سرِ راہ دس گیارہ نوواردوں کا قافلہ ایک آدھ محلہ دار کی معیت میں، دو دو کی ٹولی بنائے، راستے کے دائیں جانب نظم و ضبط کے ساتھ رواں دواں۔عمومی طور پر گول آستین والی لمبی قمیص زیبِ تن کیے اور شلوار کے پائینچے اوپر کیے ہوئے۔ سروں پر ٹوپی، چہروں پر داڑھی، ہاتھوں میں تسبیح، کندھوں پر کوئی چادر یا بڑا رومال ڈالے ہوئے، عام سے ہوائی چپل پہنے ہوئے، نظریں نیچے کیے ہوئے، پیشانی سے وسعت عیاں اور قدموں سے برکت ٹپکتے ہوئے، کچھ پڑھتے ہوئے، لوگوں سے مل مل کرایک آدھ منٹ بات کرتے اور چلتے بنتے ہوئے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ کسی دن عصر کی نماز کے بعد ایسی واضح علامتیں رکھنے والے افراد کے گروہ سے اپنے گلی محلے یا گاؤں کے کسی راستے میں واسطہ نہ پڑا ہو، اُن سے بات چیت نہ ہوئی ہو، تو چاہیے کہ ایسا فردفوری طور پر انگوٹھا دانتوں تلے دبا کر ”ججمنٹ“ کرلے کہ وہ کارخانہئ حیات میں سانس لے رہا ہے کہ نہیں؟ کوئی اُن کو اللہ کے سپاہی بولے، کوئی خدا کے پولیس اورکئی اللہ کے مجاور کا لقب دیتے پھرتے ہیں۔ یہ عجز و انکسار کے پیکر، سادگی و خاکساری کے مرقعے اورفقر و فاقہ کی چلتی پھرتی علامتیں ہیں۔ زمین پر بیٹھنا، کھانا پینا، سونا،کسی تعریف و توصیف سے ماورا، دینِ اسلام کا درس دینے والے، سیکھنے والے، چلنے پھرنے اور عرضیاں کرنے والے۔ یہ مانگتے کیا ہیں لوگوں سے؟
ایک دفعہ اپنی بے لطف اور ٹینشن زدہ زندگی کے دو چار منٹ اِن مجاورں کی محفل میں گذاریں، ایک کان سے اِن کی بات سنیں اور بے شک دوسری سے فوراً سے پیشتر گذاریں بھی، تب بھی سکون نہ ملے، تو پیسے واپس۔ یہ تو قدردان ہیں تہذیب کی اقدار کے۔ پیغام رساں ہیں، امن و آشتی اور اتفاق و اتحاد کے۔ علامتیں ہیں، دین و دُنیا کے بیچ بیلنس قائم کرنے کی فضا کے۔ چوکیدار ہیں ہماری زندگی کی نظم و ضبط پر نظر رکھنے کے۔ بیان کرتے ہوئے ان کی زبانیں سوکھ جاتی ہیں۔ گشت کر کر کے قدم شَل ہوجاتے ہیں۔ سوچ اور فکر میں سرگرداں دماغ انگارا بن جاتے ہیں۔ رو رو کے اُن کی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں، لیکن مجال ہے کہ کوئی سستانے کا نام لے، کوئی شکوہ کرے کہ مزید طاقت نہیں۔
ہر اگلا لمحہ ان کے امیدوں کو جَلا بخشتاہے۔ مسلسل تگ ودو کا یہ عمل ایک صدی سے جاری و ساری ہے، لیکن یہ تھکتے ہیں نہ مایوس یا تنگ ہی ہوتے ہیں۔ہر وقت پُرامید ہوتے ہیں، سکون سے ہوتے ہیں۔ یہ خوش ہونے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ یہ ہیں کون؟
یہ دین و اسلام کے داعی ہیں۔ یہ خود بھی سیکھتے ہیں، دوسروں کو بھی سیکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اُن کی عزت افزائی کرنا اور ایک دو منٹ بات سنناہم پر کتنا لازم ہے، یہ آپ سوچیں!
آج ایک دنیا ان کے نام اور کام سے واقف ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں شہر شہر، قریہ قریہ پھیلے ہوئے یہ قافلے پک اَپس میں، بسوں اور ٹرینوں میں اور پیدل چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زبانیں ذکر ِخیرکرتے ہوئے، چہرے نور سے اَٹے ہوئے، آنکھوں پر شبِ بیداری کے غالب آثار لیے ہوئے، پیشانیوں پر سجدوں کے واضح نشان سموئے ہوئے اور فکرِ آخرت کا درد دل میں لیے ہوئے۔ یہ بڑے دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ نماز اور کلمہ کی دعوت دیتے ہیں، مساجد میں قیام کرتے ہیں، قوت لایموت کرکے اپنا کھاتے پیتے ہیں، اور خدا کی راہ میں اپنا پیسہ خرچ کرکے دوسروں کو بھی گم نامی کے راستوں سے اُٹھا کر راہِ راست پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔
کسی کو بُرا لگے، تو یہ خاموشی سے عفو و درگذر کرکے آگے نکل جاتے ہیں۔ اچھا لگے، تو اُن کو دلوں میں بساتے ہیں۔ اُن کے پیچھے سازشی نیٹ ورکس کی کئی تھیوریز پھیلی سہی، ایک عرب ملک کی اِن کو اپنے مفادات یا مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کا دعویٰ ایک وقت کے لیے درست سہی، لیکن خدا واسطے، اِن فُٹ سولجرز کو دیکھیں، اُن کی طرزِ زندگی، خوراک اور پوشاک اور گذر بسر کا عالم ایک نظر دیکھیں، اور دل کی گہرائیوں سے سوچیں کہ یہ کتنے سازشی لگتے ہیں؟
یہ درویش لوگ جیسے ہی سویرے اُٹھ کر نماز پڑھتے ہیں، تو اپنے سارے غم و مسئلے اور پریشانیاں بھول کر پہلے کل عالم کی بہتری کے لیے، پھردُنیا سے دُکھ اور پریشانیوں کے خاتمے کے لیے، پھر مسلم اُمّہ میں اتفاق و اتحاد کے لیے پھر پاکستان کے لیے، پھر اُس شہر، بستی اور محلے کے لیے جہاں یہ مقیم ہوتے ہیں اور سب سے آخر میں اپنے لیے سرخروئی کی، معافی کی اور بخشش کی دعائیں مانگتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں، پاگل کہیں کے؟
کبھی عرش پرکبھی فرش پرکبھی اُ ن کے درکبھی دربدر
غمِ عاشقی تیراشکریہ میں کہاں کہاں سے گذرگیا
کبھی راستوں میں تنہا، کبھی ہوں بُرودِ صحرا
میں جنوں کا ہمسفر ہوں، میرا کوئی گھر نہیں ہے
متعلقہ خبریں
- کمنٹس
- فیس بک کمنٹس