فياض ظفرکالم

سوات کی ترقی کے امکانات روشن

سوات ریاست کے دور سے 2005ء تک گویا اک خوشحال دور سے گزر رہا تھا۔ یہاں کے لوگ کامیاب کاروبار اور ترقی و خوشحالی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ اس کی سب سے بڑی صنعت ”سیاحت“ عروج پر تھی۔ یہاں پراپرٹی کا کاروبار عروج پر تھا، جس کی وجہ سے یہاں کے عوام آسودہ حال تھے، لیکن بدقسمتی سے 2006ء سے 2009ء تک کی دہشت گردی اور بعد میں 2010ء کے سیلاب نے سوات کے لوگوں سے سب کچھ چھین لیا۔ ایم ایم اے اور پھر اے این پی کی حکومت نے سوات میں تھوڑا بہت کام کیا، لیکن سوات کی مکمل بحالی اور خاص کر سیاحت کی صنعت کے لیے وہ کام نہ کیے جاسکے، جن کی ضرورت تھی۔
تحریک انصاف کی پچھلے حکومت نے کرنل شیر خان انٹر چینج سے چکدرہ تک سوات ایکسپریس وے کی تعمیر کا آغاز کیا، لیکن تعمیراتی کام پرویز خٹک کے دورِ حکومت میں مکمل نہ ہوسکا۔ یہ ایکسپریس وے جو دو رویہ ہے، اور اس کی چوڑائی موٹروے کے لین کی چوڑائی سے کم ہے، اس وجہ سے دشواریوں کا سامنا ہوگا، لیکن مذکورہ ایکسپریس وے کی تعمیر سے ملاکنڈ، دیر، چترال، سوات اور شانگلہ کے عوام کم وقت میں پشاور، اسلام آباد اور دیگر شہروں کا آرام دِہ سفر کرسکیں گے۔
تاریخ میں پہلی بار سوات سے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد محمود خان سے یہاں کے عوام کی ڈھیر ساری توقعات وابستہ تھیں، لیکن کچھ ماہ گزرنے کے بعد لوگوں کی توقعات کم ہونے لگیں۔
قارئین، گذشتہ دنوں وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ کے ساتھ ان کے دفتر میں ملاقات اور سوات کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، تو وزیر اعلیٰ محمود خان نے پہلی خوشخبری یہ سنائی کہ سوات ایکسپریس وے کو25مئی سے چھوٹی گاڑیوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ چکدرہ انٹر چینج پر کچھ ضروری کام کے بعد اس کو عام ٹریفک کے لیے کھولا جائے گا۔ بالفاظِ دیگر 25 مئی سے ملاکنڈ ڈویژن کے لوگ پشاور، اسلام آباد یا دیگر شہروں میں جانے کے لیے مذکورہ ایکسپریس وے پر سفر کرسکیں گے اور دیگر شہروں سے سوات آنے والے لوگ بھی اس سے آرام دِہ سفر کے ساتھ کم وقت میں سوات پہنچا کریں گے۔
وزیر اعلیٰ محمود خان نے یہ نوید بھی سنا ئی کہ اس کے بعد مذکورہ ایکسپریس وے کو پہلے فیز میں چکدرہ سے مینگورہ اور دوسرے فیز میں مینگورہ سے باغ ڈھیرئی تک توسیع دی جائے گی۔ اگر اس ایکسپریس وے کا فیز ون چکدرہ سے مینگورہ تک مکمل ہوجائے، تو پھر پشاور اور اسلام آباد سے مینگورہ سوات کا سفر صرف ڈھائی گھنٹے میں طے ہوا کرے گا، جس کی وجہ سے لوگوں کو ایندھن اور وقت دونوں کی بچت ہوگی۔
وزیر اعلیٰ کے مطابق سالنڈہ سے ملم جبہ سڑک پر بلیک ٹاپنگ کا کام شروع ہو چکا ہے۔ پہلے مرحلہ میں تیرہ کلومیٹر تارکول کے کام کے بعد اس کو ملم جبہ ٹاپ تک مکمل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سوات جیل اور جہانزیب کالج پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ سوات میں بچوں کے لیے ایک جدید اور الگ ہسپتال بنایا جائے۔ وزیر اعلیٰ نے ایم ایم اے دورِ حکومت میں اس وقت کے ایم پی اے محمد امین کے تعمیر کردہ پانچ سو بستروں پر مشتمل سیدو تدریسی ہسپتال (جس کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے، لیکن سامان اور آلات نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑا ہے) کے بارے میں بتایا کہ اس ہسپتال جس پر پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے مریضوں کا زیادہ بوجھ ہے کے لیے انہوں نے پچاس کروڑ روپے کا ہنگامی فنڈ ریلیز کیا ہے۔ اس سال وہ اپنے ہاتھوں سے اس کا افتتاح کریں گے۔
قارئین، اس اہم ملاقات میں انہوں نے جن کاموں کا ذکر کیا، واقعی وہ تمام سوات کے اہم مسائل شمار کیے جاتے ہیں۔ سیدو تدریسی ہسپتال پر ملاکنڈ ڈویژن کے آٹھ اضلاع کے مریضوں کا بوجھ ہے۔ نئے اور جدید ہسپتال کے کھولنے سے مریضوں کو بہتر طبی سہولیات میسر ہوں گی۔ جہانزیب کالج کی عمارت جو اَب گرائی جا چکی ہے، کی فوری تعمیر سے کالج میں داخلوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا، اور اس تاریخی کالج میں پھر ہر سال سیکڑوں طلبہ و طالبات کو داخلہ مل سکے گا۔ سوات جیل زلزلہ میں خراب ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے سوات کے قیدیوں کو تیمرگرہ یا بونیر کی جیلوں میں رکھا جاتا ہے۔ اُن قیدیوں کو روزانہ مذکورہ جیلوں سے پیشی کی خاطر عدالتوں میں لایا جاتا ہے، جس پر سالانہ کروڑوں روپے کا خرچہ آتا ہے۔ مذکورہ خرچہ صوبائی حکومت برداشت کرتی ہے۔ سوات کے مرکزی ہسپتال میں بچوں کے لیے ایک یونٹ قائم ہے جس میں ایک ایک بیڈ پر تین تا چار مریض بچے پڑے ہوتے ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ نے سوات میں چلڈرن ہسپتال تعمیر کیا، تو اس سے بھی عوام کو بہت فائدہ ہوگا۔
جیسے کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ سوات کی سب سے بڑی صنعت سیاحت کی ہے، اور یہاں کے لاکھوں لوگ کسی نہ کسی صورت میں اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ نے سوات ایکسپریس وے کو چکدرہ سے مینگورہ اور باغ ڈھیرئی تک توسیع دی، تو اس سے سوات کی سیاحت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سوات سال کے بارہ ماہ اور چار موسموں میں سیاحت کے لیے موزوں ہے۔ سڑکوں کی تعمیر کے بعد سوات ایک بار پھر سیاحت کا گڑھ بن جائے گا۔ اس وقت چکدرہ سے بحرین تک سڑک یو ایس ایڈ نے تعمیر کی ہے۔ چکدرہ سے مدین تک سڑک جو سعودی عرب حکومت کے مالی تعاون سے بنائی جا رہی ہے، پر تعمیراتی کام آخری مراحل میں ہے۔ سالنڈہ سے ملم جبہ تک سڑک صوبائی حکومت تعمیر کر رہی ہے۔ اس طرح بحرین سے کالام تک 35 کلو میٹر سڑک ایشین ڈویلپمنٹ بنک 9 ارب روپے کی مالی مدد سے تعمیر کررہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کالام سڑک کی تعمیر میں تاخیر اور ناقص میٹریل کے استعمال کے خلاف گذشتہ دنوں اہلِ کالام اور دیگر سیاسی جماعتوں نے مینگورہ میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ اگر کالام روڈ، ملم جبہ روڈ اور کالام سے مہو ڈنڈ روڈ کا تعمیری کام وزیر اعلیٰ اپنے دورِ حکومت میں پایہئ تکمیل تک پہنچا دیں اور سوات ایکسپریس وے کو مینگورہ اور باغ ڈھیرئی تک توسیع دے دیں، تو سوات کے اہم مسائل حل ہو جائیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جب یہاں سیاحت کی صنعت ترقی کرے گی، تو اس سے سوات کے عوام خوشحال ہوجائیں گے اور ان کی معاشی صورتحال میں بہتری آئے گی، جس کے بعد سوات کے عوام کے شورش اور سیلاب سے متاثر ہونے کا کچھ نہ کچھ اِزالہ ہو جائے گا۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں