ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

یہ کیسی تبدیلی ہے؟

یہ کیسی تبدیلی ہے؟ جس میں عوام کے ساتھ محض وعدے وعید سے کام چلایا جاتا ہے۔ نام نہاد تبدیلی دراصل گرانی اور افراطِ زر کے مترادف دکھائی دے رہی ہے۔ عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی ہے۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ عوام کو آسانیاں اور گرانی سے چھٹکارا مل جاتا۔ پی ٹی آئی کے نعرے تو خوب ہیں، مگر عمل اس کے برعکس۔ چاہے وہ کرپشن کا چورن ہو، یا موروثی سیاست کے خاتمے کا تڑکا ہو۔ پچاس لاکھ گھر ہوں یا ڈیڑھ کروڑ نوکریاں، ادارتی ساخت میں تبدیلی کا ڈھونگ ہو یا اداروں کو قانون کے تابع بنانے کا بھونڈا مذاق، یا پھر تعلیم اور صحت میں انقلابی تبدیلی اور عوامی تائید حاصل کرنے کا جھوٹا پروپیگنڈا ہو، اس طرح کون سے نئے پروجیکٹ ہیں جو شروع ہوئے ہیں؟ تُف ہے ایسی حکومت پر جس میں ملک کو چند مہینوں میں ایک مکمل بھکاری ریاست بنا دیا گیا۔ عوام کو غیر ملکی امداد کے نام پر مضبوط شرحِ سود اور کڑی شرائط کے مطابق قرض کا چونا لگایا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق اس کم عرصہ میں انتالیس کھرب روپے کا قرضہ لیا گیا۔ حکومتی اور ادارتی صورتحال مگر پھر بھی کنٹرول سے باہر ہے۔ حکومت کو حج سبسڈی ختم کرنا پڑی۔ توانائی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ کیا گیا۔ پُرتعیش اشیا پر ٹیکس لگائیں یا ان کو ختم کریں، مگراشیائے خور و نوش پر ٹیکس لگانا کہاں کا انصاف ہے؟
صحافیوں اور عام شہریوں سے آزادیِ اظہارِ رائے چھین لی گئی۔ ملک عملاً عقوبت خانے میں تبدیل ہوچکا۔ بغیر کسی ثبوت کے شہریوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان کو بلا وجہ جیل میں بند کیا جاتا ہے۔ اقتدار کی خاطر رسہ کشی ہنوز جاری ہے۔ یہ بھی بھونڈا مذاق ہے کہ دو تین سالوں میں ملکی ترقی کے ثمرات عام لوگوں کو ملنا شروع ہو جائیں گے۔ تبدیلی سرکار کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ یہاں پرصحت انصاف، کے پی پولیس، بی آر ٹی پشاور، بلین ٹری سونامی، یونیورسٹیز، کالجز، سڑکیں، پل وغیرہ کا تذکرہ یہاں مقصود نہیں۔ عوام کو ریلیف چاہیے، گرانی و بے روزگاری سے چھٹکارا چاہیے، آزادیِ اظہار چاہیے۔
صدر اشرف غنی کی ٹویٹ سے گویا آسمان ٹوٹ پڑا۔ جس پر دل آزاری ہونے کی صورت میں انہوں نے معافی بھی مانگ لی۔
ایک طرف بنگلہ دیش ہے جو ایک سروے کے مطابق 2025ء تک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجائے گا، اور دوسری طرف ہم ہیں کہ ایک قدم آگے اور دو پیچھے کے مصداق ’’رواں دواں‘‘ ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ بنگلہ دیش ہے جس کے حوالہ سے کہا جاتا تھا کہ ’’اگر یہ بھوکی ننگی قوم الگ ہوئی، تو ہم ترقی کر لیں گے۔‘‘ مگر آج ہم کہاں پھنس گئے ہیں اور وہ کہاں پہنچ گئے۔ دل گردہ چاہیے اس جیسی باتوں کو ہضم کرنے کے لیے۔ بڑا دل رکھنا ہوگا۔ کیا حقوق کو سلب کرنے کا عمل فاٹا، جنوبی پختون خوا، بلوچستان اور سندھ میں جاری نہیں؟ عوامی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا عقدہ کھل رہا ہے۔ منظر اور پیش منظر واضح دکھائی دینے لگا ہے۔ سٹیٹس کو اسی طرح برقرار ہے۔ کیا متذکرہ صوبوں کے لوگ اپنے آپ کو دوسری درجے کا شہری تصور نہیں کرتے؟ مَیں یہ نہیں کہتا کہ پچھلی حکومتوں نے اچھا کام کیا ہے، بلکہ ان حکومتوں کے بوئے ہوئے بیج تھے جو آج تناور درخت بن چکے ہیں۔ مَیں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہوش سے کام لیا جائے، ان علاقوں میں بھی انسان رہتے ہیں اور ٹھیک اس طرح کے ان کے حقوق ہیں جس طرح اسلام آباد میں رہائش اختیار کرنے والے افراد کے تھے۔
بعض دانستہ و نادانستہ اقدامات کی وجہ سے ملک دیوالیہ پن کے نزدیک ہے۔ مِنی بجٹ میں اگر ایک طرف عوام کو کچھ ریلیف دیا گیا ہے، تو دوسری طرف مختلف اشیا جیسے صحت، ادویہ اور توانائی میں گرانی کا بم گرایا گیا ہے۔ دراصل یہ مہنگائی کی سرکار ہے۔ اگر ایک طرف یہ مختلف قسم کے قوانین لاکر نیک مقصد رکھتی ہے، تو دوسری طرف عوام پر ٹیکس لگا کر مختلف قسم کی سبسڈی کم کرکے مزید بوجھ ڈالنا چاہتی ہے۔ درحقیقت عوام نے پی ٹی آئی کی حکومت کو اس لیے ووٹ دیا تھا کہ وہ اداروں کی بنیادی ساخت میں تبدیلی لائے گی۔ حکومت کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان اور عوام کی بے چینی کو کم کرے۔ دوسری طرف جہاں پر بھی ظلم اور غیر قانونی واقعات ہو رہے ہوں، تو اس کے لیے بھرپور آواز اٹھاتے ہوئے مؤثر طریقے سے مظلوموں کی آواز کو آگے لے جا کر انصاف کے تقاضے پورے کر کے انہیں انصاف دلایا جائے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں ساہیوال پولیس کی بربریت کا واقعہ ہو، خیسور کا ہو، لورالائی میں پولیس آئی جی بم دھماکا ہو، ایس پی طاہر داوڑ ہو، سمیع الحق کا واقعہ ہو یا پروفیسر ابراہیم ارمان لونی کا ریاستی اداروں کی طرف سے بہیمانہ اور وحشت سے بھرپور قتل ہو، ان سب کے خلاف آواز اٹھانا ریاست اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے، لیکن اس کے برعکس حکومت نے اس پر کوئی آواز نہیں اٹھائی اورٹس سے مس نہ ہوئی۔
قارئین، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزارتِ داخلہ شفاف تحقیقات کرنے کا بیڑا اٹھاتی، لیکن الٹا اکثر واقعات کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، جس کو روکا جانا چاہیے اور جس کے خلاف عوام میں حکومت کے خلاف نفرت اور عدم اعتماد کی فضا بن رہی ہے۔ ریاستی اداروں پر سے یقین ختم ہونے کو ہے۔ جو بنیادی حقوق آرٹیکل 8 سے لے کر آرٹیکل 28 تک آئینِ پاکستان دیتا ہے، اس کی مکمل خلاف ورزی سے ریاست عوام کے حقوق کو تحفظ دینے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ جب محرومیاں حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں، تو اس وقت عوام فساد پر آمادہ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ عوام کا اعتماد اس وقت بحال ہوسکتا ہے، جب سچ اور حق بولا جائے، جب جھوٹ سے پرہیز کیا جائے، جب تمام غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول کیا جائے۔
قارئین، میری نظر میں صرف دو ہی نِکات ہیں، جن سے ملک مزید بے چینی اور افراتفری سے بچ سکتا ہے۔ اس میں پہلے نمبر پر صوبائی حقوق کا اِزالہ اور ان کے آئینی حقوق کا دفاع ہے، جب کہ دوسر ے نمبر پر ملکی ترقی کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر ملکی معاشی پلان ترتیب دیناہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں