فضل رازق شہابکالم

افواجِ ریاستِ سوات کی تحلیل

آج کل آپ اخبارات میں روزانہ پڑھ رہے ہیں کہ دیر کے سابقہ سٹیٹ ملازمین دھرنا دے رہے ہیں۔ جلسے جلوس نکال رہے ہیں۔ کیوں کہ اُن کو اُن زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے جن پر وہ نسلوں سے قابض تھے اور اُنہی زمینوں کے عوض ریاستی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اب جب کہ ریاست ختم ہوئے نصف صدی گزر چکی ہے، تو قانونی طور پر اُن کو ان زمینوں سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ حکومتوں کی نا اہلی اور سیاسی مفاد کی وجہ سے یہ معاملہ طول پکڑتا گیا اور اب ہزاروں خاندانوں پر مشتمل ان لوگوں کا اور کوئی ذریعۂ معاش نہیں۔
اس مسئلے کی بنیادی وجوہات نوابانِ دیر کی انتظامی نا اہلی ہے کہ چار سو سال تک مکمل خود مختاری کے باوجود یہ کوئی ایک بھی ادارہ قائم نہ کرسکے۔ اخون الیاس کے بعد سے ان کی اول تو خانی قائم ہوئی تھی، اور 1901ء میں جب انگریزوں نے عمرا خان کو شکست دے کر سوات میں جلا وطن دیر کے ’’خان شریف خان‘‘ کو دیر لا کر اُسے نواب کاخطاب دے کر حکمران بنایا، تو اُس کو چاہیے تھا کہ اب ایک ریاست کے حکمران کی حیثیت سے مختلف اداروں کی داغ بیل ڈالتے اور بعد میں آنے والے نوابان اس کو مزید بہتر صورت میں قائم رکھتے، لیکن ان نوابوں کاکوئی وِژن نہیں تھا۔ بس ’’کام چلاؤ‘‘ والے لوگ تھے۔ ریاست کے مختلف خدمات انجام دینے والوں کو باقاعدہ تنخواہیں دینے کی بجائے زمینیں دے جاتی تھیں۔ اسی انتظامی نا اہلی کی وجہ سے آج پورے ضلع اپر اور لوئر دیر میں موجودہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی وقت ’’لا اینڈ آرڈر‘‘ کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ افہام و تفہیم سے یہ انسانی مسئلہ مزید کسی خرابی کے حل کرے۔
اس کے برعکس ریاستِ سوات کے ادغام کے نتیجے میں اس قسم کے مسائل اس لیے پیدا نہ ہوسکے کہ ریاست کے حکمرانوں نے اداروں کے قیام میں بے پناہ عقل ودانش کا مظاہرہ کیاتھا۔ اس لیے یہاں کے سرکاری ملازمین کی انٹگریشن میں کسی مسئلے کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ والی صاحب اور ولی عہد صاحب کے دفاتر کا عملہ ضلعی انتظامیہ کے دفاترمیں کھپ گیا۔ اسی طرح مشیر مال اور دیگر سول دفاتر کا عملہ بھی مناسب جگہوں پر تقرر پا گیا۔ ریاستی محکمۂ جنگلات اور تعمیرات کا عملہ صوبائی محکمۂ جنگلات اورمحکمہ ’’بی اینڈ آر‘‘ میں ضم ہوا۔ سب سے پیچیدہ مسئلہ ریاستی فوج اور نیم مسلح تنظیمات کا ادغام یا تحلیل تھا، مگر یہ کام بھی ریاستی افسران اور ان کے معاون عملہ کی معاملہ فہمی، تدبر اور پاکستانی افسروں کی ذہانت کی وجہ سے بڑی آسانی کے ساتھ ہزاروں افراد پرمشتمل فوج کی تحلیل ممکن ہوئی۔
اس سلسلے میں ریاست کی طرف سے سید جہان خان آف کانا کے بہ حیثیت نائب سالار، انتظامی اہلیت اور معاون کے طور پر فہم جان کپتان، محمد عظیم مرزا، حضرت روم مرزا اور دیگر سٹاف کی مدد سے بخوبی مکمل ہوا۔ ریاستی فوج کے بعض افسران تعلیمی اور تربیتی مہارت کی وجہ سے تو براہِ راست صوبائی محکموں میں چلے گئے۔ ان افسروں نے آفیسرز ٹریننگ سکول کوہاٹ (OTS) سے تربیت حاصل کی تھی۔ عمرا خان نائب سالار صاحب ’’ڈی او ایف سی‘‘ بن گئے۔ شجاع الملک خان، میاں سید لالہ، سرفراز خان اور حاجی نواب خان محکمۂ پولیس میں چلے گئے۔ دیگر رینکس میں کئی صوبیدار میجر اور صوبیدار، جمعدار وغیرہ بھی پولیس میں ضم ہوگئے۔ یہ لوگ بعد میں اپنی قابلیت کے بل بوتے پر مختلف پوسٹ سے ریٹائر ہوئے۔ ریاست کے محکمۂ پولیس کے تمام افسران پولیس ٹریننگ کالج سہالہ کے تربیت یافتہ تھے۔ یہ لوگ صوبائی محکمہ میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچ کر ریٹائرڈ ہوے۔ ہزاروں فوجیوں کو اس طرح تحلیل کیا گیا کہ اُن کو یہ آپشن دیا گیا کہ ان کے پاس موجود اسلحہ میں سے ایک مع لائسنس کے لے لیں اور 24 مہینوں کی تنخواہ بھی وصول کرکے ریٹائرڈ ہوجائیں۔
اکثر سپاہیوں کے ساتھ 303 کی رائفلیں تھیں، لیکن جو بڑے افسر تھے مثلاً صوبیدار میجر یا صوبیدار وغیرہ اُن کے پاس دو یا تین قسم کا اسلحہ ہوا کرتا تھا۔ مثلاً صوبیدار میجر کے ساتھ ایک عدد کاربائن، ایک عدد انگریزی یا سپین کی بنی ہوئی پستول اور ’’سورڈ‘‘ ہوا کرتے تھے۔ اکثر حضرات نے ’’کاربائین‘‘ کو ترجیح دی۔ یہ ہلکا، آٹومیٹک اور خوش نظر ہتھیار سب کا پسندیدہ تھا۔
یہ تمام کارروائی تقریباً تین مہینے میں مکمل ہوئی اور کوئی دس ہزار کے قریب مسلح اور نیم مسلح افراد پر مشتمل ’’فورس‘‘ کی تحلیل بخیر خوبی انجام پاگئی۔
جس صبر و تحمل سے سید جہان خان کی نگرانی میں فہم جان کپتان صاحب کے عملہ جو محمد عظیم مرزاصاحب اور میاں حضرت روم پرمشتمل تھا، ان کی شب و روز محنت اور اس کے علاوہ نہایت مستند ریکارڈ کی موجودگی سے یہ مرحلہ طے ہوا، وہ قابل تحسین بھی ہے اور حیرت ناک بھی۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں