ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

اگر اجازت ہو، تو کچھ عرض کروں؟

میں یہ مانتا ہوں کہ ہمیں اپنی ملکی معیشت پر فوکس کرنا چاہیے۔ سازشی کرداروں کو قانون کے ذریعے گرفت میں لے کر بے نقاب کرنا چاہیے، لیکن ہمارے ملک کے پیچیدہ عدالتی نظام اور قانونی سقومات سے اللہ کی پناہ۔ کسی بھی اس قسم کے ملزم پر سزا ثابت کرنا مشکل ہی ہوتا ہے۔
قارئین، پاکستان قوانین کا قبرستان ہے۔ عمل مگر اس کے برعکس کیا جاتا ہے۔ ایک طرف احتساب کے عمل پر حکومت اور عوام کے وسائل لگتے ہیں اور دوسری طرف پلی بارگین جیسے کالے قانون کے تحت ملزموں کو صاف و شفاف کرکے چھوڑا جاتا ہے کہ یہی آج کل انصاف و قانون کا پیمانہ ہے۔ حالات اور قرائن چیخ و پکار کرکے ہماری ناکامی کی صدائیں دے رہے ہیں۔ مروجہ عدالتی نظام میں ملزم کی ”باعزت بری“ ہو جانے کی ذمہ داری ملک کے تمام اداروں بشمول قانون ساز اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ سچائی، ایمان داری، خلوص، ہمدردی، تسلی اور برکت وغیرہ جیسے الفاظ صرف کتابی حد تک تو بالکل صحیح اور درست ہیں لیکن اس کا عملی طور پر اطلاق ایک سسٹم کے بغیر ناممکن ہے۔ ہم سب کو پتا ہونا چاہیے کہ ہمارا مروجہ مجموعی سسٹم ناکارہ ثابت ہو چکا ہے۔ اس میں پیوند کاری کار عبث ہے۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کوٹیکس پیئر کنٹرول کرتے ہیں۔ ٹیکس پیئر وہ فرد ہے جو پچاس ہزار روپے سے زیادہ کما کر ٹیکس ادا کرے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ بھلا پاکستان میں کتنے فیصد لوگ ہوں گے جو پچاس ہزار روپے تک کماتے ہیں؟ میرا خیال ہے یہ کم ہی ہیں۔ اب نان ٹیکس پیئر کے حقوق کا اندازہ تو آپ کو ہوچکا ہوگا۔ مسلمان ہونے کے دعویدار بن کر جب تک قوم، ملک، ریاستِ مدینہ، معیشت، ٹیکس، زکوۃ، سود اور ربا وغیرہ کو خالص قرآنی نکتہ نظر سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، اس وقت تک نام نہاد قوم کی بحران سے نکلنے کی کوئی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوگی۔ اس وقت حکومت کوئی قانون لانے کی پوزیشن میں ہے اور نہ اس میں قانون بنانے کی کوئی اہلیت ہی ہے۔ سرِدست عرض کرتا چلوں کہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں سقوم رہ جانا قدرتی امر ہے، ٹرائل اینڈ ایرر!
یہاں میں امریکہ اور یورپ کا تذکرہ نہیں کر رہا کہ وہ باشعور ہیں اور اپنے لئے نت نئے قوانین اور اس میں ترامیم کرتے ہوئے اپنے وسائل اور مسائل کی نسبت آئے روز قوانین بناتے اور متعارف کرتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا ورژن ہے، یعنی قرآنی قانون، ریاستِ مدینہ جو کہ صرف اقوال کی حد تک ہے۔ مملکت خداداد میں حقیقت کا اس کے ساتھ کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں۔
جناب، جب ریاست اربوں ڈالر، ریاست کے وجود سے لے کر اب تک لیتی آ رہی ہے اور نہ جانے کب تک لیتی رہے گی، اس کا آج تک عوام کو کیا فائدہ ہوا؟ صحت، روزگار، انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی ہی ٹھیک ہوئی اور نہ عوام کو کوتعلیم ہی دی گئی۔ مرض کی تشخیص پر کسی حکمران یا سیاست دان نے کھلے دل سے توجہ نہیں دی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہماری ہر ناکامی کی سب سے بڑی وجہ جہالت ہے۔ کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ یہ ماننا پڑے گا۔ کوئی ضد کرتا ہے، تو اس کے لیے کچھ لمحے مان لیتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک ہوتا، تو کیا حکومت باہر ممالک سے قانون، سائنس و ٹیکنالوجی، ملٹی نیشنل پراڈکٹس، میڈیکل آلات اور ادویہ، ڈالرز وغیرہ لیتی؟ ہم سوئی دھاگے تک ان کے محتاج ہیں۔ امریکہ یا یورپ کے کسی ملک کا پاکستان سے موازنہ کرتے ہوئے مجھے اس سوچ پر ہنسی آتی ہے اور تکلیف بھی ہوتا ہے کہ وہ بھی ہم جیسے انسان ہیں۔ کیسا احمقانہ دعویٰ کیا جا رہا ہے ان کی برابری کا۔ کیا جاہل اور عالم ایک جیسے ہوسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں!
ہر سال دو تین دفعہ عوام کو لاکھوں روپے کا مقروض کرکے ایک طرح سے انہیں چونا لگادیا جاتا ہے۔ کچھ اندازہ ہے، انڈائریکٹ ٹیکسز سے لوگوں کی قوت خرید تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ افراطِ زر کے حال کا تذکرہ مناسب نہیں سمجھتا۔ اوسط لوگوں کی دہاڑی دس پندرہ ہزار ہے۔ اب گھر میں ایک کمانے والا پورے گھر کے لیے کیا کیا خریدے؟ بس پیٹ کاٹتا ہے۔ یاد رہے مذکورہ لوگ پچانویں فیصد ہیں۔ کیا حکومت مزید ٹیکس لے کر ان کا لہو نچوڑ اور چمڑا کھینچنا چاہتی ہے؟ حکومت کو فیصلہ کرنا ہے۔ اشرافیہ مذکورہ سے ایک خاص حد سے زائد اثاثہ جات کے لیے قانون بنانا ہوگا۔ باقی سب کو بحق سرکار ضبط کیا جائے۔ زمینوں کو جاگیرداروں وغیرہ سے لے کر کسانوں اور دہقانوں کو شرحِ قانون کے مطابق قبضے میں دے دیا جائے۔ لو جی، آپ کا قرض اتر گیا اور ملکی معیشت سنبھل گئی۔
لیکن عملاً یہ سب کرنا انتہائی مشکل ہے۔ آپ کا قرض پورا ہوجائے گا اور بے روزگاروں کو چھت میسر ہوجائے گی۔
(جاری ہے)

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں