قارئین! ایک دن ہوا کچھ یوں کہ لیاقت بازار پشاور صدر کے بک سٹور سے میں کتابیں خرید رہا تھا کہ اس دوران میں بابا عبیداللہ خان درانی صاحب بھی آگئے۔ میں نے اُن سے مصافحہ کیا۔ اُنھیں خوش آمدید کہا۔ بابا نے مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ بابا، انجینئرنگ کالج پشاور یونیورسٹی کے پرنسپل رہ چکے تھے۔ اُن دنوں میری اُن سے جان پہچان نہیں تھی۔ بابا نے بونیر میں اپنے پیر و مرشد کے نام پر پاچا کلی سے چند کلومیٹر دور شمال میں ایک نہایت خوب صورت اور صحت افزا مقام پر (جب سوات ایک ریاست تھی، اس دور میں) ایک وسیع رقبے پر ’’قادر نگر‘‘ بنوایا تھا۔ میری اُن سے پہلی ملاقات قاسم جان استاد صاحب کی معرفت سے 1981ء میں ہوئی۔ اگرچہ قاسم جان استاد صاحب اُن کے مریدوں میں تھے، لیکن مَیں پہلی ملاقات میں اُن سے کافی متاثر ہوا تھا۔ وہ ایک متاثر کن شخصیت کے مالک تھے۔ وہ خدمتِ خلق میں دن رات مصروف رہتے تھے۔ اپنے مریدوں کو کہا کرتے کہ ٹوٹے ہوئے دلوں کی دعائیں لیا کرو اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کرو، اُن کی تکالیف دور کرو، اُن کے کام آنا اپنا وظیفہ بنالو۔
اگر کوئی اُن سے وظیفہ لینے کی استدعا کرتا، تو وہ فرماتے کہ مخلوقِ خدا کی خدمت کیا کرو، اس سے اللہ تعالا ملتا ہے۔
جس طرح بانیِ ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب نے مرغزار میں اپنے لیے سفید محل بنوایا تھا، بالکل اسی انداز میں بابا نے قادر نگر کی عمارتیں تعمیر کی تھیں۔ چوں کہ وہ خود انجینئر تھے، اس لیے موسم اور ماحول کو مدِنظر رکھتے ہوئے قادرنگر میں اُن کا فنِ تعمیر نمایاں نظر آتا تھا۔
بابا چاند گاڑی میں ندی نالوں اور پگڈنڈیوں کو پار کرکے قادر نگر تشریف لے آتے اور میرے جیسے عام لوگ پیر بابا سے پیدل چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا کرتے تھے۔ مَیں ہر سال گرمیوں میں قادر نگر جایا کرتا تھا۔
ایک دن قادر نگر جاتے ہوئے راستے میں پشاور یونیورسٹی کے اُردو ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر جعفری صاحب اور اُن کی بیوی سے ملاقات ہوگئی۔ وہ بھی قادر نگر پیدل جارہے تھے۔ گرمی کی وجہ سے وہ پسینے میں شرابور تھے اورتھکے ماندے آہستہ آہستہ چلے جا رہے تھے۔ اُن کے ہاتھوں میں ایک پوٹلی میں کچھ سامان بھی تھا، یعنی یہ بوجھ بھی الگ وہ اپنے ساتھ لے جا رہے تھے۔ مَیں نے وہ پوٹلی اُن سے لے لی اور اُن سے آگے نکل گیا۔ میاں بیوی پیچھے پیچھے آہستہ چلے آرہے تھے۔ مجھ سے کافی دیر بعد وہ قادر نگر پہنچے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب قادر نگر کی سڑک نہیں بنی تھی۔ اب تو وہاں جانا بہت آسان ہے۔
بابا درانی، پروفیسر جعفری صاحب اور دیگر حاضرین کھلی فضا میں درخت کے جھنڈ میں کرسیوں پر بیٹھ گئے اور جعفری صاحب کی بیگم زنان خانے میں چلی گئیں۔
ایک دن میں اپنے دوستوں کے ساتھ قادر نگر کی طرف چل نکلا۔ بابا درانی صاحب جب تک بقیدِ حیات تھے، تو قادرنگر کے تمام دروازے ہمارے لیے کھلے تھے۔ میرے لیے بطورِ خاص کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ ایک بڑے ہال سے ہوتے ہوئے مَیں ایک کمرے داخل ہوا، تو وہاں پشتو ادب کی نامی گرامی شخصیت امیر حمزہ خان شنواری صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ وہ بیمارتھے اور اپنے خادم کے ہم راہ گرمیاں گزارنے قادر نگر آئے تھے۔ حمزہ بابا سے ملنے کے بعد میں باہر نکل آیا۔ قریب ہی ندی بہہ رہی تھی اور درختوں کے سائے میں جگہ جگہ ڈگر کالج کے طلبہ مختلف ٹولیوں میں پکنک منانے میں مصروف تھے۔ مَیں نے اُنھیں امیر حمزہ خان شنواری کی موجودگی کی نوید سنائی، اور اُنھیں بابا سے ملاقات کے لیے اپنے ساتھ کمرے میں لے آیا۔ بابا سے میں نے طلبہ کا تعارف کروایا کہ یہ آپ سے ملنے کے لیے اپنا پکنک انجوائے کرنا چھوڑ آئے ہیں۔ اُس کے بعد مَیں نے بابا کی شان میں چند تعارفی کلمات کَہ کر اُن کے چند اشعار سنائے۔ امیرحمزہ خان شنواری نے خوش ہوکر اپنی واسکٹ کی جیب سے ایک نوٹ بک نکالا اور اپنے تازہ کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ مشاعرے کے اختتام پر مَیں نے بابا سے گروپ تصویر بنانے کی فرمایش کی۔ بابا نے باہر پھولوں کے کیاری میں ہمارے ساتھ تصویر بنوائی۔ اس سارے عمل میں بابا کے خادم نے اُن کو سہارا دیا ہوا تھا۔ اُس کے بعد محفل برخاست ہونے پر طلبہ اپنا پکنک منانے میں جت گئے اور مَیں بابا کے ساتھ کمرے میں واپس آگیا ۔
کافی دیر تک مَیں بابا کی محفل میں بیٹھارہا۔ پھر رخصت لی۔ با با نے مجھ سے کہا کہ مَیں اسلام بہادر خان کمشنر سے ملنے سیدو شریف آؤں گا، تو مینگورہ میں آپ سے ملنے آؤں گا۔
چند دن گزرنے کے بعد مجھے بابا امیر حمزہ خان شنواری کا خط ملا۔ لکھا تھا کہ روخان صاحب آپ کے جانے کے بعد میں بہت بیمار ہوگیا۔ گاؤں سے میرے لوگ مجھے لینے آگئے اور مجھے گاؤں لے گئے۔ اِس لیے آپ سے ملاقات نہ ہوسکی۔
بابا سے میری چند ملاقاتیں پشاور میں ہوئی ہیں۔ اکتو بر 1987ء میں ہم اہلِ قلم کانفرنس میں تین دن اکٹھے ادبی پروگرام میں رہے ہیں۔ مینگورہ مین بازار کے کتھڑہ میں ان کے ایک قریبی ساتھی کے کپڑے کی دکان تھی۔ گرمیوں میں وہ سوات آتے تھے۔ والی صاحب کی جشنِ تاج پوشی میں ہرسال ایک اعلا پائے کا مشاعرہ ہوتا تھا۔ اُس میں پختونخوا کے نامی گرامی شعرا حصہ لیتے تھے، جس میں حمزہ بابا شامل ہواکرتے تھے۔
قارئین! مَیں ریاستی دور میں کم سن تھا۔ اس لیے مجھے جشنِ تاج پوشی بہت کم یاد پڑتا ہے۔ بس اتنا یاد ہے کہ وہ سواث اور اہلِ سوات کے لیے سنہرا دور تھا اور سوات صرف اہلِ سوات کے لیے مخصوص تھا۔ اب سوات چوں چوں کا مربہ اور باہر سے آئے ہوئے لوگوں کی وجہ سے مختلف مسائل کی آماج گاہ بن گیا ہے۔ سوات کے اپنے لوگوں کی پہچان نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
دوسری بات یہ کہ آبادی حد سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، جو خود ایک بڑا مسئلہ اور سوات کی ترقی میں بڑی رُکاوٹ ہے۔