ساجد ابوتلتانکالم

لوریاں، لوک رسوم اور سماجی تفریق

اگر ہم کسی علاقے کی ثقافت کو خیمہ تصور کریں، تو خیمے کے رکھوالے کو ضرور سماجی بندھنوں کا استاد مانیں گے۔ کیوں کہ وہ روایات اور ثقافت کی طنابیں کھینچنے میں رواج کا بھر پور زور لگاتا ہے۔ جبھی تو اس خیام کو اپنا خیمہ پیارا لگتا ہے، خواہ اس میں سماجی تفریق ہی کیوں نہ ہو۔
انسانی وجود کا عالمِ خاک میں ظہور کیا ہوا کہ سماجی بندھنوں کی ایسی لڑی بندھتی گئی کہ جس میں منتشر افراد ایک ہی معاشرتی سلسلے سے منسلک ہوگئے، جسے ریت و رسم کے ریشوں سے بنی ڈوری نے ثقافتی اقدار سے مزید مستحکم کیا۔ رسومات کا سلسلہ بچے کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے۔ مثلاً ہندوستان، جو رسومات کا گڑھ ہے، وہاں ایک رسم ”چاب“ مشہور ہے، جس میں بچہ پیدا ہونے پر عزیز و اقارب کی عورتیں گانا گاتی پوتڑے (شیر خوار بچوں کی رانوں میں باندھنے کا تکونی کپڑا جو پیشاب یا پاخانے کے بعد تبدیل کیا جاسکتا ہے)، لے کر آتی ہیں۔ لیکن ہمارا موضوع پشتون بچوں سے متعلق ہیں۔ یہاں ماضی میں بچے کی پیدائش کی خبر دینے بچے کے رشتہ داروں کے پاس نائی جاتا، دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر دمامہ بجاتا اور بچے کی پیدائش کا اعلان کرتا۔ لوگ حسبِ توفیق روپے پیسے دیتے۔ رشتہ دار مبارک باد دینے جاتے۔ کچھ چراغ مزاروں پر چڑھائے جاتے۔ ننھیال والے تحفے تحفے تحائف، کپڑے، دیسی گھی، مرغ اور کان ڈھانکنے والی ٹوپی جس پر سونے کا ٹیکا لگتا، وغیرہ پہنچاتے۔ گھر میں ایک قسم کے جشن کا سماں ہوتا۔ ادھر بچہ جننے والی ماں کی قدر دانی بھی کی جاتی۔ خواتین اس کی انگلی میں تار باندھتیں تاکہ وہ ان کی خاطر اچھا خواب دیکھ سکیں۔
قارئین! آپ کو معلوم ہے، بچہ چسر چسر کرکے چسنی سے پیتا ہے۔ بہتر کفالت کی بدولت اس کا جھپٹنا ہمہ وقت تغیر پذیر رہتا ہے۔ ہر چند بچہ ” ”اوڑھنی، سیزنی“ میں بندھا رہتا ہے۔ اس کے اعضا میں طاقت آنا ایک فطری عمل ہے۔ اسے چسنی سے پلایا جاتا ہے۔ وہ لیٹے لیٹے ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ جب پشت سے لگے اُکتا جاتا ہے، تو کروٹ بدلتا ہے۔ بچہ گر نہ جائے اس لیے ماں اسے کھٹولے پر سلاتی ہے۔ وہ کام میں مشغول رہتی ہے، مگر بچے کو اپنی نگرانی میں رکھتی ہے۔ کبھی پاس آکر بچے سے لبھانے والی باتیں شروع کرتی ہے۔ایسے میں وہ بچے کے چوچلے باز ہونے پر نثار ہوجاتی ہے۔ وہ صرف اسے پیارے ناموں سے نہیں پکارتی بلکہ فرطِ محبت سے بوسے بازی بھی کرتی ہے، اور انگلیاں بھی چٹخاتی ہے۔ الغرض وہ بچے کو گود میں اٹھاتی ہے۔ ہاتھوں میں اچھالتی ہے اور کبھی کبھار تو اپنی پیٹھ کی سواری بھی کراتی ہے۔ پروردگار! ماں کو کس قدر سر چشمہ بنایا ہے۔ جبھی تو یہ کہاوت مشہور ہے: ”بچے کی ماں، بوڑھے کی جورو سلامت رہے!“ لیکن ماں بے چاری ہروقت بچے کے پاس نہیں رہ سکتی۔ کیوں کہ اسے گھر بار کا کام کرنا ہوتا ہے۔ اسی اثنا میں بچہ ادھر ادھر کھیلتا رہتا ہے۔ نئی پود کا کمزور بدن آرام اور نیند کو مائل رہتا ہے۔ اس لیے تھک کر رونے لگتا ہے۔ آخر ماں، ماں ہوتی ہے، فوراْ پاس آکر بولتی ہے:
تور دے بچے تور دے
د مور نہ ئی زڑہ تور دے
لرے لرے گرزی
بچے بیا د خپلے مور دے
کہتے ہیں، جھولا بچے کی دوسری ماں ہے۔ اس لیے اکثر بچے جھولے میں سوتے رہتے ہیں۔ پشتو کا یہ شعر گویا ایک ماں کے دل کی آواز ہے:
پہ دی خوارہ جونگڑہ کی گوڈیئ شتہ نہ زانگو شتہ
زما سرہ بچیہ یوہ تشہ اللہ ہو شتہ
جب بچہ بچکانہ حرکتیں اور طفلانہ باتیں شروع کرتا ہے۔ اس وقت جب کوئی بندہ سیٹی بجاتا ہے، تو یہ چونک جاتا ہے۔ ایسے میں ماں پاس آکر کہتی ہے:
چاچئی وہلے نہ شی
ککوڑے بہ ور نکڑمہ
اس کے بعد چند روز میں وہ قدم اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ چارپائی کے سہارے کھڑا ہوجاتا ہے۔ پھر چارپائی پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ پیر ہلاتا ہے اور چلنے کی مشق شروع کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ کسی چیز کا سہارا لیے بغیر قدم اٹھاتا ہے۔ اُسی لمحے ماں آکر کہتی ہے۔
پاپلے پاپلے پل واخلہ
پل دی بختور شہ پسے بل واخلہ
گھر والے روغنی ٹکیہ پکاتے ہیں اور اڑوس پڑوس میں تقسیم کرتے ہیں۔
اس موقعہ پر مغلوں کا رواج ہم سے مختلف تھا۔ بچہ جب چلنے لگتا، تو خاندان کا بزرگ اسے پگڑی سے نشانہ بناکر مارتا۔ جیسے جلال الدین اکبر کہتے ہیں: ”مجھے وہ لمحہ یاد ہے جب چچا جان نے مجھے دستار سے تاڑ کر مارا تھا!“ (دربارِ اکبری)
اس کے بعد ختنے کی رسم شروع ہوتی۔ عام طور پر بڑے لڑکوں کا ختنہ کیا جاتا تھا۔ بچے کے ختنے پر جشن کا سماں بندھ جاتا۔ جانور ذبح کیا جاتا، دوست احباب اور رشتہ دار مبارک باد دینے آتے۔ گھر میں خواتین ناچتیں، جب کہ حجرے میں بھی ناچ گانے کا بندوبست کیا جاتا۔
وکیل حکیم زے صاحب کہتے ہیں: ”نائی کو کپڑا، پیالہ، سلور، بستر، تکیہ اور رضائی وغیرہ سامان پیسوں سمیت مل جاتا تھا۔بچے کو بھی میوہ کے ساتھ ساتھ روپیوں کے ہار پہنائے جاتے تھے۔“
محولہ بالا تمام رسمیں لڑکوں سے متعلق تھیں۔ راقم الحروف کے بچپن میں اگرچہ یہ رسمیں موجود تھیں، لیکن بوجوہ اس سے محروم رہا۔ ایک تو راقمباپ کا ساتواں بیٹا تھا جسے نظرِ بد سے بچانے کی خاطر داری نے دو سال تک دوسرے لوگوں کو نہ دکھایا۔ دوم راقم ہٹا کٹا تھا۔ اس لیے لڑکا ہونا ظاہر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جب ختنے کا عمل بھی خاموشی سے طے ہوا، تو برسوں تک ماں کو ملال رہا۔
قارئین، پدرسری معاشروں میں ایسی رسمیں لڑکوں کے گرد گھومتی ہیں۔ کیوں کہ لڑکیوں کی پرورش ایسے ماحول میں ہوجاتی ہے، جہاں وہ مستقل سماجی تفریق کا شکار رہتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لڑکی روایتی سلوک کی حق دار، بھائی کے کھانے پینے سے جلنے والی اور خاندانی عزت و ناموس کی امین سمجھی جاتی ہے۔ جب کہ لڑکا ساری توجہ کا مرکز، عظیم الشان مخلوق اور شیر شاہ سوری کا بیٹا سمجھا جاتا ہے۔
کشور ناہید کی کتاب میں ڈاکٹر صبیحہ حفیظ کا مقالہ بعنوان ”لوریاں، لوک رسوم اور سماجی تفریق“ میں لکھتی ہیں: ”86 لوریوں میں سے 65 میں صرف لڑکوں کا حوالہ ہے۔ 17 میں کسی جنسی کا ذکر نہیں ہے۔“
بس صرف چار لوریاں لڑکیوں سے متعلق ہیں، اور سب اس لیے ہیں، کہ لڑکوں کے خواب جاگیردارانہ اور معاشرے کے خواب ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں