روح الامین نایاب

د مشال پلوشے

پٹ پہ ایرو کی مونگہ لال ایخے دے
چی پہ تیرو کی مو مشال ایخے دے
یعنی ہم نے راکھ میں لعل کو چھپادیا ہے، جیسے اندھیروں میں مشال رکھ دیا ہو۔
قارئین کرام! ”د مشال پلوشے“ یعنی مشال کی کرنیں وہ کتاب ہے جو حال ہی میں ”مشال پختو ادبی ٹولنہ“ کی طرف سے حمید الرحمان ہمدردؔ نے مشال تنظیم کی پوری تاریخ اس کتاب میں سمو دی ہے۔ یہ اس لحاظ سے ایک انوکھی کوشش ہے کہ پہلی بار پشتو کی ایک ادبی تنظیم کی طرف سے اس کی پوری تاریخ لکھی گئی ہے۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ ہر ادبی تنظیم کی طرف سے ایسا مثبت تجزیہ ضرور ہونا چاہیے، تاکہ ایک تنظیم کی ادبی جدوجہد کا پورا ریکارڈ تحریری طور پر موجود ہو، جس پر ارکان فخر کرسکیں اور ساتھ پچھلے تجربات سے کچھ سیکھ سکیں۔ ”مشال ادبی ٹولنہ“ کے صدر وکیل حکیم زئی اس بارے میں خود فرماتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ اپنی شخصیت کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، اور ساتھ اپنی جدوجہد، حادثات و واقعات وغیرہ کی یادداشت رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ آنے والی نسلیں اپنی تاریخ اور جدوجہد سے باخبر رہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہوگیا تھا کہ ”مشال پشتو ادبی اور ثقافتی ٹولنہ“ اور ”سوات ادبی تڑون ملگرو“ کا ذکر پوری تفصیل سے لکھا جائے۔ ان ادبی تنظیموں میں بہت اچھے شاعر اور قابلِ لوگ شامل ہیں۔ ان باذوق حضرات کی ادبی کوششوں سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری تھا۔
اس حوالے سے مشال ٹولنہ کے بانی رکن اور سابق صدر محمد ایوب ہاشمی صاحب یوں فرماتے ہیں کہ ”ایک شاعر لازمی طور پر ایک باشعور انسان ہوتا ہے اور اُس سے ایک اچھے، ہمدرد اور مخلوقِ خدا سے محبت کرنے والے انسان کی توقع کی جاتی ہے۔ لہٰذا قریہ قریہ ایسے حساس لوگوں کی تلاش شروع ہوگئی، اور تھوڑے ہی عرصے میں اچھے خاصے ساتھی مل گئے، جو آج شعر و ادب کے آسمان کے چمکتے ستارے ہیں۔“
چکیسر کے شریف اللہ شریفؔ اس کتاب کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں: ”میرے خیال میں یہ کتاب پشتو ادب کی تاریخ میں اپنے ایک خاص مقام کی حامل ہے۔ کیوں کہ حمید الرحمان ہمدرد صاحب نے اس کتاب میں مشال پشتو ادبی اور ثقافتی ٹولنہ سے پہلے اور بعد کی پوری تاریخ تحریر کی ہے، اور علاقے کے ادبی پس منظر، جد و جہد اور کوششوں پر پوری تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔“
ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی جو مشال پشتو ادبی ٹولنہ کے روح رواں ہیں، اور بانی ارکان میں سے ہیں، وہ اس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”مشال ادبی ٹولنہ کی تاریخ مکمل طور پر محفوظ ہوگئی ہے۔ اس تاریخ میں روداد بھی ہے اور تحقیق بھی۔ یوں ہر ساتھی اور کارکن کا کردار باعثِ فخر ہے۔“
اس یادگار کتاب کے مصنف اور مشال پختو ادبی اور ثقافتی ٹولنہ کے سینئر نائب صدر حمید الرحمان ہمدردؔ خود اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ”مشال پشتو ادبی ثقافتی ٹولنہ کے بنانے اور قیام کا مقصد پشتو زبان اور پشتو ادب کی منظم طور پر خدمت کرنا ہے۔ شاعروں اور ادیبوں کی خدمات اجتماعی طور پر آشکارا ہوں، اور بہتر مثبت نتائج دے سکیں۔ تنقیدی اور تحقیقی اجلاس منعقد ہوں، مشاعروں اور مذاکروں کا انعقاد ہو، تاکہ ایک اعلیٰ ادب کی تخلیق ہوسکے، جو وقت کے تقاضوں پر پورا اتر سکے۔“
قارئین کرام! 7 مئی 2006ء کو سید محمد ایوب ہاشمی کے حجرے میں علاقے کے شاعروں اور ادیبوں کا ایک تاریخی اجلاس ہوا، اس میں مشال پشتو ادبی ثقافتی ٹولنہ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس یادگار اجلاس میں وکیل حکیم زئی، بدرالحکیم حکیم زئی، حکیم اللہ بریالے، علی اکبر سواتی، حمید الرحمان ہمدرد، ڈاکٹر ظاہر شاہ، فضل کریم افگار، سالار یوسف زئی، میاں علی نواب پریشاں، اسد اللہ غالب، میاں دیر نواب شاہین، ہدایت اللہ قاضی، سید ناصر علی شاہ، عبید اللہ عبید، جمال شاہ جمال، محمد شاہ روغانے، عبدالرحیم روغانے اور میاں سید عزیز حسرت نے شرکت کی۔ بعد میں بدرالحکیم حکیم زئی کی تجویز پر اس ٹولنے کا نام ”مشال پشتو ادبی ثقافتی ٹولنہ“ رکھ دیا گیا۔ اس تنظیم کے پہلے صدر جناب سید محمد ایوب ہاشمی کو بنایا گیا۔ جنرل سیکرٹری کے لیے میاں سید عزیز حسرت کا انتخاب کیا گیا۔ سرپرستِ اعلیٰ کا اعزاز ڈاکٹر ظاہر شاہ ظاہر کے حصے میں آیا، جب کہ اسد اللہ غالب کو جائنٹ سیکرٹری اول اور عبید اللہ عبید کو جائنٹ سیکرٹری دوم منتخب کیا گیا۔
قارئین کرام! خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہر سال باقاعدہ جمہوری تسلسل کو بر قرار رکھتے ہوئے کابینہ کے انتخابات ہوتے رہے ہیں، جو اس تنظیم کی جمہوری سوچ اور انداز کی ایک بہترین مثال ہے۔ مشال پشتو ادبی تنظیم میں وسعت قلبی کا ایک مثبت رجحان ہے، جو دوسری تمام ادبی تنظیموں سے ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار رہتی ہے۔ ٹولنہ کے بنیادی مقاصد میں پشتو زبان اور پشتو ادب کی ترویج اور دوسری تمام ادبی تنظیموں سے رابطے شامل ہیں۔ مشال نے باقاعدہ ہر سال زبانوں کا بین الاقوامی دن جلسے، جلوس کرکے منایا ہے۔ مشاعروں کے ساتھ ساتھ ادبی تنقیدی نشستوں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مشال پشتو ادبی ٹولنے کی طرف سے نظم و نثر میں مختلف موضوعات پر ابھی تک تقریباً آٹھ عدد کتابیں شائع کی ہیں، جو کہ ایک اعزاز ہے۔ اس تنظیم میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی (پروفیسر باچا خان یونیورسٹی)، مشہور دانشور، ادیب، ناول نگار جناب خیر الحکیم حکیم زئی، شاعر، سماجی کارکن اور تجربہ کار شخصیت جناب محمد ایوب ہاشمی جیسے قابل اور ذہین لوگ شامل ہیں۔
مشال پشتو ادبی تنظیم مختلف شعرا کی نئے شائع شدہ کتب کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام بھی وقتاً فوقتاً کرتی رہتی ہے۔ ان سے درخواست ہے کہ مشاعروں کے ساتھ ساتھ نثری نشستوں کا بھی اہتمام کیا کریں۔
حمید الرحمان ہمدرد کی یہ کوشش قابلِ تحسین ہے۔ اُس نے مشال پشتو ادبی ثقافتی ٹولنہ کی پوری تاریخ درجہ بہ درجہ تسلسل کے ساتھ لکھ کر ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ میں اُسے اس تاریخی کتاب پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں۔ اُس نے کمال یہ کیا ہے کہ اپنی تنظیم کی تاریخ لکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے دوسری تنظیموں کا بھی تعارف تحریر کیا ہے۔ اس حوالہ سے اس نے کسی قسم کی تنگ دلی اور کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ آخر میں سوات کی تمام ادبی تنظیموں سے درخواست ہے کہ وہ سب بھی اس تجربے سے استفادہ کریں، اور اپنی تنظیمی جدوجہد کی تاریخ ریکارڈ کریں۔ اس شعرکے ساتھ اجازت:
دَ پختو ناوی دی زنگیگی پکی
ہمدرد پہ زڑہ کی ورتہ ٹال ایخے دے

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں