ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

ملکی ترقی اور اپوزیشن کا کردار

ملکی اور قومی خدمت کے سلسلے میں اپوزیشن اور حکومت نے ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی پر مبنی خدمت کو اپنی ذات اور انا کا مسئلہ بنا کر میدان جنگ گرم کر دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب عوام نے آپ پر اپنا اعتماد کم کر کے بر خلاف فیصلہ دیا ہے، اور شاید آپ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے الیکشن میں اچھی پوزیشن نہیں آئی، تو چاہیے تھا کہ آپ ملک دشمنی پر نہ اترتے اور قوم و ملک کی برابر خدمت جاری رکھتے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست، ذات اور انا کی جنگ نہیں۔ سیاست سے قوموں کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس لحاظ سے اپوزیشن کا کردار انتہائی گھناؤنا اور ملک سے دشمنی کرنے کے مترادف ہے۔ ایک طرف حکومت کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کر کے اپوزیشن، حکومت کو زچ کرنے کا پروگرام بناتی ہے، تو دوسری طرف اس سارے عمل سے سیاسی فائدہ بھی لینا چاہتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ کسی طرح اقتدار کی رسہ کشی میں اپنا حصہ لے سکے۔ عوام کو گمراہ کرنے کے طریقے اپنا کر صرف اقتدار اور کرسی کی سیاست کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ بے بنیاد پروپیگنڈا سے اپنے سیاسی ورکرز کے ذریعے سیاسی ماحول کو خراب کرنے کا عمل جاری ہے۔ اپوزیشن کوئی ایک موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتی بلکہ انتظار ہوتا ہے کہ کسی وزیر یا ہم خیال حکومتی رہنما سے غلطی ہو اور اس کو پکڑ کر واویلا کیا جائے۔
پبلک اکاؤنٹ کمیٹی (پی اے سی) کے واقعات آپ سب کی نظروں کے سامنے ہیں۔ ایک طرف شہباز شریف نیب کی عدالت کو مطلوب ہیں، تو دوسری طرف چیئرمین بن کر عدالت کے اہلکاروں کو سامنے لاتے ہیں اور ان کی ایک قسم بے عزتی کی جاتی ہے۔’’میکاولی سیاست‘‘ میں یہ سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ مذہب کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جائے۔ سچ کو جھوٹ کے پردے میں رکھا جائے اور بے بنیاد، فرضی اور خود ساختہ طور پر اپنے ارادوں کو چھپایا جائے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ آئین و قانون کی کوئی حیثیت ہے اور نہ مذہب اور دین کی کوئی وقعت۔ دراصل کرسی، پاؤر پالیٹکس اور پرسنالٹی کی اس کالی سیاست میں یہ سب کچھ جائز مانا جاتا ہے۔ سیاست ملکی ہو یا بیرونی، اس سے فائدہ لینا ہی اصل مقصد ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے اور چاہے کوئی جس طرح بھی سمجھے، اس کا ایک ہی ہدف ہوتا ہے اور وہ ہے دوسروں پر بلا وجہ کیچڑ اچھالنا۔ اس طرح کے سیاستدان اپنے اہداف، ترجیحات اور مفادات کو قانون کے دائرہ میں تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ سیاست کا کاروبار کتنا گھناؤنا ہو گیا ہے۔ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دوست اور دشمن کی پہچان صرف مفادات کی حد تک کی جاتی ہے۔ اس میں دشمنی اور دوستی کا کچھ پیمانہ نہیں ہوتا، جو اپنی ذات کے لیے جتنا فائدہ مند یا نقصان دہ ہوتا ہے، وہ اتنا ہی دوست یا دشمن ہوتا ہے۔
سیاست تو خدمت ہے اور اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کا ذریعہ بھی، جس سے دونوں جہانوں میں کامیاب ہوا جاسکتا ہے۔ معاشرے کے جملہ مسائل، سیاست اور سیاسی اداروں کی بہترین تنظیم کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔ سیاست ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اس میں رتی بھر غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی، مگر کوئی کچھ بھی کہے ان سیاست دانوں کو سمجھ نہیں آنے والی۔ مروجہ سیاست پر یہ نام نہاد سیاست دان اپنا حق جتاتے ہیں اور پشت در پشت سیاست کو اپنا حق مانتے ہیں۔ غریب اور مالدار میں امتیاز برتا جاتا ہے۔ مروجہ سیاست میں غریب کا کچھ حصہ نہیں۔ کیوں کہ غریب کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ الیکشن اور دیگر امور میں حصہ لے سکے۔ خواتین کی نمائندگی برائے نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان نام نہاد سیاست دانوں کا سکہ چلتا ہے اور ایک طرح سے ان لوگوں کا بھرم اب تک قائم بھی ہے۔ جھوٹ، فریب، دغا بازی، توتا چشمی اور وفا داری بدلنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ہماری ملکی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اپوزیشن کا منفی کردار بھی رہی ہے۔ کبھی یہ سیاست قوم پرستی، کبھی مذہب، کبھی سیکولر ازم اور لبرل ازم کے نام پر کرتے ہیں، تو کبھی حب الوطنی کے نام پر۔ واضح اور سادہ سی بات یہ ہے کہ آج کسی ایک حکمران پارٹی کے گن گائے، تو کل کسی دوسری حکومتی پارٹی کے گن گائے جاتے ہیں۔ مطلب کسی طرح بھی اقتدار سے چمٹنا ان کا شیوہ ہے۔ آزادی سے لے کر آج تک یہی چہرے ہیں، جو بدلتے چلے آرہے ہیں۔ زمین دار، سرمایہ دار اور جاگیر دار کے ساتھ سیاست ہی وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مفادات کا قانونی طریقے سے تحفظ کرنے اور اپنی سکیورٹی کو محفوظ بناتے ہیں۔ ان کی غرض جمہوریت سے ہوتی ہے اور نہ مطلق العنانی سے بلکہ جہاں ان کا فائدہ ہوگا، وہاں یہ بیٹھ جائیں گے۔
ایک دوسرا آپشن بھی یہ استعمال کرتے ہیں، اگر ان کے معاملات حکومتی پارٹی سے ٹھیک نہیں ہوتے، تو یہ آل پارٹیز کے نام پر اکا کر لیتے ہیں۔ حکومتوں کو گرانے کی پلاننگ کرتے ہیں۔ منفی اور جھوٹے پروپیگنڈے کرتے ہیں۔ ان موروثی سیاست دانوں کی وجہ سے غریب کا الیکشن اور سیاست میں حصہ لینا، تو ان کو اوران کی جیسی سوچ رکھنے والے لوگوں کو مذاق ہی لگتا ہے۔ کیسی ہوگی وہ ترقی جس میں نوجوان تعلیم یافتہ نہ ہوں، خواتین، مزدور کسانوں کو الیکشن اور ملکی ترقی میں ہاتھ بٹانے کی اجازت نہ ہو۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ کیوں کہ پہلے سے یہ مذکورہ نام نہاد پارٹیاں موروثی حکمرانوں کے قبضے میں ہیں۔ قانون بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ عدالتوں اور دیگر اداروں کو مٹھی میں بند رکھنے کا گر ان کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے۔ تقریباً ہر جگہ ان کے آلہ کار بیٹھے ہوتے ہیں۔ سارا سسٹم ہی یر غمال بنا ہوا ہے۔ اس لیے اپنے حق کے حصول کے لیے تعلیم یافتہ نوجوانوں، بزرگوں، خواتین اور مزدور کسان کی ایک انقلابی تحریک درکار ہے، جو آئینی و قانونی جنگ لڑ سکے، جو اپنا حق چھین سکے اور سیاست میں اپنا فعال کردار ادا کرتے ہوئے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے ۔ تاہم ان پارٹیوں جن کی جڑیں بہت مضبوط ہیں، ا ن کو راستے سے ہٹانا کچھ آسان کام نہیں۔ دراصل یہ اشرافیہ ہے جو ملک کا اصل ٹھیکیدار، سیم و زر پر حقِ ملکیت جتانے والا طبقہ ہے اور جو کبھی ایک بھیس اور کبھی دوسرے میں سامنے آتا رہتا ہے۔ کرپشن چھپانے کے لیے ان کو ہروقت این آر او کی ضرورت ہوتی ہے۔
سچ اور حق کی سیاست البتہ دوسری چیز ہے جس میں شفافیت، ایمان داری اور سچائی ہوتی ہے اور فیصلہ سازی عوامی مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں