فضل محمود روخانکالم

مجذوب ’’مشرف خان دادا‘‘ کی کہانی 

  اب تو کافی عرصہ بیت گیا ہے، لیکن مینگورہ بازار کے چند من چلے دکان داروں کا یہ شیوہ تھا کہ جب بھی مشرف خان دادا بازار سے گزر رہے ہوتے، تو مذکورہ من چلے جلد ہی فون سے ایک نمبر ملاتے اور ریسیور اُن کو یہ کَہ کر تھما دیتے کہ دادا آپ کا فون ہے۔ مشرف خان دادا فون پر دیگر باتوں کے علاوہ اپنے مخاطب کو گالیوں سے نواز تے اور باتوں باتوں میں اُس کابرا حال کر دیتے۔
میرے ایک فوٹو گرافر دوست سلمان نے اپنی دکان میں دادا کی ایک تصویر آویزاں کی تھی، جس میں مشرف خان دادا کی ہتھیلی میں ایک کنکری دکھائی دیتی ہے۔ ناخن بڑے بڑے، سر کے بال اُلجھے ہوئے اور چہرے کی داڑھی میں وہ بہت پیارے نظر آ رہے ہیں۔ تصویر میں میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے سلمان نے وہ مجھے عنایت کردی۔
مشرف خان دادا اپنے چاہنے والوں سے اپنی مرضی کے پیسے بھی لیتے تھے۔ یہ اُن کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا کہ وہ کتنے پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں…… لیکن وہ نوٹوں کو جلا دیتے تھے، کوئی بھی اُن کی بات ٹال نہیں سکتا تھا۔ وہ نوٹ جلاتے، اس طرح کھیتوں میں گھاس پھونس یا کھیتوں کے باڑ تک کو آگ لگا دیتے تھے اور پھر دور بیٹھ کر اُسے تاپتے رہتے تھے۔ اگر جلانے کے لیے کوئی چیز نہ ملتی، تو اپنے کپڑے اُتار کر اُنھیں دیا سلائی دکھا دیتے۔
ایک دن صبح بازار میں، مَیں نے مشرف خان دادا کو دیکھا کہ صرف کرتہ پہنے ہوئے بغیر شلوار کے ننگے پاؤں چلے جارہے تھے۔ مَیں نے اُنھیں کہا، دادا! یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ اُسی وقت اُن کے لیے پاجامہ خرید کر اُنھیں پہنایا۔ دکان میں مختلف کپڑے دیکھ کر اُن کا دل للچایا، لیکن مَیں جانتا تھا کہ اگر اُن کے لیے مزید کپڑے لے لیے تو دادا نے اُنھیں نذر آتش کرنا ہے ۔
ایک وقت تھا کہ مشرف خان دادا سرحد ملز نوشہرہ میں کام کرتے تھے۔ راتوں کو اُٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے تھے۔ فجر نماز کی اذان دیتے تھے۔ پتا نہیں کہ وہ پھر کیسے مجذوبوں کی وادی میں پہنچے؟
دادا کو مَیں ایک عرصے سے جانتا تھا۔ اُن کا بھائی باور خان چوکی داری کرتا تھا۔ مَیں جب بھی اُن کے سامنے باور خان کا نام لیتا، تو وہ سلطان نامی شخص کو گالی دیتے۔ دادا مختلف علاقوں اور شہروں کا سفر کرتا اور وہاں قیام کرتا تھا۔ اگر کوئی گاڑی والا اُنھیں انکار کرتام تو دادا اُن سے پہلے وہاں پہنچ جاتا۔ گاڑی والا حیران رہ جاتا۔ ایسے واقعات اکثر ڈرائیوروں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، بلکہ اپنی گاڑی رُکواکر اُنھیں پھر اپنی گاڑیوں بٹھا کر لے جا تے۔ یوں دیکھا دیکھی سب ڈرائیور اُنیں خوشی سے اپنے ساتھ بٹھاتے اور انکار نہ کرتے۔ وہ زیادہ تر درگئی جایا کرتے تھے ۔
مشرف خان دادا کا ایک بیٹا خان پرست کراچی میں کام کرتا تھا۔ بعد اپنے والد کی خدمت اور دیکھ بھال کے لیے وہ سوات آگیا۔ اس کے بعد دادا پہلے کی طرح نہیں رہے۔ وہ سفید کپڑے پہنتے۔ صاف ستھرا رہنے لگے۔ خان پرست اُن کا سایہ بن کر ان کے ساتھ رہنے لگے۔ راستے میں اگر کوئی شخص دادا سے ملتا، تو خان پرست باادب دور کھڑا ہو جاتا۔
مَیں مشرف خان دادا کا بڑا خیال رکھتا تھا۔ اُن کے ساتھ بڑے احترام سے ملتا۔ اُن کا حال احوال پوچھتا۔ اس لیے خان پرست میرابھی خیال رکھتا تھا۔
ایک دفعہ کافی دنوں سے مجھے مشرف خان دادا نظر نہ آئے، تو مَیں نے خان پرست سے اُن کا حال پوچھا۔پتا چلا کہ وہ بیمار ہیں۔ خان پرست مجھے اپنے گھر لے گیا، تو دیکھا کہ دادا پلنگ پر تکیہ لگا کر بڑی شان سے بیٹھے ٹی وی دیکھنے میں مگن ہیں۔ ساتھ ہی اُن کا ایک عقیدت مند بھی بیٹھا اُن سے محوِ گفتگو ہے، لیکن دادا کا دھیان ٹی وی سکرین پر ہے۔
آج کل مشرف خان دادا اپنے گاؤں دنگرام میں ہوتے ہیں۔ وہ کافی ضعیف ہوگئے ہیں۔ گھر سے بہت کم نکلتے ہیں۔ خان پرست اُن کی خدمت پر مامور ہیں۔ مجھ سے جب بھی وہ ملتا ہے، دادا کی خیریت اور حال احوال سے ضرور آگاہ کرتا ہے۔
قارئین، بعض لوگ بہ ظاہر ہمارے ساتھ ایک ہی دنیا میں زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں، لیکن ان کی زندگی ہم سے بہت مختلف ہوتی ہے ۔ یہ اللہ والے ہوتے ہیں۔ صبر ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔ وہ بہت قانع ہوتے ہیں۔ جب کہ ہم دنیا والے دنیاوی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ زندگی سے کوسوں دور کسی اور دنیا کے باسی ہوتے ہیں۔
اللہ تعالا! ہماری حالت پر رحم فر مائے، آمین!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں