روح الامین نایابکالم

ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے، اک تاثر

عمرزیئ چارسدہ کے رہنے والے شہاب شعور مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے شاگردی کا حق ادا کرتے ہوئے گویا افلاطون بن کر اپنے استاد سقراط پر کتاب لکھی اور اُس کی زندگی اور قلم کا احاطہ کرنے کی کوشش کی۔ ورنہ اس وقت کے سقراط بدرالحکیم حکیم زے کے شاگرد تو اور بھی بے شمار ہوں گے۔ اُن شاگردوں میں سوات کے بھی ہوں گے، بلکہ اَپر سوات اور شاید درشخیلہ کے بھی ہوں، جہاں کے رہنے والے خود بدرالحکیم حکیم زے بھی ہیں۔ لیکن یہ سعادت عمر زیئ چارسدہ کے شاگردِ رشید نوجوان ایم فل سکالر شہاب شعور کو حاصل ہوئی۔ چارسدہ والے دیگر پختونوں کے ”مجرم“ ہیں، جو ہمیں باچا خان بھی دیں گے، ولی خان بھی دیں گے، غنی خان جیسی نابغہ روزگار شخصیت بھی عطا کریں گے اور پھر سوات بدری کے وقت ہمیں اپنی مٹی، حجروں، مکانوں، سکولوں اور اپنے خوبصورت اور وسیع دلوں میں بھی جگہ دیں گے۔ پناہ بھی دیں گے، اپنا منھ کا نوالہ بھی ہمارے ساتھ بانٹیں گے اور پھر مزید یہ کہ ہمارے دانشوروں اور اہلِ قلم پر مقالے اور کتابیں لکھ کر انہیں ادب کے افق پر کسی ٹمٹماتے تارے کی طرح بھی بنائیں گے۔
دوسری طرف ہم اہلِ سوات کیا کریں گے؟ ہم تنقید کریں گے، ہم شہاب شعور کے قلمی کارنامے میں کیڑے نکالیں گے۔ کیوں کہ ہمارے سوات کا ادب تو نفرت اور انتقام پر مبنی ہے۔ ہم ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ہم کسی کی قابلیت، علمی اور قلمی جدوجہد یا تخلیق کو درخورِ اعتنا جو نہیں سمجھتے۔ ہم طاقتوروں اور حکمرانوں کے قصیدے لکھنے کے عادی جو ہوچکے ہیں۔ غلامی کی روش ہمارے خون میں ایسی سرایت کرچکی ہے کہ برسہا برس گزرنے کے باوجود ہم شہنشاہی اثر بلکہ سحر سے باہر نہیں نکل پائے۔ ابھی تک ہم ایک ہی ذات کی ثنا صفت میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کا غم رو رہے ہیں کہ ہمارے یہاں سے بادشاہت کیوں چلی گئی؟ حالاں کہ ان عقل کے اندھوں کو یہ احساس تک نہیں کہ ہر وقت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ بادشاہت اچھی ہو یا بری، طاقتور ہو یا کمزور، ایک وقت آتا ہے کہ اُسے جانا ہی ہوتا ہے۔ تاریخ کا پہیہ کوئی روک نہیں سکتا، اور نہ یہ پہیہ واپس گھمایا جاسکتا ہے۔ تو ایسے میں بدرالحکیم زیئ جیسے دانشور، مؤرخ، مصنف کو کون یاد کرے گا؟ سوات کے لکھاریوں کو ماضی کے قصوں سے فرصت نہیں، تو سوات کی دانشور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت کو چارسدہ کے شاگردِ رشید شہاب شعور ہی یاد کریں گے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ سوات کے لوگ ادب کو بھی اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ وہ اسے موم کی گڑیا سمجھتے ہیں کہ جس طرح بھی موڑو مڑ جائے گا۔ ہر وقت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ہر وقت کے ادب کے اپنے مطالبے اور سوال ہوتے ہیں، اگر ہم اُن مطالبوں اور سوالات کو نظر انداز کریں گے، تو وقتی تقاضے اور اپنے عہد کا ادب کسی کا لحاظ کرتا ہے نہ انتظار۔ تاریخی پہیے ہمارے سروں کے اوپر سے گذر جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ چند شعروں اور نظموں کے علاوہ ہم سوات کے حادثوں، سانحوں اور زخموں پر ایسا کچھ نہ لکھ سکے جو عالمی ادب کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر بیدار کرسکے، اور دنیائے ادب کی توجہ اس جانب مبذول کراسکے۔ ہم میں ادب کے حوالے سے ایک کمی یا خامی یہ بھی ہے کہ جو چند سنجیدہ لکھاری ہیں، ہم اُن کی حوصلہ افزائی اور پذیرائی بھی نہیں کرتے۔ کتاب خریدنا تو درکنار ہم تحفہ میں ملی ہوئی مفت کتاب بھی پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
”ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے (ژوند او قلم)“ پشتو میں شہاب شعور کی ایک بہترین قلمی کاوش ہے، جو 187 صفحات پر مشتمل ایک علمی تحقیقی کتاب ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں اپنے استاد ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے کی ذاتی زندگی اور قلمی جدوجہد کا احاطہ کیا ہے۔ حالاتِ زندگی سے لے کر تعلیمی مرحلوں اور رکاؤٹوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ شہاب شعور کے استاد تو اور بھی بہت ہوں گے، لیکن وہ اپنے اس خاص استاد کے تدریسی طریقہئ کار، اخلاص اور محبت سے متاثر ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں ڈاکٹر بدرالحکیم کی پیدائش سے لے کر خاندانی پس منظر، عادات و خصائل، سکول اور کالج کے حالات، ادبی اور تحقیقی خدمات، (ساتھ میں، مَیں اس فہرست میں تاریخی خدمات کا اضافہ کروں گا) اور اُس کے نظریات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب کی تمام ادبی اور تحقیقی خدمات مقصدی اور نظریاتی ہیں۔ ویسے بھی جس ادب کے پیچھے کوئی نظر یہ اور مقصد نہ ہو، وہ بھلا کیا ادب ہوگا اور کس زمرے میں شمار کیا جائے گا؟
اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب کی جن تخلیقات پر شہاب شعور نے بحث کی ہے، اُن میں ”تورونہ سازختونہ“، ”دا مزے غوسول غواڑی“، ”د ملالی ٹپہ“ اور ”د حق چغہ“ شامل ہیں، جب کہ تحقیقی خدمات میں ”اخون میاداد کا دیوان“، ”میاں قاسم بابا کی خدمات اور خاندان“، گنجۃ الگوہری“، ”زیرے“، ”سرتور فقیر“، ”د پختونخوا مطالعہ“، ”میا حمد اللہ فقیر کا کلام“، ”پختونولی“، اور ”سوات میں انتہا پسندی کے چند محرکات (اردو)“ پر تفصیلاً بحث کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر حکیم زے کو بحیثیت ایک شاعر اور نثر نگارکے بھی متعارف کیا گیا ہے۔
شہاب شعور کی یہ موجودہ کتاب جامع ہو یا نہ ہو، لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ ایک کامیاب کوشش ہے۔ داد دینے اور ستائش کرنے کی لائق ہے۔ انہوں نے سوات کی زر خیز مٹی کے ایک قابل دانشور، مصنف، اُستاد، مؤرخ اور محقق ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی پر کتاب لکھ کر پورے سوات پر احسان کیا ہے۔ خاص کر سواتی ادب اور ادبی شخصیات کو ممنونِ احسان بنا دیا ہے۔ جہاں ایک جانب اگر ہمیں حکیم زئی صاحب پر ناز اور فخر ہے وہاں دوسری طرف ہم شہاب شعور کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے اپنے قلم سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ادبی خدمات کو اجاگر کیا۔
قارئین کرام! اس ضمن میں شہاب شعور کی ادبی کاوش کے اعزاز میں ”مشال ادبی ٹولنہ“ کی جانب سے سات جولائی کو برہ درشخیلہ میں ایک شان دار اور پُر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں ضلع سوات کے ادبی نمائندوں، معزز باشندگانِ سوات، دانشوروں، اساتذہ، صحافیوں، غرض ہر مکتبہ فکر کے افراد نے شہاب شعور کے اس ادبی شاہکار کو خراج تحسین پیش کیا، اسے سراہا اور اُس کا شکریہ ادا کیا۔
یہ پروگرام کافی تاخیر سے شروع ہوا تھا اور جب پونے تین بجے شہاب شعور کی خدمت میں خراجِ تحسین کی تقاریرختم ہوئیں، تو بجائے وقفہ کرنے کے اور بھو کے عوام کو کھانا کھلانے کے مشاعرے کا اعلان کیا گیا جو سراسر زیادتی تھی۔ شعر کتنے بھی اچھے ہوں، لیکن ان سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ ہم نے بلاوجہ ہر جگہ، ہر وقت اور ہر پروگرام میں مشاعرے کو گھسیڑنا ہے۔ تحقیقی کتاب ہو، نثری کتاب ہو، کسی خالق کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہو، تو اس میں مشاعرے کی کیا تُک بنتی ہے۔ اس مصروف زندگی میں اتنا وقت کس کے پاس ہے کہ وہ بیک وقت نثری اور شعری دو پروگرام بھگتے۔
میری درخواست ہے کہ شاعر حضرات عوام پر رحم کریں۔ مشاعروں نے عوام کو نکما اور سست بنا دیا ہے۔ لہٰذا نثری پروگرام کے بعد تقریباً 3بجے میں بھوکا پیاسا پنڈال سے چپکے سے باہر آیا اور خاموشی سے اپنی راہ لی۔ کیوں کہ میں بھوکے پیٹ اشعار سننے کا قائل نہیں ہوں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں