ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

مہنگائی کی لہر

مہنگائی کی لہررمضان المبارک کے مقدس مہینے میں گرانی کے طوفان نے اہلِ وطن کی چیخیں نکالنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ حکومت اگر چاہے بھی تو گرانی کے اس بحران پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دے گی۔ گرانی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس نئے بحران کا تذکرہ سابقہ وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر اعظم عمران خان با رہا کر چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت گرانی کے جن کو قابو کرنے میں کلی طور پر ناکام ہے۔
حالیہ پٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کا اثر باقی مصنوعات پر بھی پڑا ہے۔ دواؤں، خوردنی اشیا، انٹرنٹ، بجلی، ٹیلی فون اور موبائل کارڈ اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اس کے علاوہ ہے۔ سطحی طور پر اپوزیشن پارٹیاں حکومتی اقدامات کی مخالفت بھی کرتی دکھائی دیتی ہیں، لیکن کوئی معنی خیز احتجاج کہی بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اکا دکا کا یہاں سوال نہیں۔ میراخیال ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کو بھی حکومتی مشکلات کا اندازہ ہے۔ البتہ حکومت کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس میں ان پارٹیوں کا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔ کیوں کہ حکومتی پارٹی جب اپوزیشن میں تھی، تو ہر وقت حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے نشتر چلائے جاتے تھے۔ کبھی پٹرول عالمی منڈی میں چھیالیس روپے کا کہہ کر باقی پیسوں میں کرپشن کا رونا روتی اور اس کو حکومتی جیبوں میں جاتے دیکھتی تھی۔ تاہم اگر دل پر ہاتھ رکھ کر کہا جائے، تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان سابقہ حکومتوں نے ان کی قیمتوں میں کافی کمی کی تھی۔ اب یہی صورتحال موجودہ حکومت کو درپیش ہے، لیکن ماننا پڑے گا کہ حکومت پٹرول کی قیمت کو کم کرنے میں ناکام ہے۔ یہی قیمتیں آٹھ مہینوں میں تقریباً بیس سے پچیس روپے زیادہ ہوگئی ہیں۔ مالی خسارہ اور گردشی قرضہ کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو مجبوراًآئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق رابطہ کرنا پڑا ہے۔ حالاں کہ موجودہ حکومت کا دعویٰ اس کے بالکل بر عکس تھا۔ قطر، سعودی، دوبئی اور چین سے امداد ی قرضہ اتنا نہیں ملا، اس لیے حکومت دوبارہ آئی ایم ایف کی جھولی میں جا کر بیٹھ گئی۔ مَیں مانتا ہوں کہ امریکہ کے ”نومور“ کہنے کی وجہ سے پاکستان کا جھکاؤ لازمی طور پر علاقائی اسٹیک ہولڈرز کی طرف ہونا تھا۔امریکہ کو بھی احساس ہے کہ دہشت گردی اور سرد جنگ میں صفِ اول کا اتحادی ہاتھ سے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔اس لئے ”ڈو مور“ کی رٹ لگا کر ”نو مور“ پر آکر رُک ہی گیا۔
قارئین، ادارہ آئی ایم ایف دراصل امریکہ کا کاسہ لیس ہے اور جو وہ کہے گا، وہی حتمی حکم تصور ہوگا۔ پاکستان کو ہاتھ میں رکھنے کے لیے یہی ایک مجرب نسخہ امریکہ آزمارہا ہے۔اس لیے اعصاب کو مضبوط رکھتے ہوئے اب باری ہے مزید ٹیکسز کی، مزید گرانی کے عذاب کو سہنے کی، سٹیل مل اور دیگر صنعتوں کو پرائیوٹائز کرنے کی۔ جس سے اگر ایک طرف حکومت سمجھتی ہے کہ اس موجودہ بحران سے نمٹا جا سکے گا، تو دوسری طرف یہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ ملک کی معیشت سنبھل جائے گی۔ حالاں کہ ان حالات میں معیشت سنبھالنا بڑی حد تک ناممکنات میں سے ہے۔
قارئین، اس بات کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک طرف حکومت سالانہ تیس فیصد قرضہ جات کی واپسی کر رہی ہے، تو دوسری طرف ان قرضہ جات پر شرحِ سود اس کے علاوہ ہے۔ حکومت کو قرضہ کو ادا کرنے کے لیے لازمی طور پرمزید قرضہ ناگزیر طور پر لینا پڑتا ہے۔ اس کی وجوہات یہ ہیں کہ کاروبارِ حکومت کو چلانے کے لیے کوئی پیسا نہیں بچ پاتا۔ سرکاری نوکروں کی تنخواہوں کا خاطر خواہ انتظام موجود نہیں ہے۔ علاقائی طور پر پاکستان کا جغرافیہ ایسا واقع ہوا ہے کہ اس کو اپنی بقا کے لیے کثیر تعداد میں اسلحہ اوربھاری بھر کم فوج کی ضرورت رہتی ہے۔ اس لیے اس کے دفاعی اخراجات کو پورا کرنا مملکت کے بس کی بات نہیں ہے۔ تاہم اس کو ساتھ رکھنے اور اس کی استعدادی صلاحیت میں اضافے کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ کیوں کہ عالمی طاقتیں، انڈیا اور دیگر ممالک کسی طورپر پاکستان کو مستحکم دیکھنا نہیں چاہتیں۔ مَیں سمجھتا ہوں اور حکومت بنتے ہی میں نے بارہا حکومت کو کچھ مشورے بھی دیے ہیں، اس لیے ان کا اعادہ کرنااپنا فرض سمجھتاہوں۔ وہ مشورے کچھ یوں تھے کہ
٭ حکومت کو سنجیدگی سے اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے قومی حکومت کی داغ بیل ڈالنی چاہیے۔
٭ضرورت اس امر کی ہے کہ میثاقِ معیشت پر تمام سیاسی پارٹیاں سر جوڑ کر بیٹھ جائیں۔
٭ احتساب ایک آزادانہ قانونی عمل ہے اس کو اداروں کے توسط سے تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس لیے بے وقت احتساب کی راگنی الاپنے میں بہتری نہیں ہے۔ شائد میں غلطی پر ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ احتساب کے معاملات کو خالصتاً اداروں اور عدالتوں کے صوابدید پر چھوڑنا چاہیے۔ اس کو سیاست زدہ کرنے کا عمل جمہوریت اور مملکت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
٭ معیشت کو مستحکم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ دس سالہ اور بیس سالہ منصوبے ہی اس ملکِ خداداد کو گہرے بھنور سے نکال سکتے ہیں۔ عوام کواس عمل میں شامل کیے بغیر کوئی بھی مذکورہ کام بخوبی انجام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ اگر ایک غریب، مزدور، دہقان، کسان، زمین دار، جنرل، سول سرونٹ اور ٹیکنو کریٹ وغیرہ کی تنخواہیں برابر کر دی جائیں، تو بلاشبہ سارے مسائل اور مہنگائی میں کمی آئے گی بلکہ ختم ہوجائے گی۔
بہرحال یہ ایک مفروضہ ہے جو کہ اس نظام میں قابل عمل نہیں ہوسکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں