روح الامین نایابکالم

ایک بے کار محکمہ

ایک اخباری خبر کے مطابق جاپان میں آبادی کی مسلسل عمر رسیدگی کی وجہ سے سماجی بہبود پر آنے والے اخراجات ریکارڈ 10کھرب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔ جاپان کے قومی ادارۂ تحقیق برائے عمر رسید افراد کے بارے میں یہ اطلاع جاری کی گئی ہے۔ عمر رسیدہ افراد کی فلاح و بہبود کے لیے پورے ملک میں مختلف پراجیکٹوں اور سکیموں پر اخراجات 10 کھرب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔
قارئین، یہ بیرونی ممالک میں سماجی بہبود پر خرچ ہونے والے اخراجات کی ایک جھلک ہے، جس میں خاص طور پر عمر رسیدہ شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے اور سہولیات بہم پہنچانے کے لیے زرِ کثیر کو خرچ کیا جارہا ہے جب کہ ہمارے سماجی بہبود کا محکمہ ایک بے کار محکمہ تصور کیا جاتا ہے۔ حکومتی اخراجات کرنے، بجٹ ترتیب دینے، سالانہ منصوبہ بندی کرنے، محکموں کو منظم کرنے، اعتماد میں لینے، محکموں کو پیسے دینے غرض ان سب سرگرمیوں میں کہیں بھی سماجی بہبود محکمے کا نام تک نہیں آتا۔ عجیب اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس محکمہ کے کرتا دھرتا بھی عادتاً یامصلحتاً خاموش رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بولنے یا سامنے آنے سے پوچھ گچھ نہ ہو اور لینے کے دینے نہ پڑجائیں۔
قارئین! پہلے تو اس محکمے کا کوئی والی وارث یا وزیر نہیں ہوتا۔ اگرہوتا بھی ہے، تو دیگر محکموں کے ساتھ ملاکر یہ محکمہ بھی بادل نخواستہ کسی سست اور کاہل انسان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ خود یہ محکمہ بھی سستی اور کاہلی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس کے افسران اور ذمہ داران خاموش اور چُپکے سے ایک کونے میں بیٹھے نہیں بلکہ پڑے رہتے ہیں جب تک ان کو سوٹے مارکر جگایانہ جائے۔ ہلایا جلایا نہ جائے اور منھ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارکر زبردستی ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور گھمایا نہ جائے، تب تک یہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کبھی اپنے ضلع یا علاقے کی سوشل ویلفیئر تنظیموں کے اجلاس بلاتے ہیں نہ اُن سے کارکردگی کاپوچھتے ہیں، اور نہ اُن کی سرگرمیوں میں شرکت ہی کرتے ہیں۔ اگر کوئی تنظیم انہیں غلطی سے بلائے تو ان کے نہ جانے کے سو بہانے ہوتے ہیں۔ اگر پروگرام ہفتے اور اتوار کو ہو، تو پھر شرکت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وہ ان افسران بالا کی چھٹی ہوتی ہے اور چھٹی کے دن یہ کہیں باہر کے گاؤں یا علاقہ میں کسی کے حجرے یامقام پر تھوڑی دیرکے لیے بطورِ سیر و تفریح بھی وقت نہیں گزار سکتے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ پھر بھی ان افسران کے مع عملہ مزے ہیں۔ گھر بیٹھے یا دفتر بیٹھے بھاری تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ حکومتی سہولیات سے ہزاروں فوائد اٹھا رہے ہیں۔ گرمیوں میں ٹھنڈے کمروں اور سردیوں میں اوپر چھت پر دھوپ سینکنے کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔
سوشل ویلفیئر تنظیمیں اگر کہیں غلطی سے پیسوں کا پوچھ لیں۔ کوئی عوامی فلاح و بہبود کی سکیم یاضرورت پیش کریں، تو بجٹ نہ ہونے کا رونا رویا جاتا ہے۔ اگر انہیں بجٹ نہیں دیا جاتا، اسے کسی گنتی میں شمار نہیں کیا جاتا، کوئی سرگرمی نہیں، تو پھر ’’کام کا نہ کاج کا، دشمن اناج کا‘‘ کے مصداق اسے ختم کیوں نہیں کیا جاتا۔ جہاں بے کار گاڑیاں بیچی جا رہی ہیں، بے کار موٹے بھینسوں کو فروخت کیا جا رہا ہے، وزارتوں کو کم کیا جا رہا ہے، محکموں میں درجہ بندی کی جا رہی ہے، بجٹ میں کٹوتی کی جارہی ہے، تو وہاں پھر اس بے کارمحکمے کا کیاکام؟ اسے بھی بیک جنبش قلم ختم کیاجائے۔ کیوں کہ میرے خیال میں یہ ایک بے کار محکمہ ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں۔ عوام کو سماجی بہبود کی کیا ضرورت ہے؟ عمر رسیدہ شہریوں کو تنگ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہیں آرام سے کہیں مر کھپنے دیں۔ ایسے ’’بے کار محکمے‘‘ پر مزید اخراجات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ صرف چند افسران اور حکامِ بالا کے عیش و عشرت کے لیے سفید ہاتھی جیسا ’’محکمہ‘‘ پالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ویسے بھی پاکستان ایک ویلفیئر ریاست نہیں ہے، یہ چند گنے چنے افراد اورطبقہ بالا کی فلاح و بہبود کے لیے وجود میں آیا ہے، یہاں عام آدمی کو صرف نچوڑا جاتا ہے۔ اسلام کے نام پر، استحکام کے نام پر، قومیت کے نام پر اور اب دہشت گردی اور امن وامان کے نام پر اس کا استحصال کیا جاتا ہے، اسے لوٹا جاتا ہے، پاکستانی کو اطمینان اور سکون زندگی میں نہیں صرف اور صرف مرنے کے بعد قبر میں ملے گا۔ لہٰذا انتظار کیجئے گا، ہاںْ انتظار مرنے کے لیے لیکن۔۔۔
مرکر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں