ایس ایم نعیمکالم

لپ سروس

ہمارے معاشرے میں ’’لِپ سروِس‘‘ کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن اس پر اکثر مؤرخین چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ ذاتی اندازے کے مطابق ہم زندگی کے اورشعبوں کی طرح اِس میں بھی درجۂ کمال تک کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور روز بہ روز ترقی کی نئی منازل طے کرتے رہتے ہیں۔ دورِحاضر میں اِشتہاری شعبہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ زندگی کا یہ پہلو بھی کافی تقویت پا چکا ہے۔ مثلاً آپ نے کوئی کا م سر انجام دیا ہو یا نہیں، بیان اتنا مدلل ہو کہ سننے والے عش عش کر اٹھیں اور آپ کی تعریف کیے بغیر کوئی چارہ باقی نہ رہے۔ بیان ایسا کہ سامنے والے خوب متاثر ہو جائیں۔ ایسے میں سامعین میں سے اگر کسی کو ذرا بھی شک گزرے کہ یہ تو صرف شیخی بگھار رہا ہے، تو سمجھ لیجیے کہ بیان میں کوئی کمی ضرور رہ گئی ہے۔ سامعین اگر باس (Boss) کی باتیں اور دعوے سن رہے ہوں، تو اُن کا ’’فرض‘‘ بنتا ہے کہ نہایت طمانیت سے سنتے جائیں۔ اور اگر ساتھ ساتھ تصدیقی کلمات بھی کستے جائیں، تو کیا بات ہے؟ ہاں، اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ ’’جی ہاں‘‘ صرف وہاں لگایا جائے، جہاں اس کی ضرورت ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ زیادہ مستعدی دکھانے میں ’’نہیں جی‘‘ کی جگہ بھی ’’ہاں‘‘ لگایا جائے۔ ورنہ مضمرات کی ذمہ داری خود بے احتیاطی برتنے والوں کے سر ہے۔
کچھ محققین یہ خیال کرتے ہیں کہ قدرے مناسب انداز میں دعویدار کو روکنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ حالات بے قابو ہونے کے ازحد امکانات ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ اگر سامعین ذرا سی بدپرہیزی کا مظاہرہ کریں اور دعوے کرنے والے باس(Boss) یا سیاست دان کو وقت پر نہ روکیں، تومعاملہ مزید بگڑتا جاتا ہے۔ اگر سامعین میں بھی کوئی نذیر تبسم صاحب کی مانند ہو کہ ان کو کہنے والے کی باتیں پسند نہ آئیں جیسے:
مجھے اس شخص کی باتوں پہ حیرت ہو رہی تھی
وہ خود کو کہہ رہا تھا میں قدآور آدمی ہوں
تو بھی دستورِ دنیا کا پاس رکھتے ہوئے ذرا سا تیور چڑھا کر ہلکے سے احتجاج پر ہی اکتفا کرنا موزوں ہے۔ اوراگر پھر بھی اِفاقہ نہ ہو، تو ساتھ بیٹھے ہوئے ساتھی کے کان میں کچھ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اس میں یہ احتیاط برتنا لازمی ہے کہ جس کے کان میں یہ بات کہی جا رہی ہے، کہیں وہ دعویدار کا قریبی اہلکارتو نہیں؟ احتیاط تو اس لحاظ سے بھی بہت ضروری ہے کہ مبادہ یہی ساتھی بھی ’’باس‘‘ کی قربت حاصل کرنے کے لیے آپ کے احتجاجی کلمات کہیں ان تک نہ پہنچائے۔ ویسے بھی ترقی پانے اور دیگر مراعات پانے کے لیے منظورِنظر افراد میں شامل ہونے کے لیے یہ انتہائی آسان طریقہ ہے۔ خصوصاً جب اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایسا ناممکن ہو۔
پوری تقریر سننا تو پھر بھی معاشرتی سمجھ داری اوراخلاقی فرائض میں آتا ہے، اور کبھی کبھار تفریحی جملے کسَنا بھی قدرے تہذیب کے دائرے میں آتا ہے۔
ہمارے ایک جاننے والے تو ’’باس‘‘ کی بات شروع ہوتے ہی ان کا ساتھ دینے میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ایٹم بم بنانا بھی اُن کا مرہونِ منت قرار دیتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے اس سے معاشرے پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، نہ دنیا ایٹم بم کے مؤجد کو تبدیل کر دے گی بلکہ اس سے ہمارا اور ’’باس‘‘ کا تعلق بہتر رہے گا جو ایک خوشگوار نوکری کی علامت ہے۔ جناب اپنے اس فعل کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ’’صرف ہم ہی نہیں جو اس طرح کا رویہ روا رکھتے ہیں۔ ہم سے پہلے بھی زمانے کی یہ روش رہی ہے، ورنہ کسی کو کیا تھا یہ کہنے کے لیے:
لگا کے آگ شہر کو یہ بادشاہ نے کہا
اُٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شور بہت
جھکا کے سر کو سبھی شاہ پرست بول اُٹھے
حضور شوق سلامت رہے، شہر اور بہت
ابنِ انشاؔ کے فرمان کے مطابق شہنشاہ اکبرکی بہتر حکمرانی کا راز یہ تھا کہ وہ اَن پڑھ تھا۔ ’’اس کے دربار میں پڑھے لکھے نوکر تھے جو نورتن کہلاتے تھے۔ یہ روایت اس زمانے سے چلی آ رہی ہے کہ اَن پڑھ لوگ پڑے لکھوں کو نوکر رکھتے ہیں۔ اور پڑھے لکھے اس پر فخر کرتے ہیں۔‘‘
ہم بہرحال یہ تو نہیں کہتے کہ آج کل ہر حلقۂ تخاطب اَن پڑھ اور جاہلوں کا ٹولہ ہوتا ہے۔ لیکن اس جرأتِ گستاخی کا مرتکب ٹھہرنا ہر کوئی پسند نہیں فرماتا کہ اس حقیقت کا اظہار کرسکے جس کا فاروق عابدی سید صاحب نے یہ خاکہ پیش کیا ہے:
کرنے لگا ہے عرض وسماوات پر بحث
اندھے کو اک کرن سرِبازار مل گئی
یہ سانحہ ہے اس کو فضیلت نہ جانیے
سر کے بغیر آپ کو دستار مل گئی
ہمارے بھیجے میں اب یہ بات آنے لگی ہے کہ حضرتِ اقباؔ ل نے یہ کیوں کر فرمایاتھا کہ
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
ویسے تعریف کروانا تو تقریر کنندہ کی صلاحیت پرمنحصر ہے۔ وہ اگر اپنی تعریف کروانے کا گُر جانتا ہو، تو پھر کیا فکر؟ ذرا سی مہارت کا مظاہرہ کرکے وہ اپنی تعریف بخوبی کروا سکتا ہے۔ لگتاہے کہ قدرت نے ہمارے سادہ لوح سامعین کو اپنے لیڈروں کی تقریریں سننے اور اُن کے مداح رہنے پر ہی مامور فرمایا ہے۔ شاید بہت سارے لوگوں کو ناخواندہ رکھنے کی غرض بھی یہی ہو۔ ویسے بھی زیادہ پڑھے لکھے لوگوں میں اکثر مواقع پرنہ صرف اختلافِ رائے پایا جاتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ سننے والے سے اتفاق بھی نہ رکھتے ہوں۔
فرق دانشوروں میں ہے ورنہ
جتنے ان پڑھ ہیں سب برابر ہیں
کچھ حضرات تو ایسے بھی پائے گئے ہیں کہ شروع قرآنِ کریم کی آیات مبارکہ سے کرلیتے ہیں۔ بس اب تو آگے سامعین نہ صرف اُن کا سننا ضروری سمجھتے ہیں بلکہ جناب کے ہر جھوٹ کو بھی سچ ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اکثرسننے والے اب اس عمل کو ’’باعثِ ثواب‘‘ بھی گرداننے لگتے ہیں۔ ایسے میں کچھ سامعین خود کو پھنسے ہوئے تصور کرکے یہی کہہ سکتے ہیں کہ
ایماں مجھے روکے ہے، تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے ،کلیسا میرے آگے
اس طرح بے چارے واضح طور پر اِختلاف کرسکتے ہیں اور نہ اتفاق۔ کچھ حضرات تو تقابل میں کہتے ہیں، یار! دیکھیں نا، ایسا تو سب ہی کرتے ہیں۔ کوئی اور ہوتا، تو وہ بھی اِسی طرح ہی کرتا۔
اور ہم حضرتِ اقبال کے اس کردار کی ناپیدی کا رونا رونے لگتے ہیں جس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
فلک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے؟

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں