ابراہیم دیولئیکالم

کاش، 51 فی صد پارلیمنٹیرین سینیٹر مشتاق جیسے ہوتے

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
ہو رزمِ حق و باطل تو فولاد ہے مومن
علامہ اقبال کا یہ شعر جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد پر 100 فی صد صادق آتا ہے۔ سوشل میڈیا کی برکت سے موصوف کو ملک کے ایوانِ بالا میں سنتا رہتا ہوں، لیکن آمنے سامنے ہونے کا مزہ ہی کچھ اَور ہوتا ہے۔ جب سے ملاکنڈ سوات میں دہشت گردی کی لہر اٹھی ہے، ساتھ احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔اس دوران میں نشاط چوک مینگورہ سوات میں بڑے جلسوں سے خطاب کے دوران میں موصوف کو انتہائی قریب سے سننے اور پھر اکابرینِ جماعت اسلامی کی مہربانی سے الخدمت سیکرٹریٹ سوات میں چند لمحوں کے لیے تبادلۂ خیال کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ویسے تو سارے سیاست دان اپنے اپنے انداز اور سمجھ بوجھ کے مطابق تقاریر کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی بہترین مقرر ہے، تو اس کے پاس درست معلومات کا فقدان ہوتا ہے۔ اگر علم، دانش اور حکمت ہے، تو فنِ تقریر ندارد۔ اس حوالے سے میرے تجزیے کے مطابق مشتاق احمد صاحب کا شمار ملک کے ان اعلا پایے کے سیاست دانوں میں ہوتا ہے، جن کو اللہ تعالا نے سیاسی علم، حکمت، دانش اور دوراندیشی سمیت بہترین تقریر کرنے کا ملکہ بھی عطا کیا ہے۔ سامعین گھنٹوں سننے کے باوجود بوریت محسوس نہیں کرتے۔ وہ اس لیے کہ مشتاق صاحب کی تقریر درست اعداد و شمار، ربط، تسلسل، بہترین الفاظ کے چناو، حقائق، دلائل، جرات، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور صاف گوئی پر مشتمل ہوتی ہے، جہاں اور جس جلسہ یا سیمینار میں بھی موصوف کی آمد ہوتی ہے، تو سبھی سیاسی جماعتوں کے کارکن، وکلا، مزدور، علما، صحافی حضرات، فلاحی و سماجی تنظیمیں، ٹریڈ فیڈریشنز کے نمائندے، الغرض تمام مکاتبِ فکر کے لوگ جوق درجوق جلسہ گاہ پہنچ جاتے ہیں۔ موصوف کی ایک منفرد خوبی یہ ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں کسی کے ساتھ ظلم، ناانصافی ہو…… خواہ وہ کسی بلوچ سردار، سندھ کے وڈیرے یا پنجاب کے جاگیردار کی طرف سے کسی غریب خاندان کے ساتھ ہو، پختونخوا میں کہیں بم بلاسٹ یا خودکش ہو جائے یا علی وزیر جیسے پارلیمنٹرین کا ماورائے آئین و قانون گرفتاری جیسا مسئلہ ہو، تو موصوف نہ صرف بہ نفسِ نفیس پہنچ کر متاثرین کے دُکھ درد اور غم میں شریک ہوتے ہیں بلکہ سینٹ کے اگلے سیشن میں متعلقہ ایشو کو اتنے مدلل اور جرات مندانہ انداز سے اُٹھاتے ہیں کہ پورا ایوان یک قدم یک آواز بن کر متفقہ قرارداد منظور کرانے پر مجبور ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کے مظلوم طبقات موصوف کو اپنے دُکھ درد کا مسیحا اور پالیمانی ترجمان سمجھتا ہے ۔
26 فروری 2023ء کو جماعتِ اسلامی سوات کے اکابرین محترم حمید الحق صاحب اور محترم اخترعلی کی خصوصی مہربانی کی بدولت نہ صرف نشاط چوک کے جلسہ میں عزت، احترام کے ساتھ عین اسٹیج کے سامنے بٹھا کر مشتاق صاحب کو قریب سے سننے اور کچھ پوائنٹ نوٹ کرنے کا موقع ملا بلکہ اس جلسہ کے بعد تحصیلِ کبل کے سابقہ ناظم محترم رحمت علی نے الخدمت سیکرٹریٹ لے جا کر دوبارہ سننے، ساتھ مل بیٹھنے اور چند باتیں کرنے کا موقع فراہم کیا۔ عام طور پر حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار ایک دوسرے پر الزامات کی پوچھاڑ کرکے سامعین کو زندہ باد، مردہ باد پر مجبور کردیتے ہیں، لیکن سینیٹر مشتاق کو مَیں نے سیاست برائے مخالفت اور تنقید برائے تنقید سے کوسوں دور پایا۔ کیوں کہ موصوف حکومت کی کم زوریاں ہی بیان نہیں کرتے بلکہ اس کا حل بھی بتاتے ہیں…… لیکن بدقسمتی سے گذشتہ دو دہائیوں سے سیاست میں بداخلاقی، گالم گلوچ، تنگ نظری، بغیرثبوت اور شواہد کے الزام تراشی سرائیت کر چکی ہے، لیکن اس حوالے سے بھی میں مشتاق صاحب کی اعلا ظرفی اور حق گوئی کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جہاں بھی انھوں نے مولانا مودودیؒ اور قاضی حسین احمد کا نام احترام سے لیا، تو وہاں پر انھوں نے دیگر پشتون راہنماؤں سمیت فخرِ افغان باچا خان اور رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان کی قربانیوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔
نشاط چوک کے جلسۂ عام میں مشتاق صاحب نے اس ملک کی اشرافیہ کی تنخواہوں، مراعات اور پینشنز کے جو اعداد و شمار پیش کیے، میرے پاؤں تلے زمین کھسک گئی کہ یا اللہ! کیا یہ لوگ ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ ، پل صراط، قبر اور روزِ محشر کے حساب کتاب پر یقین نہیں رکھتے کہ ان کے کتوں اور بلیوں کے لیے تو باہر ملکوں سے خوراک منگوائی جاتی ہے، ڈالروں کی بوریاں باہر ملکوں کے اکاؤنٹس میں بھیج دیتے ہیں، ریٹائر ہو کر اہل و عیال اگلے صبح پہلی فلائٹ میں بیرونی ممالک میں خریدے جزیروں اور محلات میں رہایش اختیار کر کے مرتے دم تک پاکستان کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھتے، دولت اتنی کہ ان کے سات پشت عیاشی کر کے ختم نہیں کرسکتے جب کہ اس کے برعکس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے 9 کروڑ سے زائد انسان دو وقت کی باعزت روٹی اور بنیادی ضروریات تعلیم، علاج اور مکان کی چھت سے محروم ہیں۔
مشتاق صاحب نے طبقۂ اشرافیہ کی پرتعیش زندگی، سیکڑوں گاڑیوں کے مفت پیٹرول اور دیگر مراعات پر روشنی ڈالتے ہوئے جو اعداد و شمار پیش کیے، تو ایک ’’سی مین‘‘کی حیثیت سے ایک دنیا میں بھی دیکھ چکا ہوں اور یہ دعوا سے کَہ سکتا ہوں کہ یہ سہولیات اور مراعات دنیا کی سُپر طاقت امریکہ کی افسر شاہی کو بھی حاصل نہیں۔
امریکی صدر بل کلنٹن نے جب صدارت سے علاحدگی کے بعد وکالت شروع کی، تو ایک صحافی کے استفسار پر بتایا کہ کچھ قرضہ چڑھا ہے۔ اب اس قرض کی ادائی کے لیے وکالت شروع کی۔
اس طرح چین کی آزادی کے ایک سال بعد انٹرویو کے دوران میں ماؤزئے تنگ پر سوال داغا گیا کہ آپ نے پھٹے پرانے بوٹ کیوں پہنے ہیں؟ تو جواب ملا کہ اب تک پوری چینی قوم کو بوٹ میسر نہیں، تو میں کیسے نئے بوٹ پہن لوں؟ مَیں نے از خود جاپان کے وزیرِاعظم کو ایک ہاتھ میں چھتری اور دوسرے ہاتھ میں اپنا بریف کیس تھامے ائیرپورٹ سے نکلتے اور اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہمسایہ ملک ہندوستان کے زیادہ تر وزرا کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں۔
ویسے تواس ملک میں ہونے والے ظلم، ناانصافی اور مشتاق صاحب کے اعداد و شمار پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، لیکن میں اختصار سے کام لے کر کالم کو ان نصیحت آموز جملوں پر سمیٹتا ہوں کہ اس ملک کے کئی بارُعب، متکبر صدور، وزرائے اعظم، چیف جسٹس، جج، بیوروکریٹ قانونِ قدرت کے مطابق منوں مٹی تلے دبے پڑے ہیں، جہاں پر اپنی اولاد کی خاطر کروڑوں غریبوں کا خون چوسنے والی کمائی کام آتی ہے اور نہ یہ عارضی رُعب داب اور عہدہ کسی کو جہنم کی آگ سے نجات دلا سکتا ہے۔
اگراس ملک و قوم کو مشکلات کی دلدل سے نکالنے کے لیے محترم مشتاق احمد جیسے سیاست دانوں کے تجربات سے استفادہ کرنے کی کوشش کی جائے، تو مَیں وثوق سے کہتا ہوں کہ قدرتی وسائل، ایک سال میں چار بہترین موسم، معدنیات سے بھرے پہاڑ، تجارتی لحاظ سے کئی ممالک کو ملانے والا دریا اور بیرونی ممالک کو آباد کرنے والے محنتی افرادی قوت پر مشتمل مملکتِ خدادادپاکستان چند سالوں میں چین، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔
وماعلیناالاالبلاغ!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں