Miscفضل مولا زاہد

ایک اور حالہ دئی

فوری طور پر دریا ئے سوات کے دَر پر واقع ایک حسین و جمیل وادی کے دیدار کا موقع ہے۔ لگے بندھوں ایک مزار مبارک کی زیارت کا امکان ہے۔ اِس روضہ اور دریا کی بڑی دیر سے جاری یاری ودلداری کا پس منظر کیا ہے؟ جا کے دریافت کرنا ہے۔ کئی جگہوں پر”سٹاپ اُور“ کریں گے اور ان کے متعلق بات بھی کریں گے۔ ہاں، دو چار جی داردوستوں کی خیر خبر بھی لیں گے، خیر سے۔ تو کیا خیال ہے، چلیں! ہماری طرف سے تو سب کو ساتھ چلنے کی دعوت ہے۔ بس یوں جانا اور یوں آنا ہے۔ روانگی ہے سوات کی وادئی کوکارئی سے ”بوساق“ نامی بستی تک۔
صبح کے دس بجنے والے ہیں۔ دِن ہفتے کا اور تاریخ ہے 15 اپریل 2019ء۔ ہاں، 2019ء، وہ بھی ”آدھا اَدھ موا“ رہ گیا ہے۔ وقت تو پَر لگا کر اُڑ رہا ہے۔ عرصہ پہلے ہمیں جب گھروں سے بے دخل کر کے نکالا گیا، بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا گیا، کبھی ”آئی ڈی پی“ کا ٹھپا، کبھی مہمان کا خول چڑھایا گیا، اور اس دیس نکالے میں ہمیں جن مصائب و آلائم سے گذارا گیا، کسی کو وہ لمحات یاد ہیں کیا! اُن سانحات کو 11 سال بیت جائیں گے، اگلے مہینے۔ لگتا ہے کل پرسوں کی بات ہو۔
بارش کی ہلکی سی پھوار گاڑی کے شیشے پر پڑ رہی ہے۔صرف آج نہیں، یہ ”لانجہ“ تو فروری سے جاری ہے۔آسمان بادلوں کی ناجائز قید میں رہتا ہے۔ ناجائز اس لیے کہ اِن دنوں میں بادل و بارش نہیں بلکہ سورج کا سکہ چلتا ہے۔ اپریل کا مہینا گزرتے دیکھو، کہیں برف باری، کہیں اولے پڑنے کے کھیل تماشے دیکھو۔ یہی بے اعتدالیاں ہیں موسموں کی۔ سردی ہے کہ جبڑے اپنے قالب سے نکلنے کے درپے ہیں۔ دل کرتا ہے جرسی پھر سے پہنی جائے، لیکن اب تو بڑے قرینے سے اُجلا اِستری واسکٹ پہن کر گھر سے نکلے ہیں۔ اپنے چھوٹے بھائی اور قوم بھر میں ”کاکا“ کا خطاب خود سے منسوب کرنے والے ”ہز ایکسی لنسی“ رشید احمد خان اپنی داڑھی اور مونچھ میں خود انجمن ہیں۔ کاکا سفید سلام پوری چادر ایک خصوصی ذہنی کیفیت کے ساتھ کندھے پر لٹکاتے ہیں، جیسے یہ کندھا نہیں ”ہینگر“ ہو۔ اس سٹائل سے اگرچہ اپنا فکری اختلاف ہے، لیکن بات اپنی ناک تک رہے تو خیر رہے۔ کاکا، اپنی این سی پی گاڑی کا سلف مارتے ہیں، وائپر کا بٹن دباتے ہیں، ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہاتھ لمبا کرکے ہمارے لیے دروازہ کھولتے ہیں، ہم جیسے ”نشست افروز“ ہو جاتے ہیں، تو گاڑی ہولے ہولے حرکت شروع کردیتی ہے۔ پانچ بھائیوں میں ہم سب سے بڑے اور رشید احمد عرف کاکا، سب سے چھوٹے۔ وہ بھی چالیس کا ہند سہ عبور کر چکے ہیں اور خیر سے ”فارغ البال“ ہیں۔ زندگی گزارتے ہیں بڑے رنگ ڈھنگ کے ساتھ۔ ان کا کام ہے لوگوں کی غمی خوشی میں شرکت کرنا، تھانہ تحصیل اور ہسپتال کے امور نمٹانا، دوستوں سے ملنا جلنا، مہمان بننا یا بنانا، یہ ان کے محبوب مشغلے ہیں، میاں۔ اللہ کا دین ہے جس کو جیسے نوازے۔ یہ پیسہ گنتے ہیں، نہ جمع کرتے ہیں نہ سوچتے ہی ہیں۔ گاڑی ایسی چلاتے ہیں جیسے گھر کی لونڈی۔ کوکارئی ”سِٹی“ یعنی شہرسے چشمِ زدن میں نکلنی والی باتیں اب کہاں! اب تو بازار ہے، ٹریفک ہے، لوگوں کا بے قاعدہ ہجوم ہے اور والیِ سوات دور کی وہی پرانی سڑک۔ پاکستان کو تو خدا نے اتنی بھی توفیق نہیں دی کہ اور کچھ نہیں، تو پچھلے 50 سال میں اِس سڑک کو دو چار فٹ تو دراز کیا جاتا، کم از کم ایک لاکھ لوگ یا 20 ہزار گھرانے یہاں بستے ہیں۔ اِس گاؤں کو شہر کے نام پر ”اَپ گریڈ“ کرنے کا کام فوجیوں نے کیا، 2008ء میں بُرے دہشت گردوں کو، جب وہ یہاں سے بھگانے آئے یا ٹھکانے لگانے آئے، تو کوئی لگی لپٹی بغیر انہیں ”شہر“ سے بشارت دی۔ ٹھپا لگ گیا، تو گاؤں کا پیٹ یوں پھلا پھولا کہ بندہ حق دق ہوکر رہ جائے۔ پلازے اور مارکیٹ کیا، ٹرانسپورٹ کے اڈے اور ٹیکسیاں کیا، ہیلتھ اور سٹونٹس سٹریٹ اور پرائیویٹ سکولز کیا، کوچہ و بازار میں موج مستی کیا، بونیر اور سوات کے بیچ لوگوں کی آمد و رفت اور کلیل میں جمعہ ہفتہ اتوار کو ”مرغ مکاؤ سیاحوں“ اور ٹریفک کا ہجوم کیا، بری کوٹ اور چارباغ کے مشہور آئس کریم والے ڈیرے ڈال چکے۔ ”پراپرٹی ڈیلرز آ گئے میدان میں، ہے جمالو!“ اورزمینوں کی قیمتیں آسمان تک اونچی ہو گئیں۔ محکمہ میں اپنے لوگوں کی موجودگی اور انجینئرامیر مقام کی دلچسپی کی وجہ سے گیارہ بارہ سال تاخیر سے سہی، سوئی گیس کے پائپ اور میٹرز اب گھر گھر پہنچ گئے ہیں۔ کوہستان اور شانگلہ کے سیکڑوں خاندان آباد ہوئے ہیں یہاں۔ یہ بات بتانا تو بھول ہی گئے کہ پچھلے چھے سالوں میں یہاں کی 21 کلو میٹر سڑک پر کارپیٹنگ کا کام جتنی دِل داری اور متعدد افتتاحی تقریبات کے ساتھ شروع ہوا تھا، بہ فضلِ الٰہی تین چار کلومیٹر پر ”تارکول چھڑکاؤ ایڈونچر“ مکمل ہوچکا ہے، بلکہ اب تو وہ دوبارہ تارکول کا تقاضا کرنے کو ہے۔
سوال:۔ ایک کلومیٹر سڑک پر کارپیٹنگ کا کام مبلغ دو سال میں سر انجام پاتا ہے، تو 21 کلومیٹر پر کتنا عرصہ لگے گا؟
جواب:۔ بیالیس سال، (کناروں اور وَٹّوں یعنی پشتوں والا کام اِس عرصہ میں شامل نہیں۔)
مارے شرم کے نہ ڈوبنے والے، نہ رحلت کرنے والے حکم رانوں کے مالِ غنیمت میں اپنا یہ سودا کافی نہیں؟ بلکہ سستانہیں؟ اس کام کے لیے جتنا پیسا مخصوص تھا، سی اینڈ ڈبلیو کے غریب غربا، بے چارے ممبرانِ اسمبلی، ہمراہِ رشتہ دار و بہی خواہ، پارٹی کارکن اور ٹھیکیدارکا حصہ بہ قدرِ جثہ نکال کر، مالِ غنیمت سے جو کچھ بھی بچ جاتا ہے، ان فنڈز پر دو چار دن کے لیے سہی سڑک کی بگڑی شکل، خوش شکل لگنی لگے، توکیا بڑی بات نہیں؟ جیسے تیسے بازار اور آبادی سے نکلتے ہیں، سڑک کے دونوں اطراف آڑو اور آلوچہ کے باغات اور گندم کی ہری بھری کھیتیاں نظر آ جاتی ہیں۔ کنارے کنارے ناشپاتی کے قطار در قطار پودے ہیں، رنگ بہ رنگ پھول،سبزہ ہریالی اور خوشبوئیں ہیں۔ گاؤں دنگرام تو ناشپاتیوں کا گڑھ ہے۔ پورے سوات میں یہ واحد وادی ہے، جہاں آبپاش زمینوں پر اِس کے باغات بھی ہیں۔ کوکارئی، دنگرام، رشہ گٹہ، پانڑ اور حاجی بابا کے علاقے آپس میں جُڑ گئے ہیں۔ مینگورہ کی ٹریفک میں سے بخیرو عافیت گزرتے ہیں۔ شہر کے بازار اب بزرگوار ہو گئے ہیں۔ اس لیے سوگوار لگتے ہیں۔ کاروبار پر اس کی حکم رانی کے دِن گئے۔ پُرانے بازار کی وہ رونق اب کہاں، جب سیاحوں کے قافلے مین بازار اور کوچی مارکیٹ میں ٹہلتے ٹہلتے، ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ جاتے اور نفیس کوالٹی کے ایمپورٹیڈ کپڑے، کراکری، الیکٹرانکس، جیولری اور دیگر اشیا بڑے اعتماد اور مناسب قیمتوں پر، پُرسکون و پُرامن ماحول میں خریدتے، پھر بحرین کالام اور ملم جبہ ہو آتے، تو کیا شان تھی اِس وادی کی۔ اپنے کیا پرائے کیا، گورے کالے کیا، سُرخ و سپید کیا، ہر قسم کے لوگ یہاں آکر خوبصورت موسم اور محبت کے متوالے لوگوں کی یادیں ساتھ لے جاتے، کیا شان ہوتی ہوگی۔
امریکہ کے اخبارنیو یارک ٹائمز کے ایک صحافی 1950ء میں اس وادی کو ”بے چین دُنیا میں چین کا گہوارا“ کہتے ہیں، تو ویسے تو نہیں کہتے۔ ابنِ بطوطہ نے کسی اور علاقے کو کائنات کا خلاصہ کہا تھا، ہم نے اپنی ”اتھارٹی“ استعمال کی اور اِسے ”کائنات کے خلاصے“ کا لقب عطا کیا تھا۔ یہ ایک نیچرل لرننگ انسٹی ٹیوٹ ہوا کرتا تھا۔ کائنات کیا ہے؟ یہ دیکھنے اور سیکھنے کے لیے ملک بھر کے طلبہ و طالبات کے طائفے یہاں آتے۔ دُنیا بھر کے سیاح چلتے چلتے، چین و سکون ڈھونڈتے ڈھونڈتے، یہاں کے حسن و جمال میں پھنس جاتے۔ اگر ہم نے غلط سنا ہے، تو کوئی تصحیح کر لے کہ کوئی آٹھ درجن ایروناٹیکل مائلز کی وسعت رکھنے والی یہ تنگ سی، جھیل سی اور پہاڑیوں میں بٹی وادی در وادی اور گھاٹی در گھاٹی میں جتنا قدرتی تنوع ہوا کرتا تھا، موسموں کا، پودوں کا، پھلوں کا، سبزیوں اور ادویائی جڑی بوٹیوں کا، غرض تمام ذی روحوں کا، بھرپوردُنیا میں کہیں اور کہاں تھا، لیکن وہ ”ڈائیورسٹی“ وہ چاشنی وہ تنوع، خدا بخشے سب کچھ”مرحوم“ہو گیا ہے، اور خدا اُن ذلیلوں کو کبھی نہ بخشے، جنہوں نے اس کو دہشت گردی کا گڑھ بنایا، جنہوں نے اس چاشنی اور تنوع کو ”ریپ“ کیا۔ وہ ہمارے دُشمن ہیں، قدرت کے دُشمن ہیں، وہ خدا کے مجرم ہیں۔
اوہو! ہم ہمیشہ پھسل جاتے ہیں، اپنی بات سے۔ بات کو کہیں اور پھسلا دیتے ہیں، ہمیں خود میں بُڑھاپے کی صرف یہی ایک چھوٹی سی نشانی نظر آتی ہے، ورنہ ابھی تو ہم جوان ہیں۔ کہاں سے چلے اور کہاں تک چلے۔ اجازت ہو، تو ریمائنڈ نہ کر لیں! ہم بات کر رہے تھے یہاں کے حسین ماضی کی اور اُمید افزا مستقبل کی……!
اب جدت دیکھیں، توجی ٹی روڈ پر ”شان دار“ پلازے زیرِ تعمیر ہیں۔ شہر اب پھیل کر کارپوریٹ کلچر کی ڈکار یں مار رہا ہے۔ مشہور ریسٹورنٹس چینز، سکولز چینز، ملٹی نیشنلز، ہیلتھ کئیر سنٹرز اور نہ جانے اور کیا کیا تماشے جی ٹی روڈ کے دونوں کناروں پہ مستقبلِ قریب میں سجنے والے ہیں۔ یہ پلازوں والاسلسلہ امان کوٹ چوک سے شروع ہوتا ہے اور فی الوقت اوڈی گرام تک بلاروک ٹوک پھیلتا ہے۔ اب تو خوازہ خیلہ، مٹہ، کبل اور بری کوٹ کے بھی وارے نیارے ہیں۔ بائی پاس، فوڈ سٹریٹ تو کب کا بن گیا تھا، اب تو خیر سے وہاں جنرل سٹورز بھی چلنا شروع ہوئے ہیں۔ افضل شاہ باچا گواہ ہے۔ دریائے سوات کے آس پاس اور جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف میں تعمیراتی کام کا حشر نشر ہو رہا ہے۔ راتوں کو فلڈ لائیٹس میں، بسوں کے اڈوں، ریسٹورنٹس اور دریا کے آس پاس خلقِ خدا کی سرگرمیاں دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ وقت ہی بڑے اور سارے دُکھوں کا مدادا کرتا ہے۔
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالمِ نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
(جاری ہے)

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں