روح الامین نایابکالم

محمد جمیل جمیلؔ کاچو خیل 

محمد جمیل جمیلؔ خان کاچو خیل ضلع ملاکنڈ کے ایک تاریخی، علمی اور روحانی گاؤں اَلہ ڈھنڈ ڈیری میں ایک تاریخی شخصیت محمد کریم خان (جسے اَلہ ڈھنڈ خان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا) کے گھر 1965ء میں پیدا ہوئے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ خان محمد کریم خان ’’رانیزو‘‘ اور ’’الہ ڈھنڈ‘‘ کے آخری خان تھے۔ اس کے بعد خانی کا سلسلہ ختم ہوا۔ محمد جمیل جمیلؔ کا شجرۂ نسب پشتونوں کے باوا آدم قیس عبدالرشید سے ملتا ہے۔
میرے کالم میں آج محمد جمیل جمیلؔ صاحب کا ذکرِ خیر اس لیے ہونے جا رہا ہے کہ وہ ایک عام انسان نہیں، بلکہ ایک شاعر، نثر نگار، افسانہ نویس، اور مزاح نگاری کے ساتھ ساتھ مقالہ نویس بھی ہیں۔ جمیلؔ صاحب نے 1992ء میں اردو میں ایم اے کیا ہوا ہے لیکن اس سے پہلے 1986ء میں انہوں نے شاعری کے دشت میں قدم رکھا۔ اس وقت پشتو شاعری کی کتاب ’’دوخت زہر‘‘ اور نثر میں افسانوں کی کتاب ’’سپین مخونہ تور زڑونہ‘‘ دونوں میرے سامنے پڑی ہیں۔ تحفتاً ارسال کرنے پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔
’’دوخت زہر‘‘ پشتو شاعری کا یہ مجموعہ 352 صفحات پر مشتمل ایک مجلد خوبصورت کتاب ہے۔ یہ کتاب سراسر غزلیات پر مشتمل ہے۔ ہاں، اس میں تھوڑے بہت قطعات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ بعض غزلیات خاصی لمبی ہیں۔ صفحہ نمبر 250 پر ایک لمبی تیرہ مصرعوں پر مشتمل موضوعی غزل ہے جو پختون قوم کی بے بسی اور لاچاری پر ایک اچھی اور موزوں کوشش ہے۔ کتاب میں نظم نہیں ہے۔ شاید جمیلؔ صاحب کا نظم کی طرف دھیان ہی نہ رہا۔
جمیلؔ صاحب کی شاعری میں روانی کے ساتھ ساتھ سادگی بھی ہے۔ اُس کی بیانیے میں کوئی مشکل اور فاوٹ نہیں ہے۔ اگر چہ شاعری میں مزاحمت کا رنگ تو نہیں، البتہ اصلاحانہ انداز کافی ہے۔ بعض جگہوں پر طنز بھی کیا گیا ہے۔
عام طور پر ہمارے شاعر حضرات کا مطالعہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ان کی علمی سطح نہایت کم ہوتی ہے۔ اس لیے اُن کی شاعری میں وہ وسعت اور کھلا پن نہیں ہوتا، جو ایک اچھی شاعری کی پہچان ہے، لیکن جمیل صاحب کی شاعری سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اچھا خاصا مطالعہ کیا ہے۔ کیوں کہ اُن کے کلام میں عالمانہ رنگ صاف نظر آ رہا ہے۔
جمیلؔ صاحب کی شاعری میں غمِ جاناں کے ساتھ غمِ دوراں بھی ہے۔ انہوں نے ظلم، بے انصافی، جبر اور بد عنوانی کے خلاف بیانیے میں اپنی شاعری میں خاصی جگہ دی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں الفاظ نہایت برمحل استعمال کیے ہیں۔ ردیف اور قافیوں کا استعمال بھی معیاری ہے۔ غرض جمیلؔ صاحب نے اپنے احساسات اور جذبات کو قلم کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کیا ہے اور ان سے داد سمیٹنے میں کامیاب رہے ہیں۔ عشق و محبت کے راستے کچھ ایسے آسان نہیں۔ اس لیے جمیلؔ صاحب بھی فرماتے ہیں۔
مینہ خراج غواڑی سرونو د نیزو پہ سوکو
لاری د عشق دی عاشقانو د چڑو پہ سوکو
جمیلؔ صاحب انسانی رشتوں کو سب سے زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ وہ اپنا غم نہیں بلکہ سارے عالم کا غم روتے ہیں، ملاحظہ کریں:
دا ہسی نہ چی د خپل زان غم دے
زما پہ زڑہ کے د جہان غم دے
کہ عیسائی وی، سکھ، ہندو، مسلمان
زما ضمیر کے دَ انسان غم دے
پختون کے کردار کے بارے میں گلہ بھی ہے، محبت بھی ہے اور حقیقت بھی بیان کی گئی ہے۔ ذرا ملاحظہ کریں، کیا کمال کی شاعری ہے:
زہ یم خوشحالہ پہ دی رقیب می ہم پختون دے
دخمن می ہم پختون دے حبیب می ہم پختون دے
سزا د غیرو دہ خو زما قسمت تہ گورئی
جلاد می ہم پختون دے صلیب می ہم پختون دے
محمد جمیل جمیلؔ صاحب نے ابھی تک چھے عدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ چار عدد پشتو زبان میں اور دو کتابیں اردو میں شائع ہوچکی ہیں۔ اردو کی دو کتابیں نثر میں (افسانے) ہیں جب کہ چار عدد پشتو کتابوں میں دو شاعری کی اور دو نثری (افسانے) ہیں۔ پشتو کی ایک نثری کتاب ’’سپین مخونہ تور زڑونہ‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے۔
188 صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت مجلد کتاب ہے، جس میں 18 عدد دلچسپ موضوعاتی علامتی اور غیر علاقی افسانے ہیں۔ کچھ افسانے مختصر مگر با مقصد ہیں، جب کہ ’’سوشل ورکر‘‘، ’’زوڑپکے‘‘ اور ’’بدنام شہید‘‘ لمبے افسانے ہیں۔ افسانوں میں انسانی رویوں پر بحث کی گئی ہے۔ سفید چہروں کے پیچھے سیاہ دلوں کی فریب کاریوں پر مبنی مختصر افسانوں میں بڑے لوگوں کے دوغلے پن، رشتوں کی بیگانگی، موقع پرستی اور مفاد پرستی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ نیکی اور تقدس کے لباس میں بٹے ہوئے معاشرے کو ننگا کیا گیا ہے۔ پختون معاشرے میں غلط رسوم رواج کی نشان دہی کی گئی ہے۔ وہ رسوم و رواج جن کے آگے فرد مجبورِ محض ہے، وہ کچھ چاہتے ہوئے بھی بے بس اور لاچار ہے۔ ان افسانوں میں ہماری روز مرہ زندگی کی ایسی خامیوں اور کمزوریوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو بہ ظاہر تو معمولی نظر آتی ہیں، لیکن وہ پسِ پردہ بہت بڑے المیوں کو جنم دے دیتی ہیں۔ ایسے المیے جو بہت زیادہ خطرناک نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔
’’احتجاج‘‘ میں ایک ایسے احتجاج کا ذکر ہے جو مزدوروں، خواتین کے حقوق کے لیے کیا جا رہا ہے لیکن احتجاج میں روڈ بند ہونے سے غریب مزدور دوبئی نہیں پہنچ پاتا، تو دوسری جانب سڑک کے اوپر گاڑی میں ایک عورت بچہ جنم دے کر خود مرجاتی ہے۔ کیوں کہ احتجاج کی وجہ سے وہ بروقت ہسپتال نہیں پہنچ پاتی۔ ’’زوڑ پکے‘‘ بنیادی طور پر ماضی پرستی کا افسانہ ہے، جس میں احمد بابا کو جو گھرانے کا سربراہ تھا، نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ احمد بابا جو کبھی احمد خان تھا جس نے سخت محنت مشقت کرکے اپنی اولاد کے لیے تمام سہولیات مہیا کی تھیں، لیکن اب احمد بابا کے احساسات اور جذبات کا خون ہو رہا تھا۔ اُسے گھر اور خاندان سے دور ’’سروینٹ کوارٹر‘‘ میں رکھا گیا تھا۔ جہاں اُس کی مرحوم بیوی کے ہاتھوں کا پرانا پنکھا اُس کی ماضی کی حسین یادوں کا واحد سہارا تھا۔ لیکن پرانے پنکھے کے شور سے اُس کے بیٹوں کے آرام میں خلل پڑرہا تھا۔ اس طرح ’’میراثہ‘‘ افسانہ میں پختون روایات کے مطابق نرینہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے میراث عورتوں سے چھین کر میراث خوروں کو دی جاتی ہے، لیکن ایک نوجوان بہادر ’’بہو‘‘ جو بے وقت بیوہ ہوگئی، اپنے سسر کے لیے دلہن بیاہ کر لائی اور دو بیٹوں کی پیدائش پر میراث خوروں کے ظلم و ستم سے بچ گئی۔ گل مینے کی بہادری اور جرأت نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ افسانہ منافق میں لمبی سفید داڑھی، لمبی تسبیح، خوشبودار مقدس لباس اور چہرے کے پیچھے منافقت کا مکروہ چہرہ دکھایا گیا ہے۔ ’’گناہ‘‘ افسانہ میں جب خہ نصیبہ کا شوہر شادی کے بیسویں دن مرجاتا ہے، تو اُسے زبردستی گونگے معذور دیور کے حوالے کیا جاتا ہے اور اس کا نکاح زبردستی پڑھایا جاتا ہے، لیکن خہ نصیبہ اسے قسمت کی ستم ظریفی مان کر خاموش بیٹھتی ہے۔ وہ گاؤں کے ایک خوبصورت اور مضبوط لڑکے سے تعلقات استوار کرکے گھر سے بھاگ جاتی ہے، لیکن وہ لڑکا کوئی اور نہیں اُسی مولوی کا بیٹا شمشاد ہوتا ہے جس نے خہ نصیبہ کا زبردستی نکاح پڑھوایا ہوتا ہے۔ ’’گناہ پسے گناہ‘‘ میں ساس بہو کے روایاتی جھگڑے کا ذکر ہے۔ ایک فرماں بردار بیٹے کی مجبوری کے عالم میں کیا احساسات ہوتے ہیں؟ افسانہ پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جمیلؔ صاحب اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں۔ میری دعا ہے کہ اس کا زور قلم اور زیادہ ہو۔ میں دونوں کتابوں پر انہیں دلی مبارک باد دیتا ہوں اور تحفتاً ملنے پر جمیل صاحب اور فضل حمید دونوں کا شکر گزار ہوں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں