ہمارے سادہ اور ملنگ دوست شاہ وزیر خان خاکی ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں جن کی خدمات کو قلم کی نوک اور سطحِ قرطاس پر تحریر کرنا اور سمونا ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ وہ اُن شخصیات میں سے ہیں جو خاموشی سے سب کچھ کر گزرتے ہیں لیکن کسی قسم کے نام و نمود اور سستی شہرت کی خواہش نہیں رکھتے۔ یقین جانئے کہ ایسے لوگوں کی موجودگی سے دنیا کی رونق بحال ہے۔ یہ موجودگی دم توڑتی اور جھلسی انسانیت میں تازہ ہوا (آکسیجن) کا کام دیتی ہے۔
خاکی پشتو زبان میں ماسٹر کرچکے ہیں۔ علم و ادب اور کتاب سے بے انتہا محبت رکھتے ہیں۔ وہ تاریخی جہانزیب کالج میں لائبریرین کی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ اُن سے گلے مل کر ان سے کتابوں کی خوشبو آنے کا احساس ہوتا ہے۔ وہ ’’خپل کور فاؤنڈیشن‘‘ جیسے اعلیٰ تعلیمی سماجی ادارے کے ایگزیکٹیو ممبر بھی ہیں۔ 2005ء سے 2007ء تک سویڈن حکومت کے تحت “Save the Children” اور “Red Cross” میں بے پناہ سماجی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ 2014ء میں ایشیا فاؤنڈیشن کی طرف سے سماجی، معاشرتی خدمات پر ایوارڈ (Denent) حاصل کرچکے ہیں۔ اُسے اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے Ret ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ انہوں نے سوات میں اُس وقت سکیورٹی اداروں، انتظامی اور سماجی اداروں کے ساتھ خدمات سرانجام دی ہیں جب ہر طرف خوف، ڈر اور دہشت کا دور دورہ تھا، لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ انہوں نے بیک وقت اپنے قلم سے ادبی خدمات کا حق بھی پورا پورا ادا کیا ہے۔ ان کی لکھی ہوئی تین عدد کتابیں صرف کتابیں نہیں بلکہ یہ پختون قوم کے تہذیب و تمدن اور پشتو زبان کے حوالے سے اعلیٰ پائے کی تحقیق کا درجہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے گل و بلبل کی شاعری کرکے عبث وقت ضائع نہیں کیا ہے بلکہ محنت، جستجو اور تلاش کرکے پشتو ادب کے ماضی اور حال کو بہتر طریقے سے پیش کیا ہے۔ آپ کی ادبی خدمات کو پشتو ادب کی تاریخ میں مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ ان کی تخلیق کردہ کتب پشتو کی ایسی تصانیف ہیں جو ادبی ایوارڈ کی بلاشبہ حق دار ہیں۔
خاکی صاحب کی پہلی تصنیف ’’پہ ٹپہ کی د سترگو ہر اڑخیز جاج‘‘ یعنی ’’ٹپہ میں آنکھوں کا ہر اڑخ سے جائزہ‘‘ ہے۔ یہ کتاب چوں کہ میرے پاس نہیں ہے، اس لیے اس پر تبصرہ تو نہیں کرسکتا۔ البتہ موضوع کے حوالے سے بلاتبصرہ یقیناًکہا جاسکتا ہے کہ اُن ٹپوں کا ذکر ہوچکا ہوگا جن میں غزال آنکھوں، خوبصورت آنکھوں، نشیلی آنکھوں، بجھی ہوئی آنکھوں، شرابی آنکھوں، غمزدہ آنکھوں، پیغامی آنکھوں کی صفات، تعریف، تشبیہات موجود ہوں گی۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ صرف پشتو نہیں بلکہ تمام زبانوں کی شاعری میں آنکھوں کا بیانیہ لازمی امر ہے۔
دوسری کتاب ’’پہ سوات کے د ماشومانو زڑی لوبی‘‘ یعنی ’’سوات میں بچوں کے پرانے کھیل‘‘ ہے۔ یہ ایک کار آمد ماضی کی وہ تاریخ ہے جس سے ہر پختون اپنے بچپن کے مختلف ادوار سے گزر چکا ہے۔ ماضی کی وہ حسین یادیں جنہیں بھلایا جاسکتا ہے نہ واپس بلایا جاسکتا ہے، اس حقیقت کے ساتھ یہ کتاب بلاواسطہ ماضی کی حسین یادوں اور تاریخ پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب ماضی اور حال کے اَنگنت فاصلوں کا احاطہ کی ہوئی ہے۔ اس کتاب میں 31 عدد پرانے کھیلوں کا حال احوال، قوانین و ضوابط سمیت ایسے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان اپنی پرانی یادوں میں کھو سا جاتا ہے اور بے اختیار یہ شعر زبان پر آجاتا ہے کہ
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
یہ کتاب ابھی حال ہی میں 2017ء میں شعیب سنز پبلی کیشنز نے شائع کی ہے۔ خوبصورت، مجلد، سفید کاغذ اور ایک سو چھتیس صفحات پر مشتمل اس خوبصورت کتاب پر پشتو زبان کے دانشور اور اُستاد ڈاکٹر محمد علی دینا خیل، پشتو زبان کے شاعر اور عاشقِ کتب اتل افغان اور استادوں کے استاد، شاعر، نثر نگار دانشور اور سینئر صحافی جناب فضل ربی راہیؔ صاحب نے تمہیدی اور قیمتی خیالات قلم بند کئے ہیں۔ یہ کتاب گاوؤں، دیہاتوں کی گلی کوچوں، دشتوں، میدانوں میں کھیلے ہوئے پرانے رواجی، روایاتی کھیلوں پر مشتمل مکمل ایک شاہکار یادگار ہے جس میں اور باتوں کے علاوہ پرانے کھیلوں کے یاد گار نام خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ خاکیؔ صاحب نے ایک ملاقات میں مجھے بتایا کہ یہ تحقیق ابھی نامکمل ہے۔ بہت سے ایسے کھیل باقی ہیں جن پر جستجو اور تحقیق کرکے اس حوالہ سے ایک اور مکمل کتاب شائع کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ خاکیؔ صاحب کو ہمت اور حوصلہ دے کہ وہ اس کارِ خیر کو اختتام تک پہنچادے۔ میں اس خوبصورت کتاب پر اُسے دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں اوربہت ممنون ہوں کہ انہوں نے یہ کتاب بطور تحفہ مجھے عنایت کی ہے۔ ’’دنیا کے تمام بچوں کے نام‘‘ یہ اس کتاب کا انتساب ہے جو نہایت اعلیٰ، پاکیزہ اور معصوم ہے۔
شاہ وزیر خان خاکی کی دوسری اہم اور تحقیقی کتاب ’’پہ ٹپہ کے مادی فوکلور‘‘ ہے۔ اس کا مختصر مطلب یہ ہے کہ پشتو زبان میں ایسے ٹپے جن میں پختون تہذیب کے رواجی و روایاتی زیورات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس تاریخی کتاب میں تمام پرانے زیورات کے نام اور استعمال کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔ اُن علاقوں کا ذکر ہے جس میں یہ زیورات استعمال کئے جاتے تھے۔ اس میں تقریباً بارہ عدد زیورات کا ذکر ہے۔ علاوہ ازیں اُن ٹپوں کا بھی ذکر ہے جن میں میچن، چیلم، رباب، پیزار، تبی کو یاد کیا گیا ہے۔ زیورات میں چارگل، باہو، اوگئی، پاول، ٹیک، لونگین، ہیکل اور نتکئی کا تفصیلاً ذکر ہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں بے شمار خوبصورت ٹپوں کو تحریر کیا گیا ہے جن میں ان تمام زیورات کو رومانوی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر زیور کی تاریخ، پہننے کا انداز، عمر اور طور طریقے بیان کئے گئے ہیں۔ خوبصورت مجلد نرم کاغذ کے 120صفحات پر مشتمل اس کتاب پر پروفیسر محمد علی دینا خیل نے تمہیدی دیباچہ تحریر کیا ہے۔ میں اس اعلیٰ اور تاریخی کاوش پر خاکی صاحب کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور کتاب کو تحفتاً عنایت کرنے کا ممنون ہوں۔
قارئین، جاتے جاتے مادی فوکلور کی وضاحت ایک بار پھر کرتا چلوں کہ پشتو زبان کہ ایسے ٹپے جن میں مادی اشیا کا ذکر کیا گیا ہو۔ کتاب سے چند ٹپے حاضر خدمت ہیں
اوس راتہ نیغ پہ سترگو گورہ
ستا د پیزوان پہ پرو غوس یم مڑ بہ شمہ
چارگل پہ پوزہ کہ خدائے یاد کہ
کہ چیری یار دی مسافر وی رابہ شینہ
ٹیک پہ تندی پیزوان پہ شونڈو
اوگی پہ غاڑہ د جینئی مزہ کوینہ
چار گل نتہ خالونہ سور پیزوان سرہ یو زائے شو
زما یو مرگ تہ سومرہ قاتلان سرہ یو زائے شو
کتاب کے آخری صفحات میں پختونوں کی عام زندگی کے ساتھ ٹپے کے تعلق اور نزدیکی کی بحث کی گئی ہے۔ پختونوں کی عام استعمال کی روز مرہ اشیا جیسے، غلیل، خاخئی، یوہ، جغ، غلبیل، قلفی، برغولے، تنور سب اشیا کو ٹپہ کے وسیع دامن میں سمویا گیا ہے۔
اس طرح دونوں کتابوں کے آخر میں حوالوں کی تفصیل درج کی گئی ہے جو شاہ وزیر خان خاکی کے شوقِ مطالعہ کی واضح مثال ہے۔
متعلقہ خبریں
- کمنٹس
- فیس بک کمنٹس