‘‘ اب اس سے اندازہ لگائیں کہ کوہستانی کی نسوار میں کتنا دم ہے!
اب آتے ہیں اکبر نسواری کی طرف۔ 90 کی دہائی میں اکبر ہم لڑکوں بالوں سے کوئی پانچ چھے سال بڑا ہوتا ہوگا۔ اللہ میاں کی گائے تھا (اب بھی بقیدِ حیات ہے)ناک نقشے سے وہ بالکل جیکی چن کے قبیلے کا لگتا تھا۔ جہاں کھڑا ہوتا، ایک لمبی چوڑی داستان شروع کر دیتا۔ اگر کوئی توجہ نہ دیتا، توباقاعدہ طور پر غصہ بھی ہوتا۔ سوشل میڈیا کی وبا کا ابھی نہیں پھیلی تھی، اس لیے چھوٹے بڑے اکبر کو انہماک سے سنتے۔ ہمارا بیش تر وقت یا تو مراد آرٹسٹ کی دکان پر گزرتا یا پھر اقبال ٹیلرنگ شاپ یا شیرزمان ہیئر ڈریسر میں گپ شپ لگاتے اپنی باری کے انتظار میں۔ اکبر ان تینوں جگہوں پر الگ الگ داستان کے ساتھ ہفتے میں دو تین بار جلوہ گر ہوتا۔ روزِ اول سے ان کے والدِ بزرگوار کو ہاتھ کی مدد سے نسوار تیار کرتے دیکھتا۔
90ء کی دہائی میں پامیر ہوٹل داخل ہونے کے لیے دو راستوں کا استعمال ہوتا۔ ایک سیدھا ہوٹل کے استقبالیہ جاتا جب کہ دوسرا ایک ٹریول ایجنسی کے دفتر سے ہوتا اور آگے مڑتا ہوا استقبالیہ پر آکر ختم ہوتا۔ دونوں راستوں کے درمیان آج بھی تین یا چار دکانوں کا فاصلہ ہے۔ ٹریول ایجنسی والے راستے کے سرے پر اکبر کے والد سامنے پڑے ہوئے بڑے ہاون میں ایک بڑے دستے کی مدد سے تمباکو کے پتے کوٹتے۔ مَیں نے کئی بار اکبر کی شکل کے اس کے بڑے بھائی کو بھی یہ عمل دہراتے ہوئے دیکھا ہے۔ آج کل اکبر مذکورہ مقام پر ہاون کے سامنے بیٹھے زندگی کے شب و روز گزار رہا ہے۔ اب لوگوں کے پاس وقت گزاری کے لیے سوشل میڈیا کا کھلونا آگیا ہے، اس لیے اکبر خاموش ہوگیا ہے۔
خدا بخشے…… میرے والدِ بزرگوار فضل رحمان (دوست احباب انہیں علی رحمان پکارتے تھے) مجھے چونی تھما کر سیدھا بریتا نسواری کے پاس بھیجتے۔ ہم دوڑ لگا کر جیسے ہی دکان پہنچتے، سہمے انداز میں اندر جھانکتے۔ اگر بڑی مونچھوں والے حضرت اندر بیٹھے ہوتے، تو ہم لرزتی آواز سے کہتے: ’’ماما! زما پلار وئی یوہ گولئی نسوار را!‘‘ (یعنی محترم، میرے والد کہتے ہیں کہ نسوار کی ایک ٹکیا دیجیے) وہ بھی ہاتھ سے چونی لے کر ایک ٹکیا تھما دیتے اور ہم یہ جا وہ جا۔ مونچھوں والے اس حضرت سے ہمارے خوف کا سلسلہ فلم ’’د حق آواز‘‘ کی ریلیز تک برقرار رہا۔
کیسا خوف؟ یہ بعد میں بتاتے ہیں۔ سرِ دست بریتا نسواری جن کی وجہ سے آج یہ تحریر زیبِ قرطاس بنی، کا بشرہ ملاحظہ ہو۔ بڑی اور گھنی مونچھیں(جنہیں بڑا دکھانے کے لیے آدھی سے زیادہ داڑھی مختص کی گئی تھی)، بڑے بڑے بال،چوڑا ماتھا، رنگ گورا چٹا، دراز قد، ہمیشہ شلوار قمیص مع واسکٹ زیبِ تن کیے کاؤنٹر پر بیٹھے ملتے۔ کم گو تھے۔ اپنے کام سے کام رکھتے۔
بریتا کے بھتیجے اختر حسین نے ان کی شخصیت کے چھپے گوشوں سے پردہ سرکاتے ہوئے کہا: ’’بریتا کا اصل نام شاہ ملک تھا۔ 1947ء کو کالام کے علاقہ کوکونیل میں پیدا ہوئے۔ 9 سال کے تھے (1956ء)کہ مینگورہ آئے۔ اول اول ایک ہاون میں دستے کی مدد سے نسوار تیار کرتے۔ نیو روڈ (جہاں آج زم زم ٹریولز کا دفتر ہے) میں نسوار تیار کرنے اور بیچنے کا کام شروع کیا اور تھوڑے عرصے میں اپنی مختلف وضع قطع کی بنا پر نام کما گئے۔ فلموں میں اداکاری کا شوق جنوں کی حد تک تھا۔ بطورِ اداکار ان فلموں میں سامنے آئے: ’’د حق آواز‘‘، ’’د ظلم بدل‘‘، ’’جدائی‘‘ اور ’’خطرناک زنگل۔‘‘ فلم ’’جدائی‘‘ میں بطورِ ہیروکام کیامگر فلم نہیں چلی۔‘‘
سوات کے سابقہ مشہور کیمرہ مین معنہ دار صادق کہتے ہیں کہ ’’خطرناک زنگل‘‘ ہارر مووی تھی جسے ہم نے چوبیس گھنٹے میں مکمل کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈالا۔
فیاض ظفر صاحب کہتے ہیں کہ بریتا نسواری کی شہرت اس وقت کے جڑواں سنیماؤں (سوات سنیما اور پلوشہ سنیما) کے بڑے پردے پر ان کے اشتہارات چلنے کی وجہ سے تھی۔ اشتہار ایک سلیٹ پر لکھا گیا ہوتا جسے پراجیکٹر کے سامنے لایا جاتا اور پراجیکٹر کی مدد سے بڑے پردے پر ڈسپلے کیا جاتا۔
بریتا کے بھتیجے اختر حسین کہتے ہیں کہ شاہ ملک المعروف ’’بریتا‘‘ بلڈ کینسر کی وجہ سے انتقال کرگئے تھے۔
اب ہم واپس اُس نکتے کی طرف آتے ہیں کہ کیوں ہم 90ء کی دہائی میں نسوار خریدتے وقت بریتا سے خوف کھاتے تھے؟ دراصل بریتا کا بشرہ ایسا تھا،خاص کر ان کی گھنی اور بڑی بڑی مونچھیں کہ مجھ جیسے دس بارہ سال کے بچوں کا اسے دیکھتے خوف کھانا بے جا نہ تھا۔ جیسے ہی فلم ’’د حق آواز‘‘ ریلز ہوئی، اس میں مین ہیرو بدر منیر اور سائیڈ ہیرو عثمان غنی المعروف ’’تکو‘‘ تھے۔ فلم کے ایک سین میں بدر منیر جیل میں قید اور بریتا بندوق ہاتھ میں لیے محافظ کے طور پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ بدر منیر کسی بہانے بریتا کو سلاخوں کے قریب لاتے ہیں اور لمحوں کے حساب سے ان کا گلہ دبوچ کر کام تمام کر دیتے ہیں۔
ٍ اگلے دن نسوار لانے کی دیر تھی۔ جیسے ہی بریتا کی دکان پر پہنچا، سینہ تان کے کہا: ’’ماما! ورکہ سلور انیز والہ گولئی!‘‘
بریتا نے ٹکیا اٹھائی، مجھے تھمائی اور مَیں کسی فاتح کی طرح واپسی کا راستہ ناپتے ہوئے خود سے مخاطب ہوا: ’’اگر کچھ کہتا، ٹینٹوا دبا کے ابھی اس کا کام تمام کردیتا۔‘‘
باقی آیندہ، ان شاء اللہ!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں