خواجہ نوید کالم

الناس علی دین ملوکیہم

مسلم تاریخ میں بنو امیہ کا دور مسلسل اتار چڑھاؤ اور عدم استحکام کا شکار دور رہا ہے، لیکن اس کے نسبتاً مستحکم دورانیے میں تین مختلف الخیال اور دور از کار شخصیتیں پے در پے عنانِ حکومت سنبھالتی رہی ہیں۔ ان میں سے پہلی شخصیت ولید بن عبدالملک کی ہے، جنہیں عام طور پر شہزادہ ولید کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کو 705ء میں اپنے والد عبد الملک کی وفات کے بعد 30 سال کی عمر میں حکومت ملی، اور ان کی حکومت کا دورانیہ تقریباً دس سال رہا۔ ولید نے اپنے دورِ حکومت میں پوری مملکتِ اسلامیہ اور خاص کر بِلاد شام میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا، لیکن اس کی سب سے بڑی ترجیح اپنے مزاج کے مطابق بڑی بڑی عمارتوں اور گنبدوں کا قیام تھی۔ دمشق جو اُن کا پایہئ تخت تھا، میں حضرت یحییٰ علیہ السلام سے منسوب عبادت گاہ کو ایک ایسی تعمیری یادگار میں تبدیل کر دیا کہ اموی مسجد آج بھی ماہرینِ فن کو ورطہئ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ یہ ایک ایسی تعمیر تھی جس میں صرف دمشق کے 45 ہزار فوجیوں نے مسلسل نو سال تک اپنی سالانہ تنخواہ کا ایک چوتھائی مسجد کی تعمیر میں بطورِ اعانت ادا کیا۔ اسی طرح ولید نے بیت المقدس میں ایک فقید المثال کمپلیکس کی بنیاد رکھی جو کہ مسجد، تعلیمی اداروں اور انتظامی عمارتوں پر مشتمل تھا، لیکن ولید کے دورِ حکومت میں صرف مسجد اقصیٰ والا حصہ ہی مکمل ہوسکا، اور باقی منصوبہ ہنوز نامکمل حالت میں دعوتِ عبرت ہے۔ علاوہ ازیں مسجد نبویؐ کی بہت بڑی توسیع، حرمِ مکہ کی چاردیواری اور مسجد طائف کی تزئین و آرائش جیسے منصوبے ولید کے دورِ حکومت کی یادگار ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ولید کے عہد میں اکثریت لوگ فنِ تعمیر کی طرف راغب تھے۔ مذکورہ فن میں ترقی ہو رہی تھی اور لوگوں کے درمیان حفظ مراتب گھروں اور مہمان خانوں کی لمبائی، چوڑائی اور خوبصورتی کی بنیاد پر طے ہونے لگی تھی۔ جب ولید کا انتقال ہوا، تو اس کے چھوٹے بھائی سلیمان بن عبدالملک کو حکومت ملی۔ سلیمان ایک آزاد منش، آرام پسند اور عیاش انسان تھا۔ اس کی ساری دلچسپی کا محور عورتوں کے حسن و ادا، اپنی آرائش و زیبائش اور محفل شعرو غنا تک محدود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سلیمان کے عہدِ حکومت میں لوگوں کی دلچسپیاں بھی انہی کاموں میں بڑھنے لگیں۔
سلیمان کی وفات کے بعد عمر بن عبد العزیز عنانِ حکومت سنبھالی، تو انہوں نے عہدِ فاروقی کی طرح کے عدلِ اجتماعی اور عوامی بہبود کی پالیسیاں بروئے کار لانا شروع کیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے قرآن و حدیث کے علوم کی طرف خصوصی توجہ دی، اور خود بھی اس قسم کہ سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا۔ اس کا اثر یہ نکلا کہ عام لوگ بھی اسی طرف مائل ہوئے اور کچھ ہی سالوں میں علومِ حدیث اور حفاظتِ حدیث کا ایک ایسا جہاں وجود میں آیا جس کی ضوفشانیاں ہنوز جاری و ساری ہیں۔
ماضیِ قریب کے حکمرانوں کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ والیِ سوات کے دورِ حکومت میں ان کے حلیہ اور لباس کا ایسا اثر ہوا کہ جوانوں کی اکثریت نے ان کی پیروی میں روایتی حلیے اور لباس کو ترک کر دیا۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے مخصوص قسم کے لمبے خطوں اور پاینچوں کو لوگوں میں اتنی قبولیت ملی، کہ اکثریت جوانوں نے اسی کی پیروی شروع کی۔ اسی لیے تو عربی کا بہت پرانا مقولہ ہے کہ ”الناس علیٰ دین ملوکیہم“ (عوام اپنے بادشاہوں کا پرتو ہوتے ہیں)۔
اس تناظر میں ماضیِ قریب کے حکمرانوں کے رویوں کو اگر دیکھا جائے، تو کہیں ”وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے“ کی بازگشت سنائی دیتی ہے، تو کہیں ”ریلو کٹھے“ اور ”پھٹیچر“ کی پھبتیاں کسی جاتی ہیں۔ کہیں پہ ”ڈیزل اور منافق“ کا استعارہ زبان زدِ عام ہے، تو کہیں ”یہودی اور ایجنٹ“ کا نعرہئ مستانہ۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ قومی حساس معاملات مثلاً کشمیر کو بھی ٹھٹھوں اور جگتوں کی نذر کیا جا رہا ہے۔ حکمران تو پہلے والے بھی بے راہ روی کے حوالے سے خبروں کی زینت بنتے رہتے تھے، لیکن موجودہ والے تو باقاعدہ عدالتوں اور شکایتوں کے ذریعے حیا باختگی اور نشہ آوری کو فروغ دینے کا مؤجب بن رہے ہیں۔ افسوس مگر اس بات کا ہے کہ جتنی کچھ حساسیت کم از کم حیا و عفت اور ممنوعات کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں تھی، وہ اور وجوہات کے ساتھ کے ساتھ اشرافیہ اور حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے ہماری نئی نسل کو کھا رہی ہے، اور یہ کم فہم نئی نسل باقاعدہ اس کے لیے بیانیہ آگے پہنچانے کا سبب بن رہی ہے۔
اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے، تو ایسا بے باک، اخلاق باختہ اور بے شرم مستقبل پروان چڑھ رہا ہے جس سے پھر کسی خیر کی توقع نہ رہے گی، اور گلہ کرنے کو بھی کوئی نہ ہوگا۔ بقولِ غالبؔ
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں