ایس ایم نعیمکالم

مینگورہ کا جغرافیہ

مینگورہ ضلع سوات کا مرکزی اور فی الحال اکلوتا شہر ہے۔ یہ کب اور کیسے بنا؟ اس سوال کا مناسب جواب یہی ہوسکتا ہے کہ جیسے شہر بنتے ہیں، لوگ جمع ہوتے جاتے ہیں اور شہر آباد ہو جاتے ہیں۔ اس شہر کو تینوں اطراف سے پہاڑوں نے اور ایک طرف سے دریائے سوات نے گھیر رکھا ہے۔ یہاں کا منظر رات کے وقت یوں لگتا ہے جیسے سامنے کی پہاڑی کے دامن میں ستارے ہوں۔ آبادی کازیادہ تر حصّہ پہاڑی پر واقع ہے۔
اکثر شہروں میں چوراہے ہوتے ہیں، لیکن یہاں سہ راہے ہیں۔ مشہور سہ راہوں میں سہراب خان چوک، گلشن چوک، نشاط چوک، گرین چوک((Grain chowk، تاج چوک اور حاجی بابا چوک ہیں۔
سہراب خان چوک کا نام ملک سہراب خان کی وجہ سے ہے جب کہ گلشن چوک اپنے وقت کے مشہور گلشن کیفی اور نشاط چوک نشاط کیفی کے وجود سے مشہور ہیں۔ حاجی بابا چوک ایک بزرگ حاجی باباکے مزار کی طرف جانے والے راستے کی وجہ سے اس نام سے گردانا جاتا ہے۔ گرین چوک(Grain chowk) جو ایک زمانے میں غلّہ مارکیٹ تھا اب آہستہ آہستہ گرین (Green) گرین چوک بن گیا ہے۔ تاج چوک میں ایک مشہور ہوٹل ’’تاج ہوٹل‘‘ ہوا کرتا تھا۔ اب یہ اندازہ لگانا ذرا زیادہ مغز کھپائی کا کام ہے کہ کس کا نام کس وجہ سے پڑا؟ ہمیں بہرحال اس سے کوئی غرض نہیں کہ انڈا پہلے پیدا ہوا تھا یا مرغی؟
بزرگوں سے سنا ہے کہ ایک زمانے میں یہاں کی آب وہوا بہت صاف اور سڑکوں پر ٹریفک انتہائی سلیقے اور تمیز کا نمونہ پیش کرتی تھی، لیکن ہمارے مشاہدے کی بنا پر ہم ایسی سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ اب تو نہ یہاں کی ٹریفک میں سلیقہ ہے اور نہ تمیز۔ گاڑیوں، خصوصاً رکشوں، کا ایک بے ہنگم ریوڑ ہے جس میں سڑک پار کرنے والے پیدل اشراف یہی تمنا کرتے ہیں کہ کاش، سڑک کے اُس پار پیدا ہوئے ہوتے، تو سڑک پار کرنے کے لیے اتنا انتظار نہ کرتے۔
سیانے کہتے ہیں گاڑی اس لیے رکھی جاتی ہے کہ اس سے طویل مسافت جلدی طے کی جاتی ہے اور وقت کا ضیاع نہیں ہوتا۔ لیکن مینگورہ شہر میں گاڑی ہو، تو یہ قلیل مسافت کو وقت کی طوالت بخش دیتی ہے۔ اگر آپ روزے سے ہیں اور آپ کو کچھ اور کرنے کو نہیں ہے، تو دوپہر کو بازار کے ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک اپنی گاڑی لے جانے میں آپ آرام سے افطاری کے وقت پہنچ جائیں گے۔
سنا ہے کہ ایک زمانے میں یہاں تانگے چلتے تھے اور گھوڑے دوڑتے بھی تھے، لیکن اب تو اس میں سائیکل تک نہیں دوڑتی۔ ایک وقت ایسابھی تھا کہ یہاں سیاحوں کی کثرت سے آمد ہوتی تھی۔ اب سیاحوں نے شہر کے اندر آکر اگر گاڑیاں ہی دیکھنی ہیں، تو بھلا مینگورہ ہی کیوں؟ سبزہ تو شہر سے رفتہ رفتہ یوں غائب ہو تا گیا جیسے یہ سوات کا شہر نہیں بلکہ تھرپار کر کا کوئی بسا ہوا قصبہ ہو۔ ہم تو خود یہ جواب دینے سے قاصر ہیں کہ یہاں کے جنگلات کی کٹائی کے لیے کس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے؟ خود یہاں کے باشندے، ارباب اِختیار یا پھر اس شہر کی قسمت؟ کہ یہ تو پیدا ہی یتیم ہوا تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کا کوئی رکھوالا ہی نہیں۔
مینگورہ میں بہنے والی ندیاں، جو کسی زمانے میں صاف اور شفاف پانی لے کر دیکھنے والے کو یہ یقین دلاتیں کہ یہ پانی چشموں سے ہی نکلتا ہے، اب اس کو دیکھنے والا اس کے منبع کو چشمہ کیوں سمجھے؟راستے کی تمام اقسام کے نالے اس میں آمیزش جو کر چکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان دونوں ندیوں میں وافر مقدار میں سواتی مچھلی ہوا کرتی تھی لیکن بعد میں محکمۂ ماہی گیری والوں نے خاندانی منصوبہ بندی والوں سے دوستی کرلی اور یہاں کی دونوں ندیوں سے سواتی مچھلی کی نسل میں کمی کیا، نسل کشی ہی کرا ڈالی۔
خیر، اب شہر میں سیاحوں کی آمدورفت کو کم کرنے کے لیے اَپر سوات جانے والوں کے لیے ایک بائی پاس سڑک بنی ہے۔ لہٰذا اگر سوات آنے والے سیاح ٹھنڈے موسم، پاک ہوا اور شفاف پانی سمیت دیگر نظاروں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، تو شہر پہنچنے سے پہلے ہی شہر سے پہلو تہی کرلیں۔
مینگورہ شہر کی آبادی میں طولاً و عرضاً تو اضافہ ہو ہی رہا ہے، ساتھ ساتھ عمودی سمتوں بھی نہ صرف کئی منزلہ عمارتیں بننی شروع ہوئی ہیں بلکہ پہاڑوں پر بھی آبادی عمودی سمت میں تیزی سے اوپرکی طرف بہ زوروشور رواں دواں ہے۔ مینگورہ سے دریائے سوات کے کنارے جانے والی سڑک شہر سے باہر فضاگٹ کی خوبصورت پہاڑی کے راستے سے گزرتی ہے۔ جب کہ دوسری جانب دریائے سوات پورے جاہ و جلال کے ساتھ اپنا نظارہ دکھاتا ہے۔ شہر سے اس طرف نکلتے ہی زمرد کی کان ہے۔ ایک زمانے میں یہ شہر سے باہر تھی جو نہ تو اب شہر سے باہر ہے اور نہ شائد وہاں زمرد ہے۔ بڑوں سے سُناہے کہ سوات میں زمرد نہ صرف وافر مقدار میں پایا جاتا تھا، بلکہ نہایت قیمتی، حسیں اور شفاف بھی ہوا کرتا تھا۔ اب زمرد کی ویسی شفافیت کی گواہی دینے والے تقریباً نا پید ہیں۔
جنوب مشرق کی جانب یہ شہر اپنی بانہیں پھیلاتا ہوا، ریاستِ سوات کے دارالخلافہ سیدو شریف کو گود لے چکا ہے۔ اب اس کا صحیح اندازہ محکمۂ پولیس کو ہے کہ کہاں تک کس کی کتنی حد ہے؟ ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ مینگورہ شہر میں جوتے پالش کرنے والوں کا کاروبار تھاہی نہیں، گرد نامی چیز کا یہاں داخلہ ہی نہ تھا، لیکن بعد میں کچھ اپنے کاروبار کو دوام بخشنے کی خاطر پالش بنانے والوں نے یہاں کی ہوا میں بھی گرد کی آمیزش کی ایسی سازش کی کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اگلے پانچ سالوں میں یہ روایت بنے گی کہ صبح کے پالش کیے ہوئے جوتوں کے ساتھ دفترنکلنے والے حضرات دفتر کے گیٹ پر پڑے دوسرے جوتے پہن کے اندرجائیں گے یا پھر یہ کہ ہر ادارے میں کئی اسامیاں باقاعدہ پالش کرنے والوں کی ہوں گی، جو صرف اور صرف جوتوں کے پالش کے کام ہی پر معمور ہوں گے۔
ایک دو دہائی پہلے مینگورہ میں پالش کے کاروبار والوں کے ساتھ ساتھ روم کولرز اور ائیر کنڈیشنرز کا کاروبار کرنے والے بھی زبوں حالی کا شکار تھے۔ شاید ہی کسی نے اپنے نئے گھر میں صرف دِکھاوے کے لیے کمرے میں ائیر کنڈیشنر (Air Conditioner) کے لیے جگہ رکھی ہو، لیکن موسمی تغیر نے اس دِکھاوے سے ضرورت تک کا سفر بہت جلدی طے کروایا۔
یہ شہر جو اپنی آبادی کے لحاظ سے بہت ہی تیز رفتار واقع ہوا، اپنی اصلیت سے بہت دور بھاگا جا رہا ہے۔ نہ اب یہاں وہ موسم رہا، نہ وہ سڑکوں پر باسلیقہ ٹریفک۔ نہ یہاں کے پانیوں میں شفافیت اور نہ مچھلی۔ نہ پہاڑوں پر سبزہ اور نہ شام کو یہاں پر جمع ہونے والی ابابیلوں کی جھرمٹ۔
لگتا ہے اس شہر میں بسنے والوں کی بہتات ہے لیکن اس کو اپنا ماننے والوں کا فقدان۔ اب یہاں ایک ان سُنی سی صدا بلند ہوتی ہے کہ
’’ہے کوئی جو اِس یتیم کو گود لے!‘‘

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں