تصدیق اقبال بابوکالم

گلدستۂ ابدالی، تبصرہ تصدیق

وہ اردو کا اِک شعر ہے کہ
ہوگئی مجھ کو تیری یاد سے اک نسبتِ خاص
اب تو شاید ہی میسر کبھی تنہائی ہو
اس شعر میں ’’نسبتِ خاص‘‘ کی ترکیب سے ہمیں یاد آیا کہ ’’ابدالی سکول اینڈ کالج مٹہ، سوات‘‘ سے ہماری بھی کچھ ’’نسبتِ خاص‘‘ ہے۔ وہ اس طرح کہ 1993ء میں ’’حرا کیڈٹ‘‘ کے نام سے ’’پیر کلے‘‘ میں جو تعلیمی ادارہ کھلا اور بعد میں ’’ابدالی سکول‘‘، پھر ’’ابدالی کالج‘‘ اور اب ’’ابدالی سکول سسٹم‘‘ میں تبدیل ہوچکا ہے، اس میں ہمارے دیرینہ دوست صابر شاہ ایڈوکیٹ ہاسٹل وارڈن ہوا کرتے تھے۔ موصوف سے فٹ بال، پھر ایم اے اردو اور پھر دوستی کے حوالے سے اِک ’’نسبتِ خاص‘‘ رہی۔ ان کی مقناطیسی شخصیت ہمیں کبھی شیرپلم، تو کبھی پیر کلے کشاں کشاں کھینچ لاتی تھی۔ اُنہی کے توسط اختر علی خان جیسے شہد اور گھی کے گھڑے سے تعلق جڑا، جو ہمارے گڑ کی ڈلی دوست آفتاب حسین بٹ کے بھی دوست تھے۔ یہ تکون ہمیں احسان الحق حقانی تک بھی لے گئی۔ ان پارسا لوگوں کی ’’رباعی‘‘ میں، مَیں ’’مخمس‘‘ کے طور پر تو داخل نہ ہوسکا، لیکن دوستی کی اِک ’’نسبتِ خاص‘‘ ضرور رکھتا ہوں (شاید یہ میری خوش فہمی ہی ہو)۔
دوستی کا دعویٰ کیا، عاشقی سے کیا مطلب
مَیں تیرے فقیروں میں، مَیں تیرے غلاموں میں
’’خوش فہمی‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ ادارہ ہذا والوں نے آج تک ہمیں بلایا نہیں اور (انا کے خول میں مقید) ہم خود گئے نہیں۔ حالاں کہ عزیز الحق (انگلش) اور ساجد علی خان (اردو) بھی اس ادارے کے مہرے ہیں جن سے دوستی کی نسبت پرانی ہے۔ حقانی صاحب! خوش قسمت ہیں آپ، کہ آپ نے وہاں ’’اِک گھنٹا تو گزارا۔ رہے ہم! تو بقولِ منٹو ’’ہم لنڈورے ہی بھلے۔‘‘
اب آتے ہیں ’’گلدستۂ ابدالی‘‘ کی طرف، یہ اس کالج کا سالانہ علمی و ادبی مجلہ ہے، جو بہترین مواد، خوبصورت ملائم کاغذ اور دلکش گیٹ اَپ کی بنا پر جداگانہ انفرادیت رکھتا ہے۔ کسی بھی مجلے کے اعلیٰ معیار کے پیچھے اس کی ٹیم ہوتی ہے۔ ساجد ابوتلتان ہوں یا مکرمی عرفان، بخت منیر خان ہوں یا خورشید احمد خان، صابر شاہ ہوں یا عطاء اللہ سبھی اپنی اپنی جگہ مثبت کردار اداکرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ادبی و تحقیقی مشیروں میں دو (پروفیسر محمد امین اور پروفیسر نورالاحد) میرے سسرالی ہیں جب کہ پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم اور ماہر مضمون پیرزادہ پیر میرے دوست۔ گویا ’’گلدستۂ ابدالی‘‘ اک حوالے سے میرے دوستوں کا بھی گلدستہ ہے۔
کالج ہذا کے ڈائریکٹر اختر علی خان کا کہنا ہے کہ ’’مٹہ، مینگورہ اور بونیر کی ابدالی شاخوں میں قریباً ساڑھے تین ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ جب کہ ڈھائی سو اساتذہ اور اسی تناسب سے درجۂ چہارم کے ملازمین روزگار سے وابستہ ہیں۔
ادارہ ہذا کی ویلفیئر شاخ سیکڑوں طلبہ و طالبات کو فیس معافی کے علاوہ مفت کتب، یونیفارم اور جیب خرچ بھی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2009ء میں اس ادارے کے عماد اللہ خان اور 2013ء میں عطاء الرحمان نے سوات بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی، جب کہ ’’ٹاپ ٹوینٹی‘‘ میں تو ہر سال شمولیت رہتی ہے۔
2018ء کا ’’گلدستۂ ابدالی‘‘ میرے ہاتھوں میں ہے، جس میں پی ایچ ڈی سکالر محمد شیر علی خان (جنہوں نے ایلم جریدے پر ایم فل کا مقالہ لکھا) نے ’’گلدستۂ ابدالی‘‘ پہ اپنے تاثرات میں لکھا ہے کہ ’’زیادہ تر کالج کے لڑکوں کی ناپختہ تحریریں ہوتی ہیں، لیکن یہاں یہ تاثر قطعاً غلط ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’میں خوش ہوں کہ ایک مضافاتی علاقے کے ایک تعلیمی ادارے سے اچھے معیار کا رسالہ شائع ہو رہا ہے۔‘‘ محبی احسان الحق حقانی نے لکھا ہے کہ ’’ نجی تعلیمی ادارے ملک کے بیمار اور بوسیدہ نظام کے لیے طاقت کی ایک مؤثر دوا ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’جب ہر گلی، محلے میں سگریٹ اور نسوار کی دکانیں کھل سکتی ہیں، تو سکول کیوں نہیں؟ مجھے آنے والے وقتوں میں یہ چھوٹے چھوٹے ادارے بڑی بڑی یونیورسٹیاں بنتے نظر آ رہے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں ایسے معیاری پرچے اور مجلے طلبہ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جلا بخشنے، ان کا شوق پورا کرنے اور اُن کی جھجک دور کرنے کا مؤجب بنتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مَیں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اخبار میں بچوں کے صفحے کی تحریریں پڑھ کر جذبہ بیدار ہوا کہ ان سے تو مَیں اچھی تحریر لکھ سکتا ہوں۔ جھٹ سے ایک کہانی لکھی اور بذریعہ ڈاک بھیج دی۔ ہر ہفتے اخبار چھان مارتا لیکن کہانی نہ چھپی، جس کا مجھے آج تک افسوس ہے۔ خوش قسمت ہیں آج کے بچے جنہیں زمانۂ طالب علمی ہی میں لکھنے لکھانے کے مواقع مل رہے ہیں، جو ہم نصابی سرگرمیوں کا اِک خاص حصہ ہیں۔
’’گلدستۂ ابدالی‘‘ کے موجودہ شمارے کی تمام تحریریں ہی لاجواب ہیں لیکن ’’ٹھیکرے‘‘، ’’انتخاب بذریعۂ قرعہ اندازی‘‘ اور ’’ہائے ! تخت رواں کا تختہ ہوگیا‘‘ اچھی تحریریں ہیں۔ پرنسپل بخت منیر خان کی تحریر کا لب لباب اس شعر کے گرد گھومتا ہے:
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ مت جانا
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
جب کہ طلبہ کی تحریروں میں عبداللہ بیاکندی کی تحریر ’’گجر قوم میں شادی و غمی کی رسومات‘‘ نعیم اللہ کی تحریر ’’گدھے اور گدھوں کے مالک‘‘ اور اختر حسین کی ’’ڈاکٹر شفیق سے ملاقات‘‘ خاصے کی تحاریر ہیں۔ اس کے علاوہ بشریٰ، عدنان، نعمان اور عرفان کی تحریریں بھی قابل ستائش ہیں۔
نیز انعامات اور سیر سپاٹے کی یادگاری تصاویر اس پہ مستزاد ہیں۔ طوالت کے خوف سے میں نے پشتو اور انگریزی کے حصوں سے صرفِ نظر کیا ہے۔
اس مجلے میں غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صرف پروف ریڈنگ کی چند ایک غلطیوں سے احتراز کرنا ہوگا۔ ’’مثلاً امجد علی سحابؔ کو ’’صحاب‘‘ نہ لکھیں اور اپنے ٹھیک ٹھاک مذکر ’’گلدستۂ ابدالی‘‘ کو زبردستی یا دھکے سے مؤنث نہ بنائیں جیسا کہ پروفیسر نبی شاہ صاحب کی تحریر میں کیا گیا ہے۔
وہ توجہ دے نہ دے لیکن صدا دیتے رہو
اپنے ہونے کا اُسے روحیؔ پتا دیتے رہو

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں