خواجہ نوید کالم

فرشتہ اور شیطان

پاکستان کے دارالخلافہ، جی ہاں! دارالخلافہ میں ایک ننھی پری بنام فرشتہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد اس کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ زینب قتل کیس کی طرح اس بار بھی عوام اور خاص کر حساس دلوں پر یہ قیامت خیز خبر بہت بھاری ثابت ہوئی۔ مختلف حلقوں اور نظریہئ حیات رکھنے والے لوگوں سے اس حوالے سے بھانت بھانت کی بولیاں سامنے آرہی ہیں۔ کچھ لوگ تو بجا طور پر جنسی بے راہ روی اور بے محابا عریانی کو اس مسئلے کی جڑ قرار دے کر حکومتِ وقت سے اصلاحِ احوال کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے اَن کنٹرولڈ استعمال کا اس خرابی میں بنیادی کردار بتلا رہے ہیں اور معاشرے کی مجموعی لاپروائی اور غفلت کا رونا رو رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں اور قانون ساز ممبرانِ اسمبلی کو مناسب قوانین کا اجرا نہ کرنے پر دوشی ٹھہرا رہے ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو دور کی کوڑی لاکر اس کو جنسی گھٹن اور جنسی ناآسودگی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خیال میں اگر پاکستان کو بھی یورپ کی طرح (حالاں کہ خود یورپ کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوتی) مادر پدر آزاد معاشرہ بنا دیا جائے اور جنسی خواہش کے حصول کے لیے بس دو پارٹنرز کی رضامندی کو ہی کافی و شافی سمجھ کر بلا روک ٹوک آزاد جنسی ماحول فراہم کیا جائے، تو یہ گھٹن ختم ہوجائے گی، اور اس طرح کے انسانیت سوز واقعات پھر رونما نہیں ہوں گے۔
اس طرح کے مؤقف سے ایک خاص قسم کی نفسیاتی پیچیدگی کا ادراک ہوتا ہے کہ جہاں بھی مذہب کے حوالے سے کوئی دلیل یا بیانیہ تشکیل پا رہا ہو، تو وہاں بے سروپا ہی کیوں نہ ہو، لیکن مذہب مخالف اور طنز و تشنیع سے بھرپور جملہ بازی کے ذریعے عدم توجہ کا ماحول تشکیل دے کر مذہبی بیانیے کو غیر مؤثر کیا جائے۔ اس قسم کے واقعات کے بعد عوام میں جو ردِ عمل کے طور پر سوچ بچار کا عمل رواں ہوتا ہے، اُس میں مذہبی اقدار کی طرف میلان اور عفت و حیا کی پابندی کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ لوگ بجا طور پر بچیوں کے گھروں سے بلا ضرورت آنے جانے کو برا دیکھنا شروع کرلیتے ہیں اور مرد و زن کے اختلاط اور بلاضرورت میل ملاپ کی طرف توجہ اٹھنے لگتی ہے، لیکن ایسے کسی بھی رجحان کی بو سونگھ کر یہ بزعمِ خود آزاد خیال اور ترقی پسند خم ٹھونک کر میدان میں آجاتے ہیں۔ عمیرہ احمد کے ”پیرِ کامل“ اور سیما مناف کے ”روگ“ پر بھی ان کا یہی ردعمل ہوتا ہے جب کہ “Games of throne” اور ”عشقِ ممنوع“ میں محاسن ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔
دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔ یورپ اور مغربی دنیا کے اگر جنسی جرائم کے حوالے سے اعداد و شمار اکھٹے کیے جائیں، تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم پڑجاتا ہے۔ یورپی یونین کے شماریاتی ادارے کے مطابق 2013ء سے 2016ء کے درمیان یورپ میں جنسی جرائم میں 26 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ سالانہ جرائم 2 لاکھ 48 ہزار تک پہنچ گئے ہیں۔ حالاں کہ ان کے جنسی جرائم کی تعریف میں صرف زنا بالجبر ہی کے افعال آتے ہیں۔ باقی رضامندی کے ساتھ زنا اور چھیڑ چھاڑ (Harrasment) اس زمرے میں نہیں آتے۔
اسی طرح امریکہ کے ”سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول“ کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچوں کے درمیان ہر 6 میں سے 1 لڑکے کے ساتھ اور ہر 4 میں سے 1 لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کا عمل ہوتا ہے اور ان میں بھی 43 فی صد کی عمر 9 سال سے کم ہے۔ صرف امریکہ میں سالانہ 18 لاکھ تک جنسی زیادتیوں کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ مکرر یاد دلاتا جاؤں کہ اس میں برضا و رغبت کیے جانے والے جنسی عمل کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
اس سب کے علاوہ ابدی کتابِ ہدایت یعنی قرآن عظیم الشان میں بھی اللہ تعالی نے مرد و زن کے بلاضرورت باہمی اختلاط، بے پردگی اور میل جول کو ناپسند فرمایا ہے، تو حقیقت یہی سامنے آتی ہے کہ ان جرائم کی وجوہات میں اگر کچھ عمل دخل ہمارے مردوزن کی جنسی گھٹن اور ناآسودگی کا ہو بھی، تو اس کا حل جائز طریقوں یعنی نکاح میں آسانیاں پیدا کرکے ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ اور معکوس طور پر اس گھٹن کے پیدا کرنے والے عوامل یعنی جنسی جذبات کو ابھارنے والے تمام ذرائع کو مسدود و محدود کرکے اس حیوانیت کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں