روح الامین نایابکالم

یومِ شہدائے پولیس

قارئین کرام! 14اگست کو پورے صوبہ میں یومِ شہدائے پولیس جوش و خروش سے منایا گیا۔ یہ دن ملکی سطح پر منایا جاتا ہے، لیکن اس میں ہمارے خیبر پختونخوا کو ایک الگ اور اہم مقام حاصل ہے۔ کیوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پختونوں کی سرزمین پر لڑی گئی ہے، اور اس میں پختون قوم نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ اس میں پختون فوجی جوانوں، پختون پولیس جوانوں کے علاوہ پختون سیاسی راہنماؤں، ورکروں کے ساتھ ساتھ عام پختون بھی ہزاروں کی تعداد میں شہید ہوچکے ہیں۔ اب سب کچھ عیاں ہوچکا ہے کہ پرائے کھیل اور دوسروں کے مفادات کے لیے پختونوں کی سرزمین کو میدانِ جنگ بنایا گیا۔ مظلوم، بے خبر اور سادہ پختونوں کے خون سے پختون سرزمین کو لالہ زار کیا گیا۔ کون ذمہ دار تھا اور کون ذمہ دار ہے؟ تاریخ کے صفحات اس کا فیصلہ بھی کریں گے اور تاریخی پہیہ اس کا بدلہ بھی لے گا۔ قدرت کا قانون ہے کہ مکافات عمل سے کوئی نہیں بچ سکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ 4 اگست کے یومِ شہدائے پولیس پر اتنے دیر سے کالم لکھنے کا جواز کیا ہے؟ بس یہی دیکھنا تھا کہ اس دن کے حوالے سے کیا کیا ہوتا ہے؟ کیا کیا پروگرام اور محفلیں منعقد ہوتی ہیں؟ کون کون، کیا کیا بولتا ہے؟ الفاظ، جملوں، عقیدت، خراجِ تحسین کے کیا کیا القابات استعمال ہوتے ہیں؟ یادوں، کہانیوں، مشکور ہونے اور ممنون ہونے کے کیا کیا دریا بہائے جاتے ہیں؟ اب سوال کے اندر سوال یہ ہے کہ یہ جو لاکھوں روپے خرچ کرکے سیمینار، پروگرام، مشاعرے اور محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، تجاویز پیش کی جاتی ہیں، وعدے وعید کیے جاتے ہیں، تو کیا عملی طور پر پولیس کے گونا گوں مسائل پر کچھ پیش رفت بھی ہوتی ہے؟ کچھ مسائل کا حل بھی نکالا جاتا ہے یا یہ سب نمائشی طور پر کیا جاتا ہے، صرف وقتی تسکین کے لیے کیا جاتا ہے؟ بات یہ ہے کہ اگر پولیس کے بنیادی مسائل حل نہ ہوں، اُن کو اُن کے بنیادی حقوق حاصل نہ ہوں، اُن کے معاشی اور سماجی مفادات کا تحفظ نہ ہو۔ اُنہیں اپنی تنخواہیں وقت پر نہ ملیں۔ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اُن کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ اپنی پنشن حاصل کرنے اور یہاں تک کہ شہدا پیکیج وصول کرنے کے لیے مہینوں اور سالوں دفتروں کے چکر نہ لگائیں اور کلرکوں کے آگے ذلیل و خوار نہ ہوں۔ اُن کی رہائش، صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے مسائل حل نہ ہوں، تو پھر ہر سال شہدا کے نام پر ان ڈراموں کو رچانے کی کیا ضرورت ہے؟ کب تک جھوٹے وعدوں سے انہیں بہلایا جائے گا، آخر کب ہم حقائق کا سامنا کریں گے؟ آخر کب ہم زندہ، حقیقی اور بنیادی مسائل پر توجہ دیں گے؟ ہم ہمیشہ سے زبانی جمع خرچ اور مصنوعیت پر اکتفا کرکے آئے ہیں۔ ہم اُس وقت بیدار ہوتے ہیں، حساس ہوتے ہیں، جب پانی سر سے اونچا ہوجائے۔
قارئین کرام! 4 اگست کے یومِ شہدا کے جوش و خروش، رنگین سیمیناروں اور تقریبات کے بعد حسبِ روایات 5 اگست کے اخبارات مختلف سرخیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ مسلم لیگ ن کی مریم نواز نے کہا کہ ”پوری قوم شہدا کی عظیم قربانیوں کی قرض دار ہے!“
پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو یوں گویا ہوئے: ”پولیس کے شہدا، قوم کے عظیم سپوت ہیں۔“
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فرمایا: ”انسدادِ دہشت گردی آپریشنز میں پولیس نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پولیس کے شہدا اور اُن کے اہلِ خانہ کو سلام پیش کرتا ہوں۔“
ڈی آئی جی ملاکنڈ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ”پولیس شہدا اور غازیوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔“
ڈی پی او بونیر نے کہا کہ ”قیامِ امن کے لیے پولیس کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔“
ڈی پی او باجوڑ پیر شہاب علی شاہ نے کہا: ”امن کے لیے باجوڑ لیویز کی لازوال قربانیاں ہیں۔“
تحریکِ انصاف سوات کے ایم پی اے جناب فضل حکیم صاحب نے فرمایا کہ ”شہدا کی بدولت امن قائم ہوا۔ قربانیوں کو نہیں بھولیں گے۔ ایف سی، پولیس اور افواجِ پاکستان کے شہدا کے لواحقین اور بچوں کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔“
فضل حکیم صاحب سے مؤدبانہ عرض ہے کہ ایف سی اور فوج کی فکر نہ کریں۔ اُن کا نظام اور طریقہئ کار درست ہے۔ البتہ پولیس کے لواحقین اور بچوں کا خیال رکھیں۔ وہ اکثر کلرک طبقے کے ظلم و زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ میں چلتے چلتے اس بارے میں بھی عرض کروں گا کہ پولیس میں کلیریکل سٹاف کو باہر سے نہیں بلکہ پولیس فورس سے لینا چاہیے، جس طرح پاکستان فوج میں باورچی، بٹ مین اور کلرک سٹاف سب فوجی ہوتے ہیں۔ اس طرح پولیس کا نظام بھی وضع کرنا چاہیے۔ پولیس سے متعلقہ کلرک، متاثرہ پولیس سپاہی کی پنشن، شہدا پیکیج اور جملہ مسائل کا خیال رکھے گا، کیوں کہ انہیں یہ احساس ہوگا کہ کل کلاں اُسے بھی اُن مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اُسی 5 اگست کے اخبار جہاں پولیس کی قربانیوں کا اعتراف کیا گیا ہے، خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت کے لاتعداد بیانوں کے پل باندھے گئے ہیں، وہاں ملاکنڈ سپیشل فورس کے تقریباً 5638 اہلکاروں کا تنخواہوں سے محروم ہونے کا ذکر ہے۔ اُن کے گھروں میں فاقوں کا دور دورہ ہے۔ انہیں عید کی فکر تھی جب کہ سپیشل فورس میں 95 فی صد اہلکار انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
عرض یہ کرنا ہے کہ پولیس کی قربانیوں میں کوئی شک و شبہ نہیں، لیکن صرف دن منانے اور تقریبات منعقد کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ 4 اگست کو منانے کے ساتھ ساتھ پولیس کے حقیقی مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پولیس کے حقوق، ریٹائرمنٹ کے بقایا جات اور خاص شہدا پیکیج کو اُن کے پس ماندگان کو باعزت اور پُروقار طریقے سے جلد از جلد ادا کرنا چاہیے۔ انتظامیہ اور کلرک حضرات اُس میں تاخیری حربے استعمال نہ کریں۔ شہدا کے پس ماندگان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اُٹھائیں۔ نیز عام پولیس سپاہی کی تنخواہوں پر نظرِثانی کی جائے۔ پولیس افسران، پولیس انسپکٹر، پولیس تھانہ انچارج اور عام پولیس سپاہی جو ایمان داری سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں، اگر کرپشن اور رشوت میں ملوث نہ ہوں، تو انہیں تعریفی اسناد اور نقد انعامات سے نوازا جائے، انہیں ترقی دی جائے۔ اس طرح کی حوصلہ افزائی سے پولیس ڈپارٹمنٹ میں ایمان داری، خلوص اور اخلاقی معیار کو فروغ ملے گا۔ کھلی کچہریوں، پولیس اور عوامی نمائندوں کے درمیان اجلاسوں کا انعقاد ایک اچھی اور قابلِ ستائش پیش رفت ہے، لیکن اُن میں طے شدہ فیصلوں اور تجاویز پر عمل کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی کرنی چاہیے۔ صرف ”نشستن و گفتن و برخاستن“ تک محدود نہ ہو۔
پولیس کے اعلیٰ حکام سے درخواست ہے کہ اوپر انتظامیہ کی جانب سے عام پولیس سپاہی کو جو مراعات دی جاتی ہیں، وہ درمیان میں بلا تاخیر اور بغیر غائب ہونے کے نچلے طبقے کو منتقل کرنے چاہئیں۔ اگر پولیس کے ایک سپاہی سے اپنی ڈیوٹی کے علاوہ زیادہ ڈیوٹی لی جاتی ہے، تو وہ اضافی معاوضہ لینے کا حق دار بھی بنتا ہے۔ لہٰذا اُسے مہینے کی تنخواہ کے ساتھ ساتھ اُوور ٹائم کی ادائیگی لازمی قرار دی جائے۔
آخر میں پولیس سے بھی یہ عرض کروں گا کہ وہ عوام کا احترام کریں۔ کسی بھی شہری کو بلاوجہ تنگ نہ کریں۔ مجرم کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ نہ اُٹھائیں۔ اُن سے نقد اور اشیا کا مطالبہ نہ کریں۔ اس طرح معمولی مالی فائدے کے حصول کے لیے پورے پولیس محکمے کا وقار مجروح ہوتا ہے، اور عام آدمی پولیس کو اپنا دشمن اور مخالف تصور کرتا ہے۔ دونوں کے درمیان دوریاں بڑھ جاتی ہیں۔ عدم اعتماد پیدا ہوجاتا ہے، جس سے پورا معاشرہ اور سماج اضطراب اور بے قراری کا شکار ہوجاتا ہے۔ بدنظمی اور انتشار وجود میں آجاتا ہے۔ پولیس اپنا یہ مشہور نعرہ اور مقصد کبھی نہ بھولیں کہ ”پولیس کا ہے فرض، مدد آپ کی۔“

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں