ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یہ غالباً 1984ء کا واقعہ ہے۔ بحیثیت ’’سی مین‘‘(Seaman) بحری جہاز (Marian Star) امریکہ کے شہر نیورلینز سے ہوتا ہوا برازیل کے لیے روانہ ہوا۔ پہنچنے سے ایک روز قبل طبیعت ناساز ہوگئی، تو ایجنٹ مجھے کمپنی کے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر جب تک دوسرے مریض کا چیک اَپ کرتا رہا، تب تک مَیں اُس کی میز پر پڑی کتاب جس پر باچا خان بابا اور گاندھی جی کی تصاویر والی ٹائٹل تھا، کی ورق گردانی کرتارہا۔ جب ڈاکٹر دوسرے مریض سے فارغ ہوا، تو علیک سلیک کے بعد گاندھی جی کی تصویر پر انگلی رکھتے ہوئے پوچھا: کیا آپ اس شخصیت کو جانتے ہیں؟ مَیں نے کہا: ہاں! یہ تو گاندھی جی ہیں اور ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں صفِ اول کا کردار ادا کرنے والی شخصیت ہیں۔ پھر موصوف نے باچاخان کی تصویر کے بارے میں وہی سوال دہرایا، تو مَیں نے نفی میں سر ہلا کر بتایا کہ ان کو نہیں جانتا۔ ڈاکٹر نے کتاب قلم ٹیبل پر رکھ کر انتہائی حیرانی کے عالم میں دوبارہ اپنا سوال دہرایا، کیا آپ پاکستان کے ہوتے ہوئے بھی باچاخان کو نہیں جانتے؟ مَیں نے بتایا: سر! گاندھی جی کی تاریخ سے تھوڑا بہت واقف ہوں، لیکن باچاخان کے بارے میں معلومات نہیں رکھتا۔ اس کے بعد باچاخان کے بارے میں ڈاکٹر صاحب ذرا سخت لہجے میں یوں مخاطب ہوئے کہ اگر باچاخان تحریکِ آزادی میں حصہ نہ لیتے اور برِصغیر سے انگریز کو نہ نکالتے، تو آپ لوگ آج بھی انگر یز کے غلام ہوتے۔ تھوڑی دیر بعد مَیں نے اپنی جیب سے ایک کارڈ نکال کر ڈاکٹر صاحب کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا، جس پر باچاخان اور ولی خان کی تصاویر لگی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کارڈ کو غور سے دیکھ کر احتراماً اسے چھوم لیااور کہا کہ تم تو کَہ رہے تھے کہ باچا خان بابا کو نہیں جانتے۔ میں نے جواباً کہا، ڈاکٹر صاحب! مَیں بس باچاخان بابا کے بارے میں آپ کے ریمارکس جاننا چاہتا تھا۔
کہتے ہیں کہ سیاست اور صدارت سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب افریقہ کے صدر نیلسن منڈیلا سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے اپنی قوم کے لیے جوانی کے 27 سال جیل میں گزارکر “One man one vote” کا حق جیت لیا اور پھر اُسی قوم نے یک آواز ہو کر آپ کو اقتدار تک پہنچایا۔ آپ کو بہت سارے ایوارڈز ملے اور پوری دنیا آپ کو عزت، احترام اور ایک ہیرو کی نظر سے دیکھتی ہے۔ آج آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ تو نیلسن منڈیلا کا جواب تھا: مَیں اپنی قوم کا مشکور ہوں، لیکن جہاں تک ہیرو بننے کا تعلق ہے، تو ہیرو میں نہیں، ہیرو تو باچاخان ہیں جنھوں نے انگریز سے آزادی، پاکستان میں آئین، پارلیمنٹ کی سپرمیسی اور مظلوم قومیتوں کے حقوق کے لیے 35 سال جیل کاٹی۔ کاش! باچاخان سے ملاقات نصیب ہوجائے۔
قارئین! آزادی کے بعد ملک کی پہلی دستورساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے باچاخان نے پیشکش کی کہ ہم تقسیمِ ہند کے نہیں بلکہ تقسیمِ مسلم کے خلاف تھے۔ اب چوں کہ پاکستان بن گیا ہے، تو سب مل کر اس ملک کو اسلامی جمہوری ریاست بنانے کے لیے کام کریں گے۔ لیکن اس ملک کے حکم ران طبقے نے مخلصانہ پیشکش کو قبول کرنے کی بجائے باچاخان کو ملک دُشمن اور غدار کے القاب سے نوازا۔
اسی عدمِ تشدد کے پیامبر باچاخان نے افغان جنگ کو امریکہ اور روس کی مفادات کی جنگ اور فساد قرار دیتے ہوئے ضیاء الحق کو دو سوپر طاقتوں کی جنگ میں پاکستان کو دھکیلنے سے بار بار منع کیا، لیکن اس وقت کے جرنیلوں نے ڈالرپسند مذہبی ٹھیکے داروں سے جہاد کے فتوے جاری کرکے غیروں کی لڑائی میں لاکھوں افغان پختونوں کا خون بہایا اور روس کے جانے کے بعد امریکہ کو افغانستان میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ پھر انھی حکم رانوں کو رہبرِ تحریک خان عبدالو لی خان نے اسمبلی کے فلور پر برملا کہا کہ آپ لوگوں نے افغانستان میں اسلام کے نام پر جو آگ لگائی ہے، یہی آگ ایک دن بارڈر کراس کرکے پاکستان کے کونے کونے میں پہنچے گی…… اور جنگ کے خاتمے کے بعد تو روس اور امریکہ کے ریگولرائز افواج حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسلحہ رکھیں گے، لیکن جنرل صاحب! آپ نے مذہب کے نام پر جو اسلحہ بردار جھتے بنائے ہیں، یہ آپ کا حکم مانیں گے اور نہ آپ کے قابو میں رہیں گے۔
قارئین، آج وہی ہوا…… روس اور امریکہ تو آرام سے بیٹھے ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، بلکہ اس میں روزانہ کے حساب سے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
باچاخان اور ولی خان کا تعلق چھوٹے صوبے سے رہا۔ باوجود یہ کہ مرکز میں حکومت آنے یا وزیرِاعظم بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن انھوں نے ہمیشہ آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ولی خان کو دعوت دی کہ آپ کو اللہ تعالا نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ آپ میرے ساتھ کابینہ میں شامل ہو جائیں، تاکہ کسی نہ کسی طریقے سے مشرقی پاکستان سے جان چھڑائی جاسکے۔ ولی خان نے جواب دیا کہ آپ کو کسی نے غلط مشورہ دیا ہے۔ کیوں کہ ولی خان پاکستان کو توڑنا نہیں، جوڑنا چاہتا ہے۔
قارئین! پچھلے سال جنوری اور فروری (2022ء) کو کراچی میں کئی سیاسی اور ادبی پروگراموں میں شرکت کی۔ کچھ دوستوں نے سندھ بار کونسل اور پھر سندھ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں اور سینئر وکلا سے ملاقات کا اہتمام کیا، جن کو جی ایم سید اور باچاخان کے ساتھ کئی بار ملاقات کرنے کا شرف حاصل رہا۔ ایک دن سندھ ہائی کورٹ کے وکلا نے محترم پرویز خان ایڈوکیٹ کے توسط سے مجھے ظہرانے پر مدعو کیا، تو باچاخان بابا کے حوالے سے ایک ریٹائر جج سائیں محمد خان برڑو اور دیگر نے بتایا کہ باچا خان بابا سندھ کے دورے پر آئے تھے اور جی ایم سید کے ہاں ٹھہرے تھے۔ حسبِ معمول ایک دن ہم ملاقات کے لیے گئے، تو دیکھا کہ باچاخان بابا کپڑے دھو رہے ہیں۔ اسی اثنا میں حمیدہ کھوڑو بھی باہر آئیں، تو کہنے لگیں کہ مَیں نے کئی بار بابا سے درخواست کی، کپڑے ہم گھر میں دھولیں گے، لیکن بابا نہیں مانتے۔ باچاخان بابا جواباً کہنے لگے کہ جب مَیں اپنے کپڑے تک نہیں دھوسکتا اور خود دوسروں کے لیے بوجھ بنوں، تو مظلوم قومیتوں کی کیا خدمت کروں گا؟
ایک دفعہ باچاخان بابا، مولانا مودودی سے ملنے گئے، تو رُخصتی کے بعد کسی نے مولانا مودودی سے پوچھا کہ بوجۂ بیماری اور مصروفیات آپ سفیروں اور بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ باہر نہیں نکلتے، باچا خان بابا کے ساتھ دروازے تک کیسے گئے؟ تو مودودی صاحب نے جواب دیا کہ باچاخان جیسے عظیم انسان کے ساتھ گاڑی تک جانا میں اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتا ہوں۔
اسی طرح ہندوستان کے وزیرِ اعظم راجیو گاندھی کو باچاخان بابا کی وفات کی خبر ملی، تو بغیر کسی پروٹوکول کے ہوائی جہاز کے ذریعے کنگم پارک پہنچ کر باچاخان بابا مرحوم کے سرہانے انتہائی غم زدہ کھڑے رہے۔ ایک فرانسیسی صحافی نے سوال کیا کہ باچاخان کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟ راجیو گاندھی نے مختصر مگر انتہائی جامع جواب دیتے ہوئے کہا: ’’اگر باچاخان اور گاندھی جی برصغیر سے انگریز کو نکالنے پر مجبور نہ کرتے، تو آج نہ ضیاء الحق پاکستان کے صدر ہوتے اور نہ مَیں ہندوستان کا وزیراعظم ہوتا!‘‘
جس وقت پارٹی نے ’’باچا خان امن ایوارڈ‘‘ عبدالستار ایدھی کو دینے کا فیصلہ کیا، اُن دنوں ہم لوگ کراچی میں تھے۔ کراچی کے نشتر پارک میں عظیم الشان جلسے میں جب عبدالستار ایدھی کو ایوارڈ سے نوازا گیا اور بعد میں صحافیوں نے ان کے تاثرات جاننے چاہے، تو ایدھی صاحب نے جواب دیا کہ مجھے تو امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر سے ایوارڈز ملے ہیں، لیکن باچاخان امن ایوارڈ سے مجھے جو خوشی اور سکون ملا ہے، یہ پہلے کبھی نہیں ملا۔ملیشا کپڑے اور سادہ زندگی گزارنا میں نے باچا خان بابا سے سیکھا ہے۔
اسی طرح کچھ دوستوں نے کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی جوکہ اب وزیرِ صحت ہیں، محترم عبدالقادیر پٹیل سے ملاقات رکھی۔ اے این پی صوبہ سندھ کونسل کے ممبر نور محمد، پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن صوبہ سندھ کے صدر آصف خان یوسف زئی اور راقم سندھ پیپلز پارٹی ضلع غربی کے سابقہ صدر محترم صدیق اکبر کی قیادت میں عبدالقادر پٹیل کی رہایش گاہ گئے۔ موصوف نے بڑی خندہ پیشانی اور گرم جوشی سے ہم سب کو ویلکم کیا۔ علیک سلیک کے بعد مَیں نے پوچھا کہ باچاخان اور ولی خان کے سیاسی نظریات اور جد و جہد کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ تو عبدالقادر پٹیل نے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے مختصر اور جامع جواب کچھ یوں دیا کہ خان صاحب! باچاخان جیسے ہمہ گیر شخصیت کا فلسفۂ عدمِ تشدد اور سیاسی نظریے کو آپ کسی قوم، ملک یا جغرافیائی حد تک محدود نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ باچا خان نے جس وقت عدمِ تشدد کا نعرہ بلند کیا تھا، اُس وقت دنیا کے نقشے میں ہندوستان اور پاکستان نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ عدمِ تشدد کا فلسفہ باچا خان بابا نے کسی ملک یا علاقے کے لیے نہیں، بلکہ پوری دنیا اور انسانیت کے لیے پیش کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ سمیت پوری دنیا جنگ، جدل، خون خرابے اور تشدد سے تنگ آکر عدمِ تشدد کے لیے ترس رہی ہے اور امریکہ سمیت پوری دنیا باچاخان کے فلسفۂ عدمِ تشدد پر ریسرچ کر رہی ہے، جب کہ کئی ممالک نے باچا خان کے نظریات اور فلسفے کو اپنے نصاب تعلیم کا حصہ بنایا ہے۔
اب جہاں تک ولی خان کے سیاسی وِژن کا سوال ہے، تو میری دانست میں ولی خان کا سیاسی وِژن سیدھا سادھا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ آپ میرے گھر میں مداخلت مت کریں، مَیں آپ کے گھر میں مداخلت نہیں کروں گا۔ آپ میرے حقوق چھیننے کی کوشش مت کریں، آپ کے حق سے میرا کوئی سروکار نہیں۔
دوسری بات یہ کہ ولی خان نے عمر بھر آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کے خلاف آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی اور مظلوم قومیتوں کے حقوق کی بات کی۔ ولی خان کی سیاسی اعلا ظرفی اور حب الوطنی کا اندازہ آپ اس بات سے باآسانی لگا سکتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ان کا وزیرِ اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ کئی ایشوز پر شدید اختلاف رہا، لیکن جب ملک کو آئین دینے کا وقت آیا، تو موصوف نے انتہائی اعلا ظرفی اور سیاسی دوراندیشی کا مظاہرہ کیا۔ آج مملکتِ خداداد پاکستان کو جو آئین ملا ہے، جو اس ملک کو یکجا کرنے کا ضامن ہے، تو اس کا سارا کریڈیٹ ذوالفقارعلی بھٹو اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر خان عبدالولی خان کو جاتا ہے۔
اگر اس ملک کی اصل قوتیں اور حکم ران پاکستان کو مستحکم جمہوری فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں، تو انھیں باچاخان بابا کا فلسفۂ عدمِ تشدد اور ولی خان کا سیاسی وِژن اپنانا ہوگا اور 1973ء کے آئین پر من وعن عمل کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر اس ملککا خدا ہی حافظ ہے۔
د ستر سالار پہ قیادت پورا باور دے زمونگ
چی کوم مرام راتہ راخائی رونڑو ھلتہ بہ زو
د باچاخان او ولی خان د قافلے ملگرو
سیلئی گلئی او کہ طوفان وی خو منزل تہ بہ زو