روح الامین نایابکالم

قیس او چغجئی

”چغجی“ محمد حنیف قیس کا پشتو شعری مجموعہ ہے جو سوات کے مشہور و معروف پبلشر شعیب سنز نے خوبصورت، مجلد اور موزوں ترتیب و اہتمام سے شائع کیا ہے۔ نرم، ملائم، سفید کاغذ پر مرتب شدہ دو سو آٹھ صفحات پر مشتمل یہ کتاب شعیب سنز کے ساتھ ساتھ سوات اور پختونخوا کے ہر مشہور بک سٹال پر مناسب قیمت پر دستیاب ہے۔
قارئین کرام! ”چغجئی“ پشتو نام ہے جو آخروٹ کے اندر والے گودے کو کہا جاتا ہے، اس گودے کو اردو میں ”گری“ بھی کہا جاتا ہے۔ اپنی مٹھاس، ایک خاص ذائقے اور انسانی صحت کے لیے بہ طورِ لازمی خوراک کے سواتی آخروٹ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ آخروٹ کے اس ”گری“ کو اگر سواتی شہد کے ساتھ کھایا جائے، تو اُس کا ایک الگ اور عجیب مزہ ہوتا ہے۔ خود محمد حنیف قیسؔ اپنے ایک شعر میں یوں فرماتے ہیں:
د سوات د ہر موسم میوہ سوغات دی خو ملگرو
چغجی د گبینہ سرہ خوڑل ئی عجیبہ دی
یعنی سوات کے ہر موسم کا پھل ایک خاص تحفہ ہے، مگر اے دوستو ”چغجئی“ یعنی گری کو شہد کے ساتھ کھانا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
محمد حنیف قیسؔ نے غالباً اپنے شعری مجموعے کا نام ”چغجئی“ اس لیے رکھا ہے کہ بلا شبہ چغجی کا ہر شعر چغجی کی طرح میٹھا، ذائقہ دار، خاص الخاص اور صحت مند ہے۔
قیسؔ صاحب صرف سوات کے نہیں بلکہ پورے پختونخوا کے مشہور شاعر ہیں۔ سرزمینِ سوات اُن پر بجا طور پر فخر کرسکتی ہے۔ وہ پوری پختون قوم کا نمائندہ شاعر ہے۔
مذکورہ شعری مجموعے سے پیشتر قیس صاحب کے تین شعری مجموعے اور شائع ہوچکے ہیں اپنے اپنے وقت میں۔ ایک، زارہ چاودی مزلونہ۔ دوم، مرغزار اور سوم، بلہ شونٹئی پشتو ادب میں ایک اہم مقام حاصل کرچکے ہیں۔
پشتو ادب کے حوالے سے قیسؔ صاحب کی بے شمار ادبی خدمات ہیں۔ یہ خدمات وہ ہمیشہ سے بلا کسی معاوضے کے کرتے آئے ہیں۔ جب بھی پشتو املا اور پشتو کی نئی اصطلاحات کے حوالے سے باڑہ گلئی یا پشتو اکیڈیمی میں اہم اجلاس ہوتے ہیں۔ محمد حنیف قیسؔ صاحب کی شمولیت اُس میں لازمی سمجھی جاتی ہے، تاکہ اُس کی علمی اور فنی معلومات سے استفادہ کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ وہ ہر وقت نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پشتو نثر اور نظم کی لا تعداد مسودوں کی پروف ریڈنگ وہ خندہ پیشانی سے بغیر کسی لالچ کے کرتے چلے آ رہے ہیں اور ساتھ ہی فنی لحاظ سے مفید مشوروں سے بھی نوازتے رہتے ہیں۔
محمد حنیف قیس ایک ہنس مکھ، سادہ اور منکسر المزاج انسان ہیں۔ اُس میں غرور اور بڑائی نام کو بھی نہیں۔ اُس کے تعلقات ہر شعبہئ زندگی کے لوگوں سے ہیں۔ وہ مخلوقِ خدا کی خدمت کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔
قارئین کرام! محمد حنیف قیسؔ کی تمام شاعری، سنجیدہ اور بامقصد ہے۔ اس طرح چغجی کی ہر غزل اور ہر نظم اپنے اندر سوز اور ساز کے ساتھ ساتھ ایک مقصد سموئے ہوئے ہے۔ اُن کے اشعار میں مزاحمت کے ساتھ طنز بھی نمایاں ہے۔ بعض غزلیات اور نظمیں نصیحت آموز اسباق کے پہلو لیے ہوئے ہیں۔ اس شعر کو ذرا پڑھیے اور اندازہ لگائیں:
دی کلی کے واعظ خلق تیارو کے دی ساتلی
لیدلی چرتہ نہ دی د ی خوارانو رنڑا گانی
کہ غواڑئی چی پختون دی ہم د سیالو سرہ سیال شی
راواخلئی ہلہ شاباسی زوانانو رنڑا گانی
پہلے شعر میں ایک کمی اور برائی بیان کی گئی ہے اور دوسرے میں اُس کا حل بھی ہے، اور جوانوں کو دعوت جدوجہد بھی دی گئی ہے۔ یہی خاصا ہے محمد حنیف قیسؔ کی شاعری کا۔ اندھیروں کو بھگانے اور روشنیوں کو پھیلانے کے لیے ببانگ دُہل یوں نغمہ سرا ہیں:
یوہ چغہ ویستل غواڑی، پختانہ ویخول غواڑی
دا تیاری زغلول غواڑی او رنڑا راوستل غواڑی
قیسؔ صاحب پختونوں کے روایاتی مرض بے اتفاقی کی طرف اشارہ کرکے افسوس کے ساتھ کچھ یوں رقم طراز ہیں:
یو اتفاق کہ پہ کی راغے نو ہر سہ بہ راشی
دا یو مرض دے کہ، سوک وی زما د قام نہ اشنا
سوات کے حادثوں، نوحوں، غم زدہ اور حسرتناک حالات سے عام لوگوں کی طرح قیسؔ صاحب بھی بہت متاثر نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے جگہ جگہ اپنی شاعری میں سوات کے زخم خوردہ حالات کا رونا رویا ہے۔ اپنے خوبصورت اور درد ناک نظم ”گیلہ بہ نہ کڑی“ میں سوات کے خونیں حالات کا کیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے:
خو یہ زما د کاروان ستوریہ جانان ملگریہ
پہ سوات چی سہ وشو سہ کیگی ستا نہ پٹہ نہ دہ
د سوات د حسن ناوی لاڑلہ تالہ ترغہ شہ
پہ دی جنت کی ہر گل سوے تش اوور پاتی دے
سوات کی دہشت گردی اور خونیں واقعات سے دہشت زدہ اور خوف زدہ لوگ بے سروسامانی کے عالم میں اپنی سر سبز، جنتِ نظیر وادی کو چھوڑ کر مردان، صوابی اور چارسدہ کی گرم اور تپتی ہوئی زمین پر لٹے پٹے، در در کی ٹھوکریں کھارہے تھے، اور وہاں کے غیور پختونوں نے جس طرح مہمان نوازی کی روایات کو بر قرار رکھتے ہوئے سوات کے مہاجروں کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ قیسؔ صاحب نے اپنے اشعار میں جگہ جگہ اُن کا ذکرِ خیر کیا ہے۔ بلکہ قیسؔ صاحب جیسے حساس شاعر اور وفا شناس انسان نے اپنی کتاب کا انتساب بھی کوہی برمول (مردان) کے حاجی ریدی خان، حاجی قریش خان، حاجی اجون خان، حاجی ریسال خان، حاجی ریدول خان اور اُن کے تمام خاندان کے نام کرکے پورے سوات کی طرف سے خراجِ تحسین اور ممنویت کا اظہار کرکے اہم فریضہ سرانجام دیا ہے۔
قارئین، کتاب میں فخر افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان پر ایک خوبصورت نظم قیس کی پختونولی اور ایک عظیم شخصیت کی قربانیوں اور خدمات کا کھلا اظہار ہے۔ نظم میں الفاظ کو گویا ایک خوبصورت مالا کی شکل میں پرو کر باچا خان کی شخصیت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اُنہیں خراجِ عقیدت کے ساتھ ساتھ اُن کی تاریخی جدوجہد کا ذکر کیا گیا ہے۔
مَیں کتاب میں کس کس شعر کا ذکر کروں؟ ہر شعر قابلِ تحریر، قابلِ تشریح ہے اور قابلِ ستائش ہے۔ ہر شعر اپنے اندر ایک داستان سموئے ہوئے ہے۔ اگر کچھ اشعار میں صاف گلا کیا گیا ہے، تو کچھ میں مزاحمت اور بغاوت بھی ہے۔ اگر کچھ اشعار میں صاف صاف ظلم اور زیادتی کا اظہار کیا گیا ہے، تو پختون قوم کی خوبیوں اور خامیوں کا بھی کھلے دل سے ذکر کیا ہے۔ اگر غزلیات لاجواب ہیں، تو نظمیں بے مثال ہیں۔ اس مجموعے میں ہائیکو کے مزیدار چٹخارے بھی ہیں۔ مشتے نمومہ از خروارے، ایک ہائیکو پیش خدمت ہے:
زما د سپو نہ گورے کرکہ کیگی
خو زانلہ زکہ خکلے سپے ساتمہ
د مسلمان نہ چی پری زان اوساتم
حنیف قیسؔ صاحب کسی تعارف اور کالم کے محتاج نہیں۔ اس کالم کی مثال سورج کے آگے چراغ جلانے کے مترادف ہے۔ کسی ایک کالم میں اُس کی شخصیت اور شاعری کا احاطہ کرنا ناممکن بھی ہے۔ میں دل کی گہرائیوں سے اُن کے خوبصورت شعری مجموعے چغجی پر انہیں مبارک باد دیتا ہوں اور دست بہ دعا ہوں کہ اُس کا زورِ قلم اور زیادہ ہو۔ اُسے خداوند زندہ و سلامت رکھے۔
یوں تو پورا مجموعہ کوٹ کرنے کے لائق ہے مگر جاتے جاتے کتاب ”چغجئی“ سے ایک قطعہ درج کرنا چاہوں گا اور ساتھ ساتھ اجازت بھی چاہوں گا:
د ہندوستان د تباہی پہ خیال کی ورک لیونی
پہ خپل وطن کی سرہ اورونہ بلوی لگیادی
ہلتہ کی لاس بہ ئی یا رسی او یا نہ بہ رسی
خو خپل وطن راتہ ٹوٹی ٹوٹی کوی لگیا دی

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں