روح الامین نایابکالم

بس کافرو تہ می بوزئی(تبصرہ)

کچھ عرصہ پہلے علی خان اُمیدؔ نے یہ غزل مترنم انداز سے خپل کور ماڈل سکول میں سنائی، تو پورے حال کو اپنی آواز کے سحر میں جکڑ لیا۔ غزل سنانے کے دوران میں اُسے بار بار دل کھول کر داد ملتی رہی۔ غزل سنانے کے بعد پورے حال نے کھڑی ہوکر تالیوں کی گونج میں اُسے خراجِ تحسین پیش کیا۔ خوبصورت کلام اور طرزِ بیاں نے ایک سماں باندھ لیا۔ اُس کی مترنم غزل نے ہر چھوٹے بڑے کو متاثر کیا اور علی خان اُمیدؔ نے عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے جگہ بنالی۔
”بس کافرو تہ می بوزیئ“ کا مطلب یہ ہے کہ بس اب مجھے کافروں کے وطن میں لے چلو۔ کیوں کہ علی خان اُمید یہاں کے نظام، یہاں کے کے رسم و رواج سے نا اُمید ہوچکا ہے۔ یہاں کی فضاؤں میں پرایا پن ہے۔ یہاں اسلام کے نام پر سلامتی نہیں۔ یہاں سچ کو جھوٹ کے پردے میں چھپایا گیا ہے۔ یہاں زندگی کو مایوسی سے شکست دی جاچکی ہے۔
قارئین، مذکورہ یادگار غزل میں طنز بھی ہے، فریاد بھی ہے، لیکن پوری غزل پر ایک مزاحمتی رنگ چڑھا ہوا ہے۔ بقولِ فضل ربی راہیؔ صاحب کہ ”علی خان اُمید کی شاعری میں جو خاصیت نظر آرہی ہے، وہ اُس میں مزاحمتی رنگ ہے۔ پختون جو اس وقت اپنی زمین پر بدامنی کا سامنا کررہے ہیں اور بعض ریاستی اور غیر ریاستی قوتوں نے جس طرح ان کی روایات اور تاریخ کے پُرامن چہرے کو مسخ کردیا ہے، تو اُس کے رد عمل میں پشتون شعرا مزاحمتی شاعری کو تخلیق کررہے ہیں۔ علی خان اُمیدؔ نے بھی اپنی قوم اور اپنے علاقے کے بدترین حالات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ کیوں کہ وہ بھی اس لہو لہو سرزمین کا جوان خون ہے۔
336 خوبصورت، سفید اور ملائم صفحات پر مشتمل مجلد علی خان اُمیدؔ کا یہ شعری مجموعہ ہمیشہ کی طرح شعیب سنز پبلشر نے شائع کیا ہے۔ لہٰذا کتاب کے ڈیزائن اور ترتیب تدوین میں کوئی بات کرنے یا نقص نکالنے کی گنجائش نہیں۔ کیوں کہ فضل ربی راہیؔ صاحب اس بارے میں اگر چہ دیر سویر کرتے ہیں، مگر معیار پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ وہ کتاب پر خوب محنت اور کوشش کرکے اُسے ہر زاویے سے لاجواب بنادیتے ہیں۔
علی خان اُمیدؔ خود نوجوان ہے۔ لہٰذا اُسے موجودہ جوان نسل کا نمائندہ شاعر کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس عمر میں وہ خود تو سنجیدہ ہے، لیکن اُس کی شاعری بھی سنجیدگی سے مقصدیت اور شعوریت کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ وہ خود اقرار کرتا ہے کہ ”میرا یہ بنیادی حق بنتا ہے کہ مَیں صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہہ دوں۔“ یہی وجہ ہے کہ اُس کی شاعری میں اُس کی ذات اور ادب کے صنف کے علاوہ اُن ذمہ دار لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو اس معاشرے اور وطن کے اہم عہدوں پر براجمان ہیں، جن کے ساتھ اس قوم، وطن اور عوام کا مستقبل وابستہ ہے۔ دراصل علی خان اُمیدؔ نے اپنی انفرادی خواہشات اور ارمانوں کو اجتماعی فکر اور خواہشات پر قربان کردیا ہے۔ بچپن سے اُس کی فطرت میں حسن پرستی کے ساتھ، قوم پرستی، انسان دوستی اور مخلوق دوستی رچی ہوئی ہے۔ وہ خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہے۔ اُس کا دل ہر قسم کے فرقہ ورانہ زہر اور مذہبی تنگ نظری سے پاک ہے۔ وہ انسانیت پر یقین رکھتا ہے اور مخلوقِ خدا سے یکساں محبت پر ایمان رکھتا ہے۔ اُس نے اپنی اس کتاب کو مخلوقِ خدا کے نام کیا ہے۔ اس بارے میں وہ کیا خوب کہتے ہیں:
د مذہب د نشیانو د نشی نہ می توبہ دہ
زما لاس کی د خود جام دے بس کافرو تہ می بوزیئ
لیونے شوم لیونے شوم یارہ ستا مسلمانئی تہ
زما لس لویشتی سلام دے بس کافرو تہ می بوزیئ
علی خان اُمیدؔ نے شاعری خودی میں ڈوب کر کی ہے۔ اُس کی شاعری میں اگر ایک طرف گہرائی ہے، تو دوسری جانب سادہ اور عام فہم زبان قاری کو بور اور کنفیوژ نہیں کرتی۔ وہ فطرتی شاعر ہے۔ اُسے شاعری کے رموز کی پہچان ہے۔ اُسے شعر کے قافیے، ردیف اور الفاظ کے استعمال پر خوب گرفت ہے۔ اُس کی شاعری میں سودا بازی، سمجھوتا نہیں بلکہ کھرا پن ہے۔ اُس نے بے دھڑک، بے خوف اور جارحانہ انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
پہ سپین سحر پہ تور ماخام کیگی
سومرہ ظلمونہ می پہ قام کیگی
پہ پختونخوا د ماتمونو جنڈی
دلتہ قلتونہ سرِ عام کیگی
گورنمنٹ جہانزیب کالج سوات کے شعبہئ پشتو کے چیئرمین، شاعر اور ادیب پروفیسر عطاء الرحمان عطا صاحب، علی خان اُمید کی شاعری اور خاص نظموں کے بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہیں۔:”بس کافرو تہ می بوزیئ“ او ”زہ د دی خاورے حلالی بچے یم“ ایسی نظمیں ہیں جو علی خان اُمیدؔ کی فکر کی ترجمانی کرتی ہیں۔ اُس کی پہچان اور شہرت کا سبب بھی ہیں۔ علی خان اُمیدؔ کی شاعری کے اسلوب میں نیا پن بھی ہے اور موضوعات کا انتخاب بھی قابلِ ستائش ہے۔ اُس کی شاعری میں ترقی پسندی اور جدیت کا واضح رنگ جھلک رہا ہے۔
چی بلے ڈیوے چا د رنڑاگانو گرزولے
فتوے د دار ھغو پسی قاضیانو گرزولے
چی تورے سترگے نہ وینمہ راز د ھغے دا دے
د زہرو پونڑیئ دلتہ بنجاریانو گرزولے
اسلوب کے بارے میں، مَیں عطاء صاحب کے خیالات سے متفق ہوں۔ کیوں کہ جس شاعر کا اپنا الگ اسلوب نہیں ہوتا، وہ شاعر کہلانے کا حق دار نہیں ہوتا۔ اس بارے میں علی خان اُمید نمبر لے گئے ہیں۔ اس نے اپنے بعض اشعار میں پورے پختون تاریخ کو سمویا ہے جیسے یہ ایک شعر ملاحظہ کریں:
ھغہ ہم د کربلا نہ کمہ نہ وہ
الغ بیگ چے یوسفزی سنگسارول
ہمارے دوست وکیل اور مشہور شاعر فیض علی خان فیضؔ، اُمیدؔ کو نئی نسل کا نمائندہ شاعر قرار دیتے ہیں اور اُس کی شاعری کو گذشتہ کل کا قصہ، آج کی آواز اور آنے والے کل کا پیغام کہتے ہیں۔
علی خان اُمیدؔ کے اس شعری مجموعے میں غزلوں کی بہار ہے۔ یہ چند قطعات سے بھی آراستہ ہے جب کہ آخر میں ”زہ د دی خاورے حلالی بچے یم“ نامی نظم لا جواب، بے مثال اور ہر لحاظ سے کمال کی نظم ہے۔ اُس نظم میں پختونوں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ پختون راہنماؤں کا ذکر جس احترام سے اور موزوں الفاظ سے کیا گیا ہے، وہ پوری پختون قوم پر ایک طرح سے احسان ہے۔میرے ساتھ داد دینے کو الفاظ نہیں۔
یہ کتاب مناسب قیمت پر ہر ایک سٹال کے علاوہ ”شعیب سنز پبلشر اینڈ بک سیلرز“ جی ٹی روڈ مینگورہ میں ہر وقت دستیاب ہے۔ میں اس خوبصورت شعری مجموعے پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے علی خان اُمید کو مبارک باد دیتا ہوں اور ساتھ مشکور و ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنی کتاب مجھے تحفتاً دی۔ کتاب کا ہر غزل، ہر شعر سنہرے الفاظ میں لکھنے کے قابل ہے۔آخر میں کتاب سے ایک غزل لکھ کر اجازت چاہوں گا۔
د یو بل مشت و گریوان دی د ادب د لار سڑی
دا پہ کومہ لار روان دی د ادب د لار سڑی
دوی بہ چا لہ شعور ورکڑی، دوی بہ چا لہ پوھہ ورکڑی
پوھہ پوھہ ناپوھان دی، د ادب د لار سڑی
تہ ادنا ئے زہئ اعلیٰ یم، زہ اعلیٰ یم تہ ادنا ئے
د اَنا پہ لار روان دی، د ادب د لار سڑی
حسد، بغض او کینہ ئی پہ زڑہ ذہن سوارہ کڑی
پہ یو بل پسے گویان دی، د ادب د لار سڑی
عکاسی کووم عکاس یم زہ د دغہ بنڑ لرگے یم
زما ہم سو اشنایان دی، د ادب د لار سڑی

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں