فياض ظفرکالم

سوات کی حالتِ زار

پچھلے عام انتخابات کے بعد جب وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کا سلسلہ آیا اور جب یہ خبر سوات کے عوام تک پہنچی کہ وزیر اعلیٰ کے لیے سوات کے محمود خان کو نامزد کیا گیا ہے، تو سوات کے عوام کے چہروں پر ایک عرصہ بعد مسکراہٹ نظر آئی۔ سوات کے عوام نے تاریخ میں پہلی بار یہاں سے وزیر اعلیٰ کے انتخاب پر اس امید کے ساتھ مٹھائیاں بانٹیں کہ وہ سوات کی محرومیوں کا ازالہ کریں گے۔ شورش و سیلاب سے متاثرہ سوات کے عوام کے احساسِ محرومی کو دور کریں گے۔
سوات اس وقت بھی گونا گوں مسائل سے دو چار ہے۔ آج یہاں سب سے بڑا مسئلہ صحت کا ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کے آٹھ اضلاع سوات، شانگلہ، بونیر، ملاکنڈ، دیر لوئر، دیر اپر، چترال اور باجوڑ کی ستر لاکھ آبادی کے مریضوں کا بوجھ ملاکنڈ ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر سیدو شریف ہسپتال پر ہے۔ ایم ایم اے دورِ حکومت میں سیدو شریف ہسپتال میں بارہ سو بستروں پر مشتمل ایک جدید اور اس بوجھ کو برداشت کرنے والے ہسپتال کا افتتاح کیا گیا تھا، جس کے فیز وَن میں پانچ سو بستروں پر مشتمل ہسپتال کی تعمیر مکمل ہوئی تھی، لیکن کئی سالوں سے تعمیر شدہ یہ ہسپتال آج بھی ویران پڑا ہے اور سٹاف سمیت سامان کے انتظار میں ہے۔ لوگ ’’اپنے وزیر اعلیٰ‘‘ سے امید رکھے ہوئے ہیں کہ وہ اس ہسپتال کو سٹاف اور سامان مہیا کرکے اس کا افتتاح کریں گے۔ اس طرح فیز ٹُو میں پانچ سو بستروں پر مشتمل ہسپتال کو تعمیر کریں گے۔
سیدو شریف کے موجودہ ہسپتال میں سٹاف کی کمی بھی ہے۔ اس پر8 اضلاع کی 70 لاکھ آبادی کا بوجھ ہے۔ سیدو شریف ہسپتال میں والئی سوات دور کی ایکسرے مشین اور اس کے ساتھ الٹرا ساؤنڈ مشینیں ناکارہ ہوچکی ہیں۔ اس ہسپتال میں جدید ترین ایم آر آئی اور سٹی سکین مشینیں بھی سات ماہ سے خراب پڑی ہیں۔ میڈیا میں بار بار ان مشینوں کی خرابی کو ہائی لائٹ کیا گیا ہے، لیکن یہ آواز وزیر اعلیٰ سمیت کسی کے کانوں تک نہ پہنچ سکی ہے۔ نتیجتاً مذکورہ مشینیں تاحال خراب پڑی ہیں۔
اس طرح سیدو شریف ہسپتال میں ہر روز ٹراما اور ہیڈ انجریز کے مریضوں کو لایا جاتا ہے، لیکن ایم آر آئی اور سٹی سکین کی مشین خراب ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر مذکورہ مریضوں کو پشاور کے ہسپتالوں میں منتقل کرتے ہیں، جن میں سے اکثر مریض راستہ میں دم توڑ دیتے ہیں۔
اس ہسپتال میں آئی سی یو اور سی سی یو، زلزلہ سے متاثرہ ایک خستہ حال عمارت میں قائم ہیں، جہاں مریض زیادہ اور بستر کم ہیں۔ اس وجہ سے اکثر امراضِ قلب کے مریض گھروں سے چارپائی لاکر برآمدوں میں علاج کرانے پر مجبور ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے مالی تعاون سے تعمیر شدہ ایمر جنسی اینڈ ٹراما سینٹر کی حالت بھی دن بدن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ ہسپتال میں ایک سو سے زائد کلاس فور اور سوئپر کی اسامیاں ایک عرصہ سے خالی ہیں، جس کی وجہ سے ہسپتال گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے۔
یہ ہی نہیں بلکہ سوات کے اس مرکزی ہسپتال میں شعبۂ اطفال کے لیے صرف دو وارڈ مختص ہیں، جہاں ایک ایک بستر پر تین تین بچے داخل کروائے جاتے ہیں۔ گائنی کے شعبہ کا حال بھی باقی شعبوں سے کم ابتر نہیں۔ بسا اوقات خواتین گائنی وارڈ کے باہر راستہ میں بچوں کو جنم دیتی رپورٹ ہوئی ہیں۔ اس ہسپتال میں مریض بچوں اور خواتین کا بوجھ زیادہ ہے۔ اس وقت اشد ضرورت ہے کہ سوات میں چلڈرن اور گائنی کے لیے علیحدہ ہسپتال تعمیر کیے جائیں۔
دوسری طرف پنجاب حکومت کے تعمیر کردہ نواز شریف کڈنی ہسپتال میں بھی سٹاف کی کمی کی وجہ سے مریضوں کا علاج معالجہ بہتر طریقے سے نہیں ہو پا رہا۔
اس طرح اگر تعمیراتی شعبے کا ذکر کیا جائے، تو سوات جیل کی تعمیر دس سال بعد بھی مکمل نہ ہوسکی، جس کی وجہ سے معمولی مقدمات میں قید مریضوں کو ڈگر بونیر یا تیمرگرہ کی جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ ان قیدیوں کو ان جیلوں سے سوات کی عدالتوں میں لانے پر سالانہ کروڑوں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے۔
والئی سوات دور کی تعمیر شدہ صوبے کی مشہور درسگاہ جہانزیب کالج کی تاریخی عمارت کو زلزلہ سے متاثرہ قرار دے کر گرایا جا چکا ہے، لیکن اس کی تعمیراتی کا م کا آغاز تاحال نہیں کیا جاسکا ہے، جس کی وجہ سے اس سال دو ہزر سے زائد طلبہ داخلوں سے محروم رہے۔ سوات یونیورسٹی کی عمارت بھی تاحال مکمل نہ ہوسکی، جس کی وجہ سے سوات یونیورسٹی کے طلبہ کرایہ کی عمارتوں میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔
سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے لیے سابق وزیر اعظم کے سابق مشیر امیر مقام نے تھانہ کے مقام پر اربوں روپے کی لاگت سے ایک علیحدہ گرِڈ سٹیشن تعمیر کروایا جس کی وجہ سے سوات میں لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان تک نہ تھا، لیکن اب موسمِ سرما میں بھی سوات میں بدترین لوڈ شیڈنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
موسمِ سرما کے آغاز سے لے کر اب تک سوئی گیس کی بدترین لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ الگ سے جاری ہے۔ دن رات میں ایک یا دو گھنٹوں کے لیے صارفین کو گیس فراہم کی جاتی ہے۔ حالیہ بارشوں اور برف باری کے بعد سخت ترین سردی میں گیس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ موسمی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
سوات جس کی سب سے بڑی صنعت سیاحت ہے، لیکن اس کی اندرونی سڑکوں کی انتہائی خراب صورتحال کی وجہ سے یہ صنعت بھی تباہی کے دہانے پر ہے۔ ملم جبہ، کالام، کوکارئی، مہوڈنڈ اور دیگر سیاحتی مقامات کی سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں جس کی وجہ سے موسمِ گرما اور سرما میں آنے والے سیاح شدید مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ سوات کے عوام اب بھی ’’اپنے وزیر اعلیٰ‘‘ سے امید رکھے ہوئے ہیں کہ وہ سوات کے مذکورہ اہم مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کریں گے اور عوام کے احساسِ محرومی کا خاتمہ کریں گے۔ اگر اپنے ضلع کے وزیر اعلیٰ کے دور میں بھی سوات کے بنیادی مسائل حل نہ ہو سکے، تو پھر سوات کے عوام اپنے آپ کو بدقسمت ہی تصور کریں گے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں