فضل رازق شہابکالم

ایک گم گشتہ روایت

بچپن میں ہم چھٹیاں گزارنے جب گاؤں جاتے تھے، تو اپنی نانی کے ہاں قیام کرتے تھے۔ حالاں کہ ہمارے چچا کا گھر بھی اسی ’’چم‘‘ یا محلے میں تھا، مگر نہ کبھی انہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی کہ ہم اُن کے ہاں آئیں، نہ ہم خود ایسا پسند کرتے تھے۔ ایک آدھ دن کے علاوہ ہم پوری چھٹیاں نانی کے ہاں گزارتے۔ وہ ایک معزز شخص کی بیوہ تھیں اور اپنی ایک نیم پاگل سی بیٹی کے ساتھ رہتی تھیں۔ ہماری یہ خالہ چار بہنوں میں سب سے بڑی تھیں، مگر بالکل سادہ اور پاکیزہ زندگی گزارتی تھیں۔ ہمارے نانا ’’لعل میاں‘‘ کے نام سے مشہور تھے اور شکار کے رسیا تھے۔ اُن کی ڈھیر ساری زمینیں تھیں جو گاؤں کے علاوہ ’’زروبی‘‘ صوابی میں واقع تھیں۔ یہ سب ان کے شوقِ شکار اور دعوتوں کی نذر ہوگئیں۔ اُن کا ایک ہی بیٹا تھا ’’امیر محمد باچا‘‘ جو کم عمری میں سکھر چلا گیا۔ پھر اپنے اکلوتے لڑکے ’’امیر حمزہ باچا‘‘ کو بھی پاس بلالیا۔ یہ باپ بیٹا سالوں بعد آتے اور اپنے مکانات میں سے تھوڑا تھوڑا کرکے بیچ دیتے تھے۔ ہمیں نہیں پتا کہ ہماری نانی کس طرح گزر بسر کرتی تھیں۔ ہم تو چھٹیاں گزار کر واپس اپنے گھر سیدوشریف چلے جاتے تھے۔
ہم نے پہلی دفعہ حجرے کا نام گاؤں میں سنا۔ سیدوشریف میں تو یوں کہتے تھے کہ سپہ سالار صاحب کا بنگلہ، فلاں وزیر کا بنگلہ۔ اسی طرح دوسرے افسروں کی حویلیاں اور ’’ڈھیرے‘‘ ہوتے تھے جن کو پشتو میں ’’دیرہ‘‘ کہتے تھے۔
پہلا حجرہ جو ہم نے دیکھا ’’میر اسلم کاکا‘‘ کا تھا۔ ہمارے چم میں حجروں کی جگہ ’’بیٹھکیں‘‘ ہوا کرتی تھیں۔ مثلاً کریم میاں کی بیٹھک، یہ رشتے میں ہمارے ماموں لگتے تھے۔ فضل کریم میاں کی بیٹھک میں وہ اخون خیل مرد حضرات آتے تھے جو بوجوہ گاؤں میں رہنے پر مجبور تھے۔ ورنہ اکثر میاں گان خاندان سمیت کراچی میں رہ رہے تھے۔ اس طرح ہم پر یہ بات واضح ہوگئی کہ میاں، ملا وغیرہ مہمانوں کے ٹھہرنے کے لیے جو عمارت بناتے ہیں، وہ ’’بیٹھک‘‘ کہلاتی ہے اور پختونوں کے مہماں خانے ’’حجرہ‘‘ کہلاتے ہیں۔
پہلے پہل ہم نانی کے گھر کے ارد گرد کے مکانات وغیرہ کو ’’ابوہا‘‘ سمجھتے تھے اور اس چم سے باہر جانا ایک مہم جوئی لگتا تھا، ہماری نانی کا گھر ایک بہت بڑے ’’ہال‘‘ پر مشتمل تھا، جس میں لکڑی کے ستونوں کی کئی قطاریں تھیں۔ اوپر شہتیر رکھ کر ’’رَف‘‘ قسم کی کڑیاں لگائی گئی تھیں۔ آگے برآمدہ نہیں تھا۔ صحن کے ایک کونے میں دھان کی ترائی کے لیے بڑے بڑے پتھر کے تختوں سے بنا ہوا حوض تھا، جس میں پانی ڈال کر دھان ڈالا جاتا۔ پھر آگے لمبا سا صحن اور پھر ماموں کا گھر۔ ماموں کی بیوی ایک بیٹے کو جنم دے کر فوت ہوچکی تھیں۔ وہ گورتئی کے صاحبزادگان فیملی سے تعلق تھیں۔
جب ہماری ہمت ذرا بڑھ گئی اور ہم گاؤں کے اندر اور باہر دریا تک جانے لگے، تو اور حجرے بھی دیکھنے کو ملے۔ بی بی خیلوں کا حجرہ ہم نے ایک لڑائی کے دوران میں دیکھا۔ یہ دو حصوں پر مشتمل تھا۔ دونوں حصوں میں ایک ایک کمرہ اور آگے کھلا صحن۔ کوئی چار دیواری نہیں۔ ہم کو کچھ پتہ نہیں تھا، بس دونوں حصوں سے سنگ باری ہو رہی تھی۔ پھر کچھ میاں لوگ درمیان میں کود پڑے اور سنگ باری اور مکئی کوٹنے والی موٹی لکڑیوں کے وار رُک گئے۔ کئی زخمی بری کوٹ شفاخانہ منتقل کردیے گئے۔
ایک حجرہ جنگی خیلوں کا بھی ہوا کرتا تھا۔ جس کے متعلق بہت سے مزاحیہ حکایات منسوب ہیں، لیکن اس کے صحیح ہونے کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہم نے خود یہ حجرہ نہیں دیکھا، تو سنی سنائی باتوں کا کیا فائدہ!
ان سب حجروں میں ایک بات مشترک تھی کہ ان کے نزدیک ہی ان اقوام کی مساجد بنی ہوئی تھیں۔ ہمارے بچپن میں ابوہا میں چودہ مساجد تھیں۔ اب تو یہ تعداد شاید دُگنی ہوگئی ہوگی۔ بسہ خیل کا حجرہ اور مسجد کے بیچ سے گلی گزرتی تھی۔ اسی حجرے پر بعد میں خونیں تصادم ہوگیا جس کے نتیجے میں تین قیمتی جانیں چلی گئیں۔
اسی طرح کئی حجرے وجود میں آئے جن میں بخت بلند خان مرحوم کا حجرہ اور فقیر ملک کا حجرہ قابل ذکر ہیں۔ فقیر ملک کے بیٹے شاہرم خان اور ظہور احمد اس حجرے کے روح رواں ہیں۔
اب تو ویسے بھی نفسا نفسی کا عالم ہے اور جتنے گھر ہیں، اتنے ہی حجرے اور بیٹھک ہیں۔ ہمارے موجودہ محلے میں پہلے صرف محمد خان مرحوم کا حجرہ تھا جس میں اس گھرانے کے تمام افراد شام کو مل کر بیٹھتے تھے۔ اب مذکورہ خاندان کے استعمال میں چھے بڑے حجرے ہیں۔ پھر اسی محلے میں ودان خان کا حجرہ ہے۔ اسی محلے کے آخری حصے میں فضل ستار خان کا حجرہ ہے۔ گویا ہر کسی نے ’’ڈیڑھ اینٹ کا حجرہ‘‘ بنایا ہے۔ ان حجروں میں سہولتیں یقیناًزیادہ ہوں گی، لیکن مہمانوں کی آمد و رفت ناپید ہے۔ اس وجہ سے حجرہ کلچر معدوم ہوچلا ہے، جو پختونوں کا طرۂ امتیاز تھا۔
بس نام رہے اللہ کا!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں