ڈاکٹر سلطان رومکالم

پشتون معاشرے میں مسجد اور حجرے کا کردار

گذشتہ سالوں میں خیبر پختونخوا و ملحقہ قبائلی علاقہ جات خاص کر سوات میں خراب اور کشیدہ حالات، عسکریت پسندی، فوجی کارروائیوں اور کشت و خون کا بازار گرم رہا۔ اس کے اسباب و محرکات اور فوجی کارروائیوں کی اصل حقیقت اگر باہر کی دنیا میں متنازعہ اور مبہم ہو، تو ہو لیکن یہاں کا ہر باسی اس کے بارے میں خوب جانتا ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش اور ضرورت بھی نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے امور سے بحث نہیں کیا جاتی، تاہم ایک اہم پہلو یعنی مذہبی طبقے کے کردار اور اسلام کے نام کے استعمال کے بارے میں بعض غلط فہمیوں کو دور کرنے کی خاطر بات کی جاتی ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ پختون معاشرے میں مذہبی پیشواؤں اور افراد جو ملا، پیر، فقیر، بابا اور حاجی صاحب وغیرہ کے القاب سے یاد کیے جاتے ہیں، کا کردار مذہبی امور کی حد تک محدود رہا ہے اور ان کا سیاست یا عرفِ عام میں دنیاوی امور و معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں۔ اس طرح کی بات 2002ء کے انتخابات سے قبل عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے بھی اپنی پارٹی کے ایک اجلاس میں کی تھی۔ اس نے بھی حجرہ اور مسجد یا دوسرے لفظوں میں دنیاوی سربراہوں اور مذہبی پیشواؤں کے علاحدہ علاحدہ کردار کا ذکر اور مسجد یا مذہبی پیشواؤں کی سیاست سے سروکار نہ ہونے کی بات کی تھی۔ اس طرح بعض اہلِ قلم بھی سوات کے حوالے سے سوات کے گذشتہ بحران کے تناظر میں اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی حقیقت حال ایسی ہی رہی ہے یا یہ ایک واہمہ ہے؟
پختونوں، خاص کر خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات اور سوات کی تاریخ پر نظر دواڑنے سے حقیقت کچھ اور ہی سامنے آتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان علاقوں میں نہ صرف مذہب اور مذہبی پیشواؤں یعنی ایسے افراد جن کے ناموں کے ساتھ ملا، پیر، فقیر، بابا اور حاجی صاحب کے سابقے و لاحقے جڑے ہوتے ہیں، کا اہم کردار رہا ہے بلکہ ایک خاص یعنی مسلح جدوجہد اور جنگ و جدل کے تناظر میں ان کے راہنما یا ہر اول کردار رہے ہیں، خاص کر جب بیرونی قوتوں کے مقابلے کا عنصر شامل ہو۔
یوسف زئیوں کے قبضہ کے بعد سوات کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے، تو سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں مذہبی افراد یا پیشواؤں جیسے اخون درویزہ، اس کا بیٹا اخون کریم داد اور پوتا میاں نور با اثر رہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں اخون عبدالغفور المعروف سیدوبابا کسی حد تک با اثر رہا۔ اس کی زندگی ہی میں سولہویں صدی عیسوی میں گزرے ہوئے مشہور فروسید علی ترمذی المعروف پیر بابا ہی کی اولاد میں سے سید اکبر شاہ کو اس کی ذاتی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ پیر بابا کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے ستھانہ سے بلاکر سوات کا حکمران بنایا گیا، جس نے 1857ء میں اپنی وفات تک حکومت کی۔
اسی طرح انیسویں صدی عیسوی میں سیدوبابا کے بیٹوں کا کافی اثر و رسوخ رہا اور ان میں سے بڑے نے تو سوات کا حکمران بننے کے جتن بھی کیے لیکن اس مقصد میں کام یاب نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ سیدو بابا نے بھی اپنی زندگی میں دو دفعہ اسے حکمران بنائے جانے کی خود بالواسطہ کوشش کی تھی، لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔
انیسویں صدی عیسوی کے اواخر اور بیسویں صدی عیسوی کے شروع میں سعد اللہ خان المعروف سرتور فقیر نے سوات میں کافی اثر و رسوخ حاصل کیا۔ اگر چہ اس کا تعلق بونیر کے ایک با اثر پختون خاندان سے تھا، لیکن سوات میں اس کا یہ اثر و رسوخ خاندانی بنیاد پہ نہیں بلکہ اس کے انگریز مخالف ہونے اور ساتھ ساتھ مافوق الفطرت قوت کا مالک ہونے کے دعوے اور فقیر کے لقب سے تھا۔
بیسویں صدی عیسوی کے پہلے ربع ہی میں سنڈاکئی بابا سوات کے منظر پر ایک نمایاں فرد کے طور پر ابھر کر سامنے آیا اور سوات کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کے مریدوں کے ایک خاص حصہ کو شیخان (شیخ کی جمع) کہا جاتا تھا۔ سنڈاکئی بابا کے یہی شیخان، جنہیں آپ کی شاہین فورس بھی کہا جاسکتا ہے، ایک مسلح گروپ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور سوات میں بعض خرابیوں کے خلاف سنڈاکئی بابا کی تطہیری مہم میں حصہ لیا۔ کہتے ہیں کہ سنڈاکئی بابا کے ان شیخان میں سے ایک کا نام خان بہادر تھا۔ اس خان بہادر کے ہاں پچاس افراد کا ایک طاقتور اور مطلق العنان دستہ تھا، جو بزورِ شمشیر سنڈاکئی بابا کے احکامات نافذ کرتا تھا۔ اسی خان بہادر کے کردار اور سینہ زوری کا اظہار اس پشتو ٹپہ میں ہے کہ
آسمان تہ لار د ختو نشتہ
د زمکے سر د خان بہادر ورسیدہ نہ
یعنی آسمان پر چڑھنے کی کوئی راہ نہیں جب کہ زمین پر خان بہادر ہی کا حکم چلتا ہے اور اس کا حکم مانے بغیر جینا محال ہے۔ یاد رہے کہ اس ٹپہ کو ’’خان بہادر صاحب، سلطنت خان آف جورہ‘‘ سے جوڑا جاتا ہے، لیکن یہ دراصل سنڈاکئی بابا کے اس شیخ خان بہادر سے متعلق تھا۔
اس طرح دوسری باتوں کے پہلو بہ پہلو پیر بابا کی اولاد میں سے ہونے کے ناتے سید عبدالجبار شاہ کو 1915ء میں ستھانہ سے بلا کر سوات کا حکمران بنایا گیا، اور سیدوبابا کی اولاد ہونے کے ناتے مذہبی اثر و رسوخ رکھنے کے بل بوتے پر میاں گل عبدالودود، اس کا بھائی شیرین جان اور ان کے چچیرے بھائیوں نے بھی سوات میں سیاسی طاقت کے حصول کی خاطر کافی تگ و دو کی اور سوات کی آبادی کا ایک حصہ ان کے حلقۂ اثر میں شامل تھا اور یہ یہی مذہبی یا صوفیانہ پس منظر تھا، جو 1917ء میں میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب کے سوات کا حکمران بننے میں ممدو معاون ثابت ہوا۔
ملا، فقیر، بابا، پیر اور حاجی صاحب وغیرہ کے القاب کے حامل افراد نے پختونخوا خاص کر قبائلی علاقہ جات اور سوات کی تاریخ میں ہمیشہ سے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، جسے کسی طور نہ تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ حقیر اور کم گردانا جاسکتا ہے (یاد رہے کہ ان میں سولہویں صدی عیسوی میں گزرے ہوئے سید علی ترمذی المعروف پیر بابااور بایزید انصاری المعروف پیر روخان و پیر تاریک کے نام اور کردار بھی شامل ہیں)۔ اس طرح کے افراد کا باہر کے علاقوں جیسے افغانستان، ہندوستان حتیٰ کہ ترکی سے روابط اور ان ممالک کے ممتاز اور بااثر مذہبی راہنماؤں سے ان کے رشتے بھی کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی کے حوالے سے ان کے دو ٹوک اور کسی طرح تردید نہ ہوسکنے والے شواہد موجود ہیں۔
علاوہ ازیں باہر سے آئے ہوئے مذہبی افراد، جو بیرونی قوتوں کے مخالف تھے اور ان کے خلاف پھرتی سے برسرِ پیکار رہے ہیں، کو پناہ اور تحفظ دینا بھی کوئی نئی بات نہیں۔ سید احمد شہید کے پیروکاروں، جنہیں عرف عام میں مجاہدین اور ہندوستانی مجاہدین کہا جاتا تھا، کو بونیر اور باجوڑ میں پناہ اور مستقل اِقامت کی اجازت اور ان کی خاطر انگریزوں سے لڑائی لڑنا، خاص کر 1863ء کی جنگِ امبیلہ جس میں بونیر، سوات، دیر اور باجوڑ کے لوگوں نے برطانوی فوج کی طاقت کے سامنے بھر پور مزاحمت کی اور ان کے خلاف قریباً دو ماہ تک ڈٹ کر لڑے، اس کی ناقابلِ تردید مثالیں ہیں۔
مذکورہ بالا قسم کے مذہبی افراد کا پختونخوا میں اثر و رسوخ کا اندازہ ان جوابات سے بھی لگایا جاسکتا ہے، جو آفریدیوں نے 1897ء کے انگریزوں کے خلاف بغاوت کے بعد رابرٹ وار بورٹن کے سوالات کے جواب میں دیے تھے۔ اس سوال کہ ’’کیا چیز آپ لوگوں کو زیریں علاقوں میں لے آئی؟‘‘ کے جواب میں آفریدیوں کا کہنا تھا کہ ’’ملا ہمیں زیریں علاقوں میں لے آئے۔‘‘ اس سوال کہ ’’آپ ملاؤں کی اطاعت کیوں کرتے ہیں اور انہیں اپنے علاقوں سے نکالتے کیوں نہیں؟‘‘ کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’وہ ہمارے مقابلے میں بہت طاقتور تھے۔‘‘ اور اس سوال کے جواب میں کہ ’’پھر آپ لوگوں نے انگریزوں کی چوکیوں پر حملہ کیوں کیا؟‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’ملاؤں نے ہمیں مجبور کیا تھا۔‘‘ اس تناظر میں طالبان اور اس طرح کے دوسرے افرا دیا وہ لوگ جو مذہب کی بنیاد پر مسلح جدوجہد کی وکالت کرتے ہیں، غیر ملکیوں اور غیر مقامی افراد کو پناہ دیتے ہیں اور ہندوستان، افغانستان اور دوسرے ممالک کے ہم خیال لوگوں سے روابط رکھتے ہیں اور ان سے تعاون اور اشتراکِ عمل کرتے ہیں، کوئی انوکھی اور نئی بات نہیں۔ (جاری ہے)

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں