ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

انڈیا، آرٹیکل 35 Aاور 370 میں تبدیلی کے خطہ پر اثرات

انڈیا نے آرٹیکل (35 A) اور آرٹیکل 370 میں ترمیم اور تبدیلی کرکے ریاستِ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ہے۔ اس آرٹیکل میں وضاحت کی گئی تھی کہ ریاستِ کشمیر میں ریاست کے رہائشی شہری اپنے املاک کی ملکیت اور بنیادی حقوق سے متعلق دیگر قوانین کے تحت رہتے زندگی گزارتے ہیں، جب کہ اس شق کے نتیجے میں دیگر ہندوستانی ریاستوں کے شہری جموں و کشمیر میں زمین یا جائیداد نہیں خرید سکتے ہیں۔5 اگست سال2019ء کو انڈیا کے آئین کو ریاست کشمیر میں نافذ کردیا گیا۔ اس طرح کشمیر باقی ریاستوں کی طرح انڈیا کا آئینی حصہ تسلیم کیا جاچکا۔ صدارتی فرمان کے ذریعے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔
ایسا کیا ہوا کہ انڈیا کے پالیسی ساز اداروں نے ضرورت محسوس کی کہ مذکورہ آرٹیکل میں ترمیم لازمی کرنا ہے؟ اس کی دیگر بنیادی وجوہات کے علاوہ اس مسئلہ پر تیزی کی ایک وجہ حالیہ طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات میں صدر ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش اور کردار ادا کرنے کے بعد ہوئی۔ تیار ی مگر اس سے پہلے کرلی گئی تھی۔ مذکورہ ملاقات میں صدر ٹرمپ نے ملاقات کے دوران میں کہا کہ مودی نے بھی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہا ہے۔ جس بیان کو مبینہ طورپر انڈیا کی سرکار نے جھوٹ کہہ کر رد کردیا اور کہا کہ مودی نے صد ر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔ اس کے بعد امریکی سرکار کی طرف سے بھی یہ بیانات سامنے آئے کہ امریکی صدر اپنے بیان پر اب بھی کھڑا ہے اور انہوں نے جھوٹ نہیں بولا ہے۔
دوسری طرف اس بیان کے فوری بعد انڈیا نے مسئلے کے حل کے لیے باقاعدہ طور پر قانون سازی کرنے کی ٹھان لی۔ ادھر ہم سیاسی بیان بازی، سیاسی گرفتاریوں اور سینٹ الیکشن میں ایسا گم ہوگئے کہ اندازہ ہی نہیں رہا کہ خطے میں کیا ہونے جا رہا ہے؟ اس کا یہ مطلب ہے کہ مسئلہ کشمیرپر ہمارا موقف اور ہوم ورک کمز ور پڑتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے لیے ”افغان پیس پراسس“ میں حصہ لینا سود مند ہے، لیکن اس آڑ میں امریکہ کے فرنٹ لائن دوست ہونے کے ناتے ایران کے ساتھ محاذ آرائی (حالاں کہ ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا) مزید مسائل کو پیدا کرسکتی ہے۔ اس طرح چاروں فرنٹ پر مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ اس میں غیر جانب دار رہنا ہی بہتر ہوگا۔
قانون سازی کے امور میں پڑوسی ممالک میں اتنے مسائل پیدا نہیں ہوتے جتنے اس کے برعکس ہمارے ملک میں پیدا ہوجانے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میری نظر میں یہ ہیں کہ پاکستان اس وقت داخلہ اور خارجہ محاذ پر سیاسی مسائل سے نبرد آزما دکھائی دے رہا ہے۔ ٹیرر فنانسگ ایف اے ٹی ایف کے ضمن میں پاکستان کو ”گرے لسٹ“ میں ڈالا جا چکا ہے۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی اس کے علاوہ ہے۔ اگر ایک طرف حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی ہے، تو دوسری طرف پڑوسی ممالک میں مداخلت کی پالیسی کا الزام بھی اپنا کام دکھارہا ہے۔ کون اس کا ذمہ دار ہے اور کون اس میں ذمہ دار نہیں؟ اس کا تعین وقت ہی کرے گا۔ بہرحال ان حالات میں ہمارے حکمرانوں کو بری الذمہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم رونا پیٹنا شروع کر دیں۔ تیار رہنا چاہیے۔ اب کشمیر میں انٹرنیشنل بارڈر کو کسنے کا پروگرام کیا جائے گا۔ کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا نہیں ہونا چاہیے تھا؟ اس کو ایک سائیڈ پر رکھتے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ اس طرح کے مسئلے کے لیے کسی بھی ملک میں خصوصاً پارلیمنٹ اور دیگر دفاعی ادارے موجود ہوتے ہیں، تو دوسری طرف سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاراس مد میں ہر وقت اپنا تجزیہ اور انالیسز پیش کرتے رہتے ہیں۔ رونا پیٹنا اور دہائی دینا اس مد میں بیکار ہے۔ باقاعدہ طریقہئ کار وضع کرنا اور منطقی حل تراشنا پڑتا ہے۔ مخالف بیانیہ اور قانون سازی کا جواب دینا ہوتا ہے۔ میری نظر میں حکومت پاکستان کی طرف کاونٹر قانون سازی بھی ایک آپشن کے طور پر موجود ہے۔ آپ کسی طرح اس بات کونظر انداز نہیں کرسکتے۔پاکستان کا انڈیا کے ساتھ معاملہ زیرِ نظر ضد اور انا سے بڑھ کر ایمانی اور غیرت کا معاملہ بن چکا ہے۔
مسلمہ طور پر ثابت شدہ اصول ہے کہ صرف جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ مذاکرات کی تیاری اور مذاکرات پر آمادہ کرکے اپنے مسئلے کے حل کے لیے تجاویز اور متبادل تلاش کیے جاتے ہیں۔ ذہن سازی اور اپنا بیانیہ نہ صرف ملکی طور پر عوام کے ذہن میں ڈال دیا جاتا ہے، بلکہ دوسری طرف اقوامِ عالم، اقوامِ متحدہ کے اداروں،عالمی ممالک اورخصوصاً اسلامی بلاک او آئی سی کو بھی مسئلہ کی نذاکت اور مقدمہ کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے۔یہ ضروری ہے کہ او آئی سی کا اجلاس بلاکر اس مسئلے کو امت مسلمہ کے دیگر مسائل کی طرح اٹھا کر او آئی سی کو فریق کے طور پر تیار کرنا چاہیے۔ ورنہ تو ایسے فورمو ں کی ضرور ت ہی کیا ہے؟ ہمارے جائز اور قانونی مسئلے میں ہمارا ساتھ نہ دینا کیا معنی رکھتا ہے؟
پاکستان کے حق میں یہ بات اہمیت کے حامل ہے کہ مذکورہ مسئلے پرانڈیا نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کھلی اور صریحاً خلاف ورزی کی ہے۔ عالمی اداروں میں یہ مقدمہ سب جوڈیس ہے۔ اقوامِ متحدہ کوازخود نوٹس لینا چاہیے۔ کشمیر اب بھی ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اس مد میں کشمیر کے عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا اور نہ ہی ان کی خواہشات کا احترام کیا گیا۔ اس سے اگر ایک طرف انڈیا کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے، تو دوسری طرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو بھی پاؤں تلے روند دیا گیا ہے۔ اس مسئلے پر امریکی صدر اور اقوام متحدہ کیا کرسکتے ہیں؟ اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے۔ کارگل کی جنگ کے نتیجے میں انڈیا نے بھونڈی سیاست کرکے اقوامِ عالم میں ہماری ریاست کو بدنام کرکے کشمیر سے پیچھے دکھیل دیا اورا پنی اس سازش میں کامیاب ہوگئے۔ دخل اندازی اور ٹیر رسٹ آرگنائزیشن کو فنڈنگ کے مبینہ بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔ اس وقت کشمیر سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی گئی۔حالات جوں کہ توں ہیں۔اس کے بعد سے انڈیا کا نقطہئ نظر کافی مضبوط نظر آرہا ہے۔ مضبوط اس لیے بھی ہے کہ اس سارے عرصہ میں ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کے ساتھ مشت و گریبان رہے۔ حالیہ طور پر ایک سابق صدر،دو وزیراعظم اور دوسرے اعلیٰ پائے کے سیاست دان کرپشن مقدمات میں جیلوں میں نظربند ہیں۔ میڈیا سنسر شپ، میڈیا بلیک آوٹ اور حکومتی بیانیہ کے علاوہ کسی اور چیز اور بیان و جلسے کی کوئی وقعت نہیں۔ مذکورہ مسئلے پر حکومت کی کوئی کاغذی کارروائی موجود نہیں۔ سمجھنا چاہیے کہ عالمی طور پر ایک ملک کا مسئلہ ملکی سیاست دان ہی بہتر طور پر پیش کرسکتے ہیں، لیکن حالات آپ کے سامنے ہیں کہ کس طرح دوسرے بڑے بڑے مگر مچھوں کو چھوڑ کر صرف سیاست دانوں پر سارا نزلہ نکالا جا رہا ہے۔ اس نسبت دوسری کرپٹ ترین، سول و ملٹری بیورو کریسی اور اشرافیہ کو کرپشن مقدمات سے چوٹ دی گئی ہے۔ خدارا، قومی مسئلوں پر اتفاق رائے بنایا جاتا ہے۔ قومی اور ملی مسئلوں پر سیاست دان ایک پیج پر ہوتے ہیں۔ سیاست میں اختلاف کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا ہے کہ قومی مسئلوں کو پسِ پشت ڈال دیا جائے۔ کوئی سیاست دان یا سیاسی پارٹی ایک کام ایک طرح سے کرنے کی خواہش مند ہوتی ہے تو دوسری اس کام کو دوسرے طریقے سے کرنا چاہتی ہے۔ البتہ مقاصد اور پالیسی ایک ہوتی ہے۔ یہی سیاست کا مطمحِ نظر اور مقصد ہوتا ہے۔ اس میں دشمنی کے کیا معنی، سمجھ سے بالاتر ہے۔ مذکورہ مسئلے پر تمام اختلافات کو بھلا کر پارلیمنٹ میں بحثیں ہونی چاہئیں۔ قانون سازی ہونی چاہیے۔ بدلتے ہوئے حالات کے موافق قومی بیانیہ تشکیل دیا جانا چاہیے۔ اتفاق و اتحاد کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں