فضل مولا زاہدکالم

فرشتہ، اجل اور رحم

”وہ ایک چھوٹا سا بحری جہاز تھا، جو وسیع سمندر میں دھیرے دھیرے منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ کئی مسافر سفر کے ساتھ موسم کے حسن و خوبصورتی سے لطف اندوزہو تے رہے۔ کوئی آپس میں خوش گپیوں سے مزہ لیتے رہا۔ کوئی کھانے پینے میں مشغول اور بعض کاہل اپنی انجام سے بے خبربے تکلفی کے ساتھ محو استراحت رہے۔ اچانک ہی موسم نے پینترا بدلا ہوائیں یک لخت تیز ہو نے لگیں۔ لہریں مزید شدت سے اوپراُٹھنے لگیں۔ جہاز بے ربطی کے ہچکولے کھانے لگا اور سرپھرے طوفان نے چند ساعتوں میں اُس کو توڑ پھوڑ کر تباہ کر دیا۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کی کوششوں میں لگ گئے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ان مسافروں میں ایک خاتون بھی موجودتھی جو خیر سے حاملہ تھی۔ اُس نے جہاز کے ایک ٹوٹے ہوئے تختے کا سہارا لیا۔ تیرتی تیرتی تھک گئی۔ پھرخوف کی وجہ سے بے ہوش ہو ئی اور عین اُن لمحات میں ایک بچے کو جنم دیا۔“
جامع مسجد ابوہریرہ گوجر کالونی بھاگٹانوالہ سرگودھا میں عشا کی نماز پڑھنے اور خور و نوش کی نشست کے بعد”قصہ گو“ نے شیڈول کے مطابق کہانی شروع کی۔ ساتھ ساتھ وہ اپنی بے ترتیب لمبی بھنویں سکیڑتا، ناک مروڑتا اور مخصوص انداز میں بولتا رہا۔ تبلیغی جماعت کے دس درویش دائرہ بنائے جس میں کوئی دوزانو بیٹھے، کوئی آلتی پالتی مار کر بیٹھے اور کان کھولے بڑے غور سے یہ سنسنی خیزکہانی سن رہے تھے۔ آپ بھی قصہ سنتے جائیں، دماغ کی کسوٹی پر ہر لفظ کی صداقت نہ پرکھیے، فی الحال۔
قصہ گو کے بقول: ”بچے کی ولادت کے بعد حکم صادر ہوا کہ خاتون کی روح قبض کرلی جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور تنِ تنہا بچہ جہاز کے اُس ٹوٹے ہوئے تختے پر پڑا کئی دنوں بعد کنارے جا لگا۔ ایک شخص اُسے دیکھ کر گھر لے گیا اوربڑی محبت سے اُس کی پرورش شروع کی۔ اوائلِ عمر ہی میں یہ بچہ بڑا زیرک اور ذہین نکلا۔ سات آٹھ برس کی عمرمیں بچوں کے ساتھ گلی میں کھیلتے ہوئے خبر پھیلی کہ بادشاہ کی سواری وہاں سے گزرنے کو ہے۔ دیگر بچے تو یک دم اِدھر اُدھر بھاگ نکلے، لیکن وہ اشتیاق کے ساتھ شاہی لشکر کا نظارہ کرنے قریب ہی کہیں چھپ گیا، لشکر کی خبر لینے کچھ پیادے بھی پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ ایک پیادے نے راستے میں کوئی پوٹلی پڑی ہوئی پائی۔ دیکھا، تو اس میں سرما تھا۔ اُس کی آنکھوں کی بینائی کمزور تھی۔ وہ خوش ہوا اور ساتھیوں سے اُسے اپنی آنکھوں میں لگانے کی اجازت چاہی۔ ساتھیوں نے منع کرتے ہوئے بتایاکہ راستے میں پڑی ہوئی چیز یں نہیں اُٹھانی چاہیے۔ اُٹھا ہی لیاہے، تو آزمائے بغیر آنکھوں میں نہیں لگانا چاہیے کہ فائدے کے بجائے نقصان نہ ہو۔ پہلے کسی اور کی آنکھوں میں لگا کر دیکھا جائے۔ پیادے نے اِدھر اُدھردیکھا، تو کونے میں یہ شریر بچہ کھڑا دیکھا۔ اُسے بلا کرآنکھوں میں سرمہ لگایا، توبچے کی آنکھیں روشن ہوئیں اور اُسے زمین کے اندر کی چیزیں یہاں تک کہ خزانے اور ہیرے جواہرات نظر آنے لگے۔عقل مند تو وہ تھا ہی، سرمے کے کمال کا علم ہوا، تو چیختے چلاتے ہوئے کہنے لگا: ”تم نے میری آنکھیں خراب کر دیں۔ میں تو اندھا ہوگیا۔ مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ میں بادشاہ کوفریاد کروں گا۔“ پیادے خوف کے مارے بھاگ نکلے اور اُس نے گھر آکر باپ کو واقعہ بیان کیا۔ وہ بہت خوش ہوا۔ اب اُن کا رات کامعمول بنا کہ لوگ سو جاتے اور یہ دونوں باپ بیٹا باہر جا کر زمینوں کے خزانے نکالتے اور خفیہ خفیہ خچروں پر گھر لا کے رکھتے۔ مال و دولت اور ہیرے جواہر کے بل بوتے پر اُنہوں نے گاؤں والوں کو اپناہم نوا بنا لیا۔ ”ٹو کٹ لانگ سٹوری شارٹ“ عرصہ بعد بچے نے (جو تب بڑا ہو گیا تھا) علاقے کے سردار کو قتل کیا اور خود سردار بن بیٹھا۔ عزت و طاقت اورلاؤ لشکر کی وجہ سے یہ اتنا مغرور اور متکبر ہوا کہ خدائی کا دعویٰ کر ڈالا۔ اُسے سمجھایا گیا کہ یہ عارضی چیزیں ہیں اور ایک خدا کی اطاعت ہم سب پر فرض ہے، لیکن وہ کہتا پھرتاکہ خدا کی بندگی اور اطاعت تو غریب لوگ کرتے ہیں۔ مجھے تو سب کچھ میسر ہے۔ مجھے کیا ضرورت کہ کسی کی عبادت کروں؟ اُس نے عالموں سے جنت کی خوبیوں بارے استفسار کیا اور جب اُس نے خوبیا ں سنیں، تو کہا کہ اس سے اچھی جنت تو میں دنیا میں بنا سکتا ہوں۔ لوگوں کو اپنی طاقت دکھلانے کی خاطراُس نے اپنی ”جنتِ ارضی“ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے کوہِ عدن سے متصل ایک اونچے مقام پریہ جنتی شہر بنانے کا حکم دیا۔ اس کی بنیادیں گہری کھودی گئیں۔ اُن کو سلیمانی پتھروں سے بھر وایا گیا۔ سونے کی انیٹوں سے چار دیواری بنائی گئی جس کے اندر کئی محل، نہر اور حوض بنوائے گئے۔ فرش پر زمرد، یاقوت اور نیلم کی تہیں بچھائی گئیں۔ کناروں پر مصنوعی درخت بنا کر لگائے گئے، جن کی شاخیں اور پتے زمرد کے اور پھل پھول موتی، یاقوت اور دیگرجواہرات کے بنوا کر لٹکائے گئے۔ فرش پر ریشمی قالین بچھائے گئے۔ ترتیب سے سونے چاندی کے برتن رکھ دیے گئے اور حوضوں میں دودھ، شراب اور شہد کی ندیاں جاری کر دی گئیں۔ عمدہ اور لذیذ پکوان تیار کرنے والے ہنرمندوں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ کئی برسوں میں یہ شہرِ بے مثال تمام سجاوٹوں کے ساتھ تیار ہوا، تو اُمرااور سرداروں کو حکم دیا گیا کہ جا کر وہاں زندگی کا لطف اُٹھائیں۔ ہیز ایکسی لینسی بھی لاؤ لشکر سمیت شان دار شاہی گھوڑے پر تشریف فرماخراماں خراماں اپنی جنت کی جانب جانے لگتا ہے۔ راستے میں جگہ جگہ کھڑے لوگ اُس پرزرو جواہر نچھاور کرتے ہیں۔ وہ بڑے دھوم دھام کے ساتھ شہر کے دروازے پر پہنچتا ہے۔ گھوڑے کی رکاب سے ایک پاؤں نکالتا ہے اور دوسرا نکالنے والاہوتا ہے کہ ایک اجنبی شخص وہاں کھڑا دیکھتا ہے۔ عزت مآب کندھے اُچکا تا ہے۔ ایک شانِ نیازی سے پوچھتا ہے، ”ارے تُو کون ہے اور یہاں کیا کرنے آیا ہے؟ جواب ملتا ہے: ”ملک الموت ہوں اورتیری جان لینے آیا ہوں۔“ عزت مآب درخواست کرتا ہے، ”اتنی مہلت دے کہ اپنی بنائی ہوئی جنت دیکھ سکوں۔“ جواب ملتا ہے: ”اجازت نہیں۔“ عزت مآب روتے ہوئے آہ و زاری کرتا ہے، اور اتنی فرصت مانگتا ہے کہ گھوڑے سے اُترے۔ مختصر جواب ملتا ہے، ”اجازت نہیں۔“ اسی حالت میں اس کی روح قبض کی جاتی ہے۔ پھر موت کا فرشتہ ایک زوردار چیخ مارتا ہے اور اسی وقت پورا شہر زمین میں یوں دھنستا ہے کہ صفحہئ ہستی سے اس کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔“
ایک روایت ہے، اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے پوچھا، ”اے فرشتے، تم کو کبھی کسی کا روح قبض کرنے کاافسوس بھی ہوا۔“ عرض کیا: ”اے رب العزت! مجھ کو دو ذی روحوں کی جان نکالنے کا بڑا دُکھ ہوا۔ وہ ماں جس نے ایک تباہ ہونے والے جہاز میں بڑے بے سرو سامانی کی حالت میں بچہ جنا تھا۔اس وقت وہ اُس بچے کا واحد سہارا تھی۔ مجھے رحم آیا اُس بچے پر جو بھوک سے تڑپ رہا تھا اور اُس کی ماں کا روح قبض کرنے کا حکم ہوا۔ دوسرا وہ بادشاہ جس نے ایساشہر بنوایا جو دنیا میں کہیں نہیں تھا اور وہ اُس کو دیکھنے پہنچا، تو ایک قدم شہر کے دروازے اور ایک باہر تھا کہ اُس کی جان قبض کرنے کا حکم ہوا۔“ فرمایا گیا، ”عزرائیل! تمہیں ایک ہی شخص پر دوبار رحم آیا ہے۔ یہ بادشاہ وہی بچہ تھا جس کو ہم نے کسی سہارے کے بغیر سمندر کی لہروں اور طوفانوں سے بچایا۔اُس کو نام و نمود کی بلندیوں پر پہنچایا۔ دُنیا کے خزانے اُس پر نچھاور کیے اوروہ ہمارا نافرمان بنا۔ مغرور و متکبر ہوا اور اپنے انجام کو پہنچا۔“
یہی بچہ وہ نامی گرامی شداد تھا، جو دُنیا میں فرعون بنا بیٹھاتھا۔ کہتے ہیں کہ شداد، اس کا لشکر اور شہر کے تمام لوگوں کے ہلاک ہونے کے بعد اللہ پاک نے اس شہر کو دنیا والوں کی نظروں سے پوشیدہ کر دیا، مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن کے گردو نواح میں اُس جگہ چمک دار روشنی سی دکھائی دیتی ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ روشنی اسی شہر کی دیواروں کی ہے۔
قصہ گو ساتھی سید محمد شاہ یہ سبق آموز کہانی یہاں تک پہنچا کر ٹھنڈی پڑی چائے کا آخری گھونٹ لے کردَم لیتے ہیں۔دیگر دوست اِس پر مزید بحث و مباحثہ شروع کرتے ہیں اور ہم جہاز کی طرح سوچ کے وسیع سمندر میں طوفانی ہچکولے کھاتے ہوئے شداد کے شہر کا خیالی نظارہ کرنے چل پڑ تے ہیں۔
قارئین، ماضی کے واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اُن سے سبق سیکھا جائے۔ ہم کوئی سبق سیکھنا چاہیں گے، کیا؟
قارئین کرام! مشہور صحافی جاوید چوہدری صاحب اِس موضوع پر اپنے ایک کالم میں اس شہر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اُنیس سو بیانوے میں امریکی ادارے نیشنل ایروناٹیکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) نے عمان کے صحرا میں کئی میٹر گہرائی میں ایک شہر دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے کھودنے پر کام شروع ہوا اور شہرکا ایک سرا مل گیا، لیکن مزید کھدائی نہ ہوسکی، کیونکہ کہتے ہیں کہ پورا شہر گندھک کے جوہڑ میں ڈوبا پڑاتھا۔
واللہ اعلم!
(کالم نگار کی آنے والی کتاب ”ہے گشت کا جہاں اور“ سے انتخاب، مدیر)

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں