ایس ایم نعیمکالم

یادوں کے دریچے

ویسے تو سفرکرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ جیب اِجازت دے، تو ہوا میں اُڑ کے کسی بھی ائیرلائن کے ذریعے جلدی پہنچا جا سکتا ہے یا پھر وقت اِتنا قیمتی نہ ہو جتنا پیسہ، تو ریل گاڑی میں بھی سفر کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں قومی اِداروں کو مزید اَبتری سے بچانے میں آپ اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، ورنہ بس کا سفر بھی اتنا برا نہیں جتنا گھوڑے اور خچر کا سفر ہوتا ہے۔ پیدل جانے کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ ’’دنیا وَما فیہا‘‘ کی تمام حدود و قیود سے آزاد ہوں، جہاں جی میں آیا پڑاؤ کیا، جو ملا کھایا اور اِس میں اپنی منزل کو پہنچنا نصیب ہو یا نہ ہو، ایک قوی امکان یہ ہے کہ آپ کسی شہری آبادی سے دورجنگل میں پڑاؤ ڈالیں اور ایک وسیع حلقۂ متاثرین بنا ڈالیں۔ بہ شرط یہ کہ آپ دُعاؤں اور تعویذ گنڈوں سے خلقِ خدا کو ’’متاثرین‘‘ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ پھر منزل پر پہنچنے سے پہلے منزل مل جائے گی اور آپ جنگل اور ویرانے سے ہی اپنی شہرت کا اندازہ نہ کر پائیں گے۔
ہم نے ویسے ان تمام طریقوں پر غور کیا لیکن پہلے والا طریقہ ہی اپنے لیے مناسب سمجھا اور یوں جب 17 نومبر سے کراچی میں شروع ہونے والے سہ روزہ ورکشاپ میں شرکت کے لیے اپنے کالج سے ہمارے نام کا قرعہ نکالا گیا،تو ہم نے بصد خوشی قبول کیا کہ اس بہانے کراچی میں یونیورسٹی کے زمانے کے دوستوں سے ملاقاتیں ہوں گی اور پرانی یادیں تازہ ہوجائیں گی۔
دل ہی دل میں کئی پروگرامز بنائے اور پھر سے ان کی ترتیب بدلتے رہے۔ ایسے میں 16 نومبر کا وہ دن آیا جس دن پشاور سے کراچی پرواز کرنی تھی۔ ایئرپورٹ پہنچنے سے پہلے ہی تقریباً ایک کلومیٹر دور ہمیں گاڑی واپس کر نی پڑی کہ اس مقام سے آگے جانے کے لیے ہمیں پیدل جانے کو کہا گیا۔ یہ اس لیے نہیں کہ حکام کو ہماری صحت کا خیال تھا کہ اگلے تین دنوں تک کانفرنس کے دوران میں ہمیں کھانا وافر ملے گا، تو اس سے پہلے ہماری کیلوریز خرچ کرانا تھیں، بلکہ یہ سب اہتمام حجاجِ کرام کے حج سے واپسی پر کیا گیا تھا۔ شاید یہ دیکھنے کہ پشاور سے جانے والے حجاجِ کرام نے صفاو مروا کے بیچ تو سات چکر لگائے ہی ہوں گے، تو پاکستان پہنچنے پر اُن کو فوراً سہولیات میسر کرنا اُن کی صحت کے لیے مفید نہیں۔ اُن کے لیے ترتیب دیے گئے راستے پر ہم بھی حج کیے بغیر چل پڑے اور تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے ایئرپورٹ پہنچ گئے۔جہاز پر چڑھے، تو ہم سفر ساتھیوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا کہ ہم کابل جا رہے ہیں یا کراچی؟ اتنے میں زنانہ آواز میں یہ اِطلاع دی گئی کہ ہم کراچی جانے والے ہیں۔ ہمیں صرف آواز سُنائی دی لیکن تصویر ابھی تک نہیں دکھائی دی کہ ہم نے اپنی ’’سماوی ہوسٹس‘‘ کی تلاش میں نگاہیں پھیریں، تو ناکامی کے بعد آنکھیں بند ہی کرلیں۔ سیّد ضمیر جعفری صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ہوائی جہاز میں آدمی پڑھتا ہے، کھاتا ہے یا پھرسوچتاہے۔‘‘ یہ نہیں پتا کہ انہوں نے ’’دیکھتا ہے‘‘ والا فعل کیوں حذف کیا۔ خیر، اُن کا ہوائی سفر بھی ہماری طرح کا ہوگا کہ اِس میں آدمی سوتا ہے، ہم جیسا ہوتو۔۔۔! اور اُن کی طرح کا ہو، تو’’سوچتا ہے۔‘‘
اپنی ’’سماوی میزبانوں‘‘ کو ہم نہ دیکھ سکے لیکن کچھ دیر کے بعد ایک دو لڑکے ہماری خدمت کے لیے حاضری فرما گئے۔ ہمیں قدرِ مایوسی ہوئی، لیکن پھر ہم نے خود کو تسلی دی کہ پی آئی اے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے کرایہ تو خاصا بڑھا ہی چکا، اب شاید یہ بھی ترقی کے عمل کا حصہ ہو، لیکن دل ہی دل میں نہ صرف صبح سویرے پیدل پھرانے والوں کو بلکہ پی آئی اے حکام کو بھی بہت برا بھلا کہا اور اتنے سے احتجاج پر اکتفا کیا۔
اچانک دو ’’خواتین نما‘‘ ہوسٹسز نظر آئیں ایک کو دیکھتے ہی دوبارہ آنکھیں بند کرنے کو دل کرنے لگا اور دوسری پر نظر اس لیے اٹکی کہ وہ اپنی تنخواہ کا ایک مقتدر حصہ ’’میک اَپ‘‘ پر خرچ کر چکی تھیں۔ بس اُسی کے لیے ذرا دیر کو وقفے وقفے سے اُس کی ’’میک اَپ‘‘ کا جائزہ لیتے رہے کہ سفر کا اِختتام ہوا اور ائیر پورٹ پر بیچ لیگژری ہوٹل (Beach Luxury Hotel) کی گاڑی ہمارے اِنتظار میں کھڑی ہمیں ہوٹل لے گئی۔ ایئرپورٹ پر پشاور سے شرکت کرنے والے دو اور ساتھی ڈاکٹروں سے تعارف ہوا۔ ہم سب نے ’’سنٹر آف بائیو ایتھکس‘‘ میں ہونے والے ورکشاپ میں شمولیت کرنا تھی۔
ذراسی دیر کو آرام کرنے کے بعد ہم نے کراچی یونیورسٹی جانا ہی مناسب سمجھا اور باقی دو ساتھی طارق روڈ شاپنگ کے لیے گئے۔ یونیورسٹی پہنچنے پر اپنے طالب علمی کے زمانے کی یادیں ذہن میں تازہ کرنے لگے۔ جب اِسی جامعہ میں داخلے کے لیے رات کو 9:00 بجے پہنچے اور صبح کو 10:00 بجے ایم فِل پروگرام کے لیے حسین ابراہیم جمال (HEJ) انسٹیٹیوٹ کے ٹیسٹ میں شامل ہونا تھا۔ سلیکشن تو ہماری ہو ہی گئی، جس کا ہمیں خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ کیوں؟ لیکن اِس سوال کا جواب تلاش کرنا ہم نے مناسب نہ سمجھا کہ کہیں واپس نہ ہوجائیں۔
یونیورسٹی کی رنگینی میں آگے بڑھتے گئے اور اپنے منتظر دوست محبوب عالم کے پاس پہنچے ۔
محبوب صاحب پروفیسر ظفر زیدی (مرحوم) کے لیب میں تھے اور اِسی لیب میں ہمارا ایک اور سینئرساتھی ’’عاشق‘‘ کے نام کابھی تھا۔ ایک دفعہ ایک خاتون کی کال آئی، تو عاشق نے ’’اَٹینڈ‘‘کی اور جب دوسری مرتبہ اُس کو فون پر محبوب کا نام سننے کو ملا، تو محترمہ کو بہت غصہ آیا۔ شائدوہ اسے اپنے ساتھ مذاق سمجھ بیٹھی کہ یہ کیا کبھی عاشق اور کبھی محبوب اور وہ بھی صرف ٹیلی فون پر!
یادوں کو مزید کریدنا ہم نے بہتر نہ سمجھا کہ
جلا ہے جسم جہاں دِل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے!
محبوب کے ساتھ پرانی یادیں تازہ کرنے کے لیے موٹرسائیکل پر بیٹھ کر صدر میں مشہور سٹوڈنٹس بریانی میں ’’بریانی‘‘ کھانے کے بعد اگلے تین دنوں کے لیے ایک دوسرے سے رخصت لی۔
صبح 7:30 بجے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (SIUT) کی گاڑی ہمیں ہوٹل سے کانفرنس ہال پہنچانے کے لیے آئی۔
صبح سے شام دیر تک چلنے والے پُرتھکن سیشن میں کافی سارے نئے چہرے دیکھے اور کئی ایک پرانے بھی۔ایک خاتون تقریباً 70 سال کی عمر کی دور سے نظر آئی، تو اُن پر نظر ذرا دیر کواٹک گئی۔
ارے! یہ تو پروفیسر تشمیم ہیں۔ مائیکرو بیالوجی کی پروفیسر۔ قریب گیا، سلام کیا، توانہوں نے فوراًپوچھا: ’’ارے تم کیسے ؟‘‘
’’میڈم!پہچاناآپ نے؟‘‘
’’ہاں، تبھی تو پوچھ رہی ہوں کہ تم یہاں کیسے؟‘‘
میڈم کی عمر میں تو اضافہ ضرور ہوا تھا لیکن یادداشت سلامت تھی۔ اس میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔
اُن سے ملتے ہی ہمیں اپنے مر حوم استاد پروفیسرظفر زیدی صاحب یادآئے۔جب دونوں کافی یاچائے کی پیالی پر کافی لمبے لمبے سائنٹفک تبصرے کرتے تھے۔اور اکثر اوقات کافی کی اس محفل میں پروفیسر عطاالرحمان صاحب بھی شرکت فرماتے ۔
میڈم سے ملاقات کے علاوہ کافی سارے نئے ملنے والے خواتین و حضرات بھی دوسرے، تیسرے سیشن میں ایک عرصے کے جانے پہچانے لگنے لگے۔
اُسی شام ہوٹل میں سمندر کے پانیو ں کے قریب والے حصے میں ٹہلتے ہوئے لاہور کے Institute of Nuclear Medicine and Oncology, Lahore (INMOL) کے ڈاکٹر حامد کے ساتھ کافی دیر تک پُرتکلف گفتگو کا سلسلہ بے تکلفی کے پُرلطف انداز میں آگے بڑھتا گیا۔ رات کے کھانے کے دوران میں شہنشائے غزل مہدی حسن (مرحوم) کی ہر دل عزیز غزلیں سنتے رہے اور نہ جانے کن خیالوں میں گُم خاموشی سے سر گوشی کرتے رہے۔
ہم نے آج یہ اٹل فیصلہ کر لیا تھا کہ جب تک غزل گو صاحب بس نہیں کریں گے، ہم اُن کی آواز سے محظوظ ہوتے رہیں گے۔ اور پھر شاید ہمارا اُٹھ کر چلنا محفل کے آداب کے بر عکس تصور کیا جاسکتا تھا۔ لہٰذا جب آخرِکار وہ تھک چکے، ہمارے چہروں سے تو ہم بھی اپنے اپنے کمروں کو چل دیے اس عزم کے ساتھ کہ کل پھر ملنا تھا۔
وہ صبح بھی شام ہوئی اور یہ سفر تمام ہوا۔ کراچی کے اس شہر میں اپنی خوبصورت یادوں کو سمیٹ کر واپس چلنا تو تھا ہی، سو ہم بھی واپس آگئے اس شہر میں امن کی تمنا لے کر۔ کراچی کا وہ شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا، اُس میں اب روزانہ کتنے گھروں کے چراغ گُل ہوتے ہیں۔ پَر وہ کیا ہے کہ اس شہر کا مزاج بھی عجیب ہے، یہاں کی مصروف زندگی نے خود اس سے اپنا سکون چھینا ہے کہ بقولِ شاعر
کبھی موقع ملا تو اپنے بارے میں بھی سوچیں گے

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں