یوں تو میں حیدر علی اخوندخیل کو کافی عرصہ سے جانتا ہوں۔ اس وقت سے جب وہ جہان زیب کالج سیدو شریف میں پڑھتے تھے۔ وہ میرے بیٹے نثار احمد کے ساتھی اور روم میٹ تھے…… لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ نوجوان مستقبل کا مورخ،شاعر،ادیب اور اُستاذ بن کر اپنا نام روشن کریں گے۔ اگر مَیں یہ کہوں کہ ان کی خوبیوں نے مجھے ان کو سمجھنے میں مدد دی ، تو بے جا نہ ہوگا۔
حیدر علی اخوندخیل، میاں جلندر کے بیٹے ہیں۔ وہ 14 مئی 1969ء کو سوات کے تاریخی اور صنعتی گاؤں سلام پور سوات میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق اخوندخیل کے نامی گرامی سادات خاندان سے ہے۔ ابتدائی تعلیم مڈل سکول اسلام پور میں حاصل کی۔ مڈل پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول شگئ سیدو شریف میں جماعتِ نہم میں داخلہ لیا۔ دو سال جی ایچ ایس شگئ سیدو شریف میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد1986ء میں جہان زیب کالج میں داخلہ لیا۔ چار سال تک یہاں تعلیم حاصل کی۔1990ء میں بی اے کرنے کے بعد 1992ء میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے ایم اے پشتو کی ڈگری حاصل کی۔ 1996ء میں ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔ 2000ء میں میں بی ایڈ کیا۔ 2012ء میں سوات یونیورسٹی کی تاریخ کے پہلے سیشن میں داخلہ لے کر ایم اے تاریخ میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بیٹھ گئے اور تاریخ کے مضمون میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور گولڈ میڈل کے حق دار ٹھہرے۔
حیدر علی اخوندخیل کا سلسلۂ نسب اخوند درویزہ بابا جو پیربابا کے خلیفۂ خاص تھے، سے جا ملتا ہے…… جو آگے چل کر خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ اس خاندان کے جدِ امجد شیخ سعدی (اخوند سعدی) نے یوسف زئی کے ساتھ افغانستان سے ہجرت کی۔پہلی ہجرت دوآبہ چارسدہ کی، دوسری ہجرت بونیر اور تیسری سلام پور سوات کی جہاں آکر آباد ہوگئے۔
سلام پور گاؤں اس خاندان کے لیے مرکزی حیثیت کا حامل رہا۔ یہاں سے وقتاً فوقتاً مختلف علاقوں میں گئے۔ آج کل یہ اخوندخیل میاں گان بٹ گرام، شانگلہ، سوات، دیر وغیرہ میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
حیدر علی اخوندخیل کی چار کتابیں شایع ہوئی ہیں۔ ’’بونیر خدو خیل‘‘ (تاریخ) 2008ء میں شایع ہوئی۔ ’’وادیِ چغرزئی‘‘ (تاریخ) 2013ء میں شایع ہوئی۔ ’’وجدان‘‘ (پشتو شاعری) 2019ء میں شایع ہوئی۔ ’’ضلع بونیر کی وادیاں‘‘ (تاریخ) جس کا اولین ایڈیشن 2019ء میں جب کہ دوسرا ایڈیشن 2021ء میں شایع ہوا۔ زیرِ طبع کتب میں ’’د آخوند خیلو تاریخ، استوگنی اور شجرے‘‘،’’مغل نواز سوک دی؟ اخوند درویزہ، میاں نور بابا، یا……؟‘‘ شامل ہیں جب کہ غیر مطبوعہ میں ’’دگدیزو کاروان د دوہ صدو پہ لوری‘‘ (سفر نامہ)، ’’د بابا نہ تر باگرامہ‘‘ (سفر نامہ)، ’’دایلم پہ لوری‘‘ (سفر نامہ)، ’’د اسلام پور تاریخی، سیاسی اور سماجی جوڑخت‘‘، ’’د سوات ہیندارہ‘‘، ’’ دبونیرادبی او کلتوری ہیندارہ‘‘، ’’د بونیر متلونہ او علاقائی لوبے‘‘، ’’کگ لیچونہ (پشتو شاعری)،’’دلتہ رختیا مہ وایہ‘‘ (پشتو شاعری) شامل ہیں۔
حیدر علی اخوند خیل شادی شدہ ہیں۔ ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ 2003ء کو بونیر منتقل ہوئے۔ 2003ء سے گورنمنٹ سکول میں اُستاد ہیں۔ ان کی کتابیں تاریخ موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ انھوں نے بو نیر کے چپے چپے سے لوگوں کو روشناس کیا ہے۔ بونیر کے کھیت کھلیان، پہاڑ، جنگل، ندی، نالے، لوگوں کے رسم و رواج، تعلیم، نقل و حمل، صحت، پیداوارا ور قبیلوں کو اُجا گر کیا ہے۔ اُن میں صحیح معنوں ایک اچھے مورخ کی خوبیاں اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ انھوں نے ضلع بونیر کی جو خدمت کی ہے اور ہنوز کر رہے ہیں، ماضیِ قریب اور حال میں اس کا ثانی نہیں۔ اگرجاتے جاتے مَیں یہ کہوں کہ حیدر علی اخوندخیل بونیر کا سچا بیٹا ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔