خواجہ نوید کالم

نیا بلدیاتی نظام

جنوبی افریقہ، براعظم افریقہ کا تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک ہے جسے عام طور پر افریقہ کے غریب اور پسماندہ ممالک سے علی الرغم ایک استثنائی حیثیت کا ملک گردانا جاتا ہے۔ برطانیہ کے زیرِ تسلط رہنے کے باوجود، جنوبی افریقہ نے آزادی حاصل کرنے کے بعد تیزی سے ترقی کی ہے اور آج حالت یہ ہے کہ یہ افریقہ کا دوسرا خوش حال ملک ہے۔ مختلف النوع نسلوں کے حامل ملک میں سابقہ برطانوی آقاؤں کی بالادستی اور استبداد کے باوجود ترقی کے سفر کا سہرا سیاسی جدوجہد اور حقیقی جمہوری نظام کے قیام کو جاتا ہے، جس میں بنیادی کردار ”نیلسن منڈیلا“ کی نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے حامل بلدیاتی نظام کی ترویج نے ادا کیا ہے۔
پاکستان کے مخصوص تناظر میں جنوبی افریقہ کی مثال یوں بھی صادق آتی ہے کہ وہاں گورے باقیات اختیارات کے حامل ہونے کی وجہ سے حقیقی جمہوری نظام کے قیام میں رکاوٹ بنے رہے جب کہ ہمارے یہاں سابقہ آقاؤں کے تربیت یافتہ اداروں کے دیسی اختیار مند اس نوآبادیاتی کردار میں رنگ بھرتے رہے ہیں۔ بلدیاتی نظام کو غیر جمہوری حکومتوں نے اپنے مارشل لاؤں کے جواز کے آلے کا لبادہ پہنایا جب کہ جمہوری حکومتوں نے اسے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا۔ اس 70 سالہ نااہلی اور ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے کہ ہم پرت در پرت اور تہہ در تہہ پیچیدہ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جس سے نکلنے کی کویی سبیل کسی کو سُجھائی نہیں دے رہی۔
ان حالات میں ہمارے صوبے کے پچھلے دور کے اتحادی حکومت کا 2013ء بلدیاتی ایکٹ،بجا طور پر اس ملک کے سنجیدہ حلقوں میں ایک خوش گوار ہوا کے جھونکے کے طور پر لیا گیا، اور نچلی سطح تک فیصلہ سازی اور اختیارات کی منتقلی کا پیش خیمہ گردانا گیا۔
اس نظام کے تحت تین سطح کی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں ضلعی حکومت، تحصیل حکومت اور ولیج حکومت شامل تھی۔ بننے کو تو حکومتیں بن گئیں، لیکن ہمارے نظامِ حکومت کے اصل اختیار مند اداروں اور افراد نے اس کو چلنے نہیں دیا۔ اس کی کارکردگی کو مسلسل مشکوک بنایاگیا اور اختیارات کو محدود کیا گیا۔ بنیادی ایکٹ میں ضلعی حکومت کو 24 محکمے تفویض کیے گئے تھے، جن میں بعد میں ترمیم کرکے پہلے 18 اور پھر 16 محکموں تک محدود کیا گیا۔ ان محکموں میں بھی عملاً ضلعی حکومت کو عضو معطل بنا کرکسی خاطر میں نہیں لایا گیا۔
اس نظام میں ڈپٹی کمشنر کو ضلعی ناظم کی متوازی حیثیت سے نوازاگیا اور فیصلہ سازی کے عمل میں صاحب کے کردار کو یوں بالا رکھا گیا کہ بطورِ سربراہ برائے انتظامی رابطہ، ضلعی ناظم کو بھیجے جانے والے ہر مراسلے کو ڈی سی آفس سے لازمی گذارنے کی شق ڈال دی گئی اور ڈی سی صاحب کی انتظامی توثیق یعنی “Administrative Approval” کو لازمی اور حتمی قرار دیا گیا۔ اس طرح برائے نام انتظامی سربراہ تو ”ضلعی ناظم“ بنا، لیکن حقیقتاً ڈپٹی کمشنر سربراہ برائے انتظامی رابطہ کا منصب سنبھال کر مختارِکل بن گیا۔ یوں اختیارات کی منتقلی کی بجائے دو متوازی کھینچا تانی والی انتظامی ساخت وجود میں لائی گئی، جس میں پلڑا لازمی طور پر ایک باہم پیوستہ ملکی سطح کے اختیارات کی حامل بیوروکریسی کو ہی حاصل ہوگیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جن ضلعوں میں پی ٹی آئی کے علاوہ کسی اور کی حکومت بنی ہے، انہیں بیوروکریسی کے ذریعے بالکل دیوار سے ہی لگا دیا گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ضلع سوات کے ناظمِ اعلیٰ نے عید پر سیاحوں کی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے ایک دن کی چھٹی کا اعلان کیا، تو ڈی سی آفس نے ایجوکیشن آفس کے ذریعے اس حکم کو نافذ نہیں کرنے دیا۔ علاوہ ازیں ضلعی ترقیاتی کمیٹی سے پاس شدہ پراجیکٹ صرف ڈی سی آفس سے پاس نہ ہونے کی وجہ سے تعطل کا شکار رہ کربلدیاتی نظام کی کارکردگی کی خرابی کا باعث بن رہی ہے۔
تحصیل حکومتوں کا حال اس سے بھی بدتر یوں ہے کہ ڈی سی صاحبان اپنے اسسٹنٹ کمشنرز کے ذریعے مسلسل میونسپلٹی کے کاموں میں مداخلت کا باعث بن کے ان کو عملاً بے دست وپا کیے ہوئے ہیں۔ اور ان کی آمدن کے اکثر ذرائع اس رویے کی وجہ سے ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ ٹھیکے جس کے لیے لوگ بولیاں لگاتے تھے، اب ان میں اظہار دلچسپی بھی کوئی نہیں کرتا۔ جب ٹھیکا الاٹ نہ ہو، تو وصولیوں کی ذمہ داری میونسپل کمیٹی کے کارندوں پر آن پڑتی ہے، اور کرپشن اور غفلت کی وجہ سے ٹھیکے کے مقابلے میں دسواں حصہ آمدن بھی نہیں ہوپاتی۔
اس دگرگوں صورتحال میں صوبائی حکومت نے بد قماشی کی انتہا کرکے ایک ایسا نیا بلدیاتی نظام عجلت بھرے انداز میں صوبائی اسمبلی سے پاس کیا ہے جس میں سرے سے اس کے بنیادی مقصد یعنی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی پر ہی چھری پھیر دی ہے۔ ضلعی حکومت کو درمیان میں سے بالکل ختم کردیا گیا ہے اور محض 7 محکموں کو تحصیل حکومت کے دائرہ کار میں لایا گیا ہے۔ یعنی پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔
اور تو اور تحصیل ناظم کا انتخاب براہِ راست پارٹی بنیادوں پر اور ان کے ہاؤس کے ممبرز غیر سیاسی۔ ایک غیر منتخب صوبائی کمیشن کو مختار بناناکہ وہ ان منتخب اداروں کے درمیان تنازعات کے حل میں فیصلہ صادر کرے، جب کہ یہ کام صرف ایک منتخب ادارہ یعنی کابینہ ہی انجام دے سکتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ بلدیاتی نظام جو کہ پہلے ہی مقتدرہ کے عدم تعاون اور اختیارات سے چمٹے رہنے کے رویے کی وجہ سے کمزور تھا، موجودہ حکومت کی نئی قانون سازی کی وجہ سے بالکل بیٹھ ہی جائے گا اور حقیقی جمہوریت کا خواب کبھی شرمندہئ تعبیر نہ ہوسکے گا۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں