خواجہ نوید کالم

ملاکنڈ یونیورسٹی اور تعلیم و تحقیق

جب سے ملاکنڈ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی مینجمنٹ میں داخلہ لیا ہے، تو کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب وہاں کوئی تعلیمی، تحقیقی یا کوئی اور مقصدی سرگرمی منعقد نہ ہوتی ہو۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ڈیپارٹمنٹ آف مینجمنٹ اینڈ کامرس نے دو روزہ قومی کانفرنس منعقد کی جس کا عنوان “Towards sustainable development: Applied Management Research for solving indigenous problems.” تھا۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد انتظام و انصرام کے میدان میں ایسے تحقیقی کام کا فروغ تھا، جو ہمارے مقامی انڈسٹری اور اداروں کے مسائل کے دیرپا حل میں ممد و معاون ثابت ہو۔
اس ریسرچ کانفرنس میں ملک کے طول و عرض سے بہترین تحقیق کاروں نے شرکت کی۔ بنیادی طور پر یہ کانفرنس سرحد یونیورسٹی اور ملاکنڈ یونیورسٹی نے اشتراک عمل سے منعقد کی تھی۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اپنی اعانت میں پانچ لاکھ روپے کی کمی کرکے ساڑھے سات لاکھ کی بجائے محض دو لاکھ روپے کی منظوری دی تھی، اس لیے کانفرنس کے منتظمین کو اپنی مدد آپ کے تحت اپنے وسائل کو کشید کرنا پڑا، لیکن آفرین ہے کہ کانفرنس کے انتظامات میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔
کانفرنس کے پہلے روز محترم وائس چانسلر جناب ڈاکٹر گل زمان صاحب اور کانفرنس ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر ارشد صاحب کے خطابات کے علاوہ دو کلیدی خطابات سے بہرہ ور ہوئے۔ نَسٹ بزنس سکول اسلام آباد کے ہیڈ آف ریسرچ ”ڈاکٹر نصیر اختر صاحب“ نے تحقیق کو کار آمد بنانے کے حوالے سے بات کی۔ عالمی سطح کی تحقیقات کی خصوصیات اور معیارات کا جائزہ پیش کرکے انہوں نے ملکی تحقیق کاروں کو مہمیز دی کہ کمزور معیار کی تحقیق سے ہم الٹا نقصان کا مؤجب بن رہے ہیں۔
علاوہ ازیں سرحد یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر سلیم الرحمان صاحب نے فیصلہ سازی کے عمل میں آپریشنل ریسرچ کے حوالے سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ بعد اَزاں دو دنوں میں ہمہ وقت 3 سیشنوں کی بنیاد پر کل 9 سیشن منعقد ہوئے، جن میں مجموعی طور پر 58 مقالات پیش کیے گئے اور 200 سے زائد بیرونی مہمانوں نے شرکت کی۔ 3 سیشن ہیومن ریسورس مینجمنٹ، 3 اکاؤنٹنگ اور فائنانس اینڈ گورننس اور 3 مارکیٹنگ اور جنرل مینجمنٹ اینڈ گورننس کے حوالے سے ترتیب پائے۔ ہر سیشن میں 2 سے 3 ماہر پینلسٹ اور ایک چیئر پرسن نے مقالات کے جائزے و تحلیل اور تجاویز کی ذمہ داری اداکی۔
ان ماہرین میں فیصل آباد کے لائل پور سکول آف بزنس، انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سٹڈیز یونیورسٹی آف پشاور، عبد الولی خان یونیورسٹی، سرحد یونیورسٹی، انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز پشاور،نَسٹ سکول آف بزنس اور یونیورسٹی آف بونیر کے ماہرین شریک ہوئے۔
تحقیقی مقالوں میں زیادہ ترجیح مقامی مسائل کے دیرپا حل کو دی گئی اور ماہرین نے نہایت عرق ریزی سے ان کا جائزہ لے کر مفید تجاویز سے مقالہ نگاروں کو فیضیاب کیا۔
دوسرے دن دو کلیدی خطاب ہوئے جن میں سے ایک یونیورسٹی آف پشاور کے ڈاکٹر نعمت اللہ نے پاکستان کے تحقیقی کلچر کے مسائل کے حوالے سے بات رکھی اور اس کلچر کے بہتری کے لیے تجاویز دیں، جب کہ عبدالولی خان یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالقادر بلوچ صاحب نے پاکستانی معیشت کے مسائل کے حوالے سے قلیل المدتی حل کے طور پر ٹوور اِزم کو بطورِ نجات دہندہ پیش کیا۔ پروفیسر صاحب نے ٹوور اِزم کو مذہبی، تاریخی، مہم جوئی، قدرتی مناظر، تجارتی اور ساحلی حوالوں سے علیحدہ علیحدہ دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور ان سارے میدانوں میں پاکستان میں موجود مواقع کو اُجاگر کیا۔
پہلے دن کے اختتام پر شرکا کو دریائے سوات کے کنارے واقع شموز پارک میں پکنک پارٹی بھی دی گئی جب کہ بوٹانیکل گارڈن، یونیورسٹی آف ملاکنڈ میں عشائیہ دیا گیا۔
کانفرنس کی اختتامی تقریب میں یونیورسٹی آف ملاکنڈ کے ڈیپارٹمنٹ آف مینجمنٹ کے ڈاکٹر شفیق صاحب نے تعلیم و تحقیق کی ترقی کے حوالے سے اپنے عزم کا اعادہ کیا، اور امسال اکتوبر میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ یقینا پاکستان کے معروضی حالات میں ایسی سرگرمیوں کا انعقاد ایک خوش آئند عمل ہے۔ کیوں کہ ہمارے مسائل پیچیدہ اور کثیر الجہت ہیں اور پالیسی سازوں اور قانون سازوں کی اہلیت اور دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس دو روزہ سرگرمی میں قومی و صوبائی اسمبلی کے نمائندگان اور عملاً پالیسی سازی کے کرتا دھرتا (Bureaucracy)کی عدم موجودگی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
کانفرنس کو حقیقت کا روپ دینے والے تحقیق کار اور منتظمین داد و تحسین کے مستحق ہیں کہ اپنے محدود وسایل اور ناپید معاونین کے علی الرغم، وہ تعلیم و تحقیق سے اپنی وابستگی اور عہد وفا کو ثابت کررہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں