روح الامین نایابکالم

چاپیرہ اور بلیگی (تبصرہ)

اس سے پہلے کہ لالکو کے نوجوان شاعر کے اس نئے پشتو شعری مجموعے پر تبصرہ کیا جائے، اُس سفر اور شخصیت کا مختصر جائزہ لینا مناسب ہوگا جس کے طفیل ہماری اس نوجوان شاعر سے ملاقات ممکن ہوئی۔ شاہستہ سخرہ کے واحد زمان خان جو ”رونڑ سحر ادبی ٹولنہ“ کے صدر ہیں کی بار بار دعوت دینے پر مَیں اور تصدیق اقبال بابو صاحب 29 اکتوبر بروزِ منگل کو بوقتِ ظہر اُس کے دولت خانے پر حاضر ہوگئے۔ واحد زمان خان ایک اُستاد ہیں، شاعر ہیں لیکن سب سے زیادہ ایک محبت والے اور مہربان شخصیت کے مالک ہیں۔ ہمارا استقبال خندہ پیشانی اور مسکراہٹوں سے کیا گیا۔ ہم نے ایک مہینا پہلے اُس کے ادبی ٹولنہ کے پروگرام میں شرکت نہ کرنے کی معذرت کی تھی۔ کیوں کہ اُس نے بہت چاہت سے دعوت دی تھی، لیکن میری بیماری کی وجہ سے ہم عین وقت پر شرکت نہ کرسکے، جس کا ہمیں بہت افسوس ہوا تھا، اور آج اُس پر معذرت کرنے اور اِزالے کے لیے میں اور بابو صاحب اُس کے در پر حاضر ہوچکے تھے۔ وہ ایک مجسم اخلاق انسان ہیں۔ ملنساری اور مہمان نوازی اُس میں کھوٹ کھوٹ کر بھری ہے۔ خوب گپ شپ لگی۔ مختلف موضوعات پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ اُس کے مطالعے اور کتابوں کا انتخاب اعلیٰ معیار کا ہے۔ پُرتکلف کھانے کے بعد واحد زمان صاحب ہمیں اپنی گاڑی میں سیر و سیاحت کے لیے لے گئے۔ ہمیں اس علاقے کے دیکھنے کا پہلی بار اتفاق ہوا تھا۔ یہ بہت خوبصورت پہاڑی اور سرسبز علاقہ ہے۔ شاہراہیں اور سڑکیں سیمنٹ اور تارکول سے پختہ ہوچکی ہیں، جو نئے وزیراعلیٰ محمود خان کی مرہونِ منت ہیں۔ کوز لالکو سے ہوکر ہم بر لالکو کی شاہراہ پر آگئے۔ ایک خوبصورت پل کراس کرکے ہم ایک بڑی اور کشادہ شاہراہ پر آگئے۔ یہ وہی شاہراہ ہے جو مشہور سیاحتی مقام گبین جبہ کو جاتی ہے۔ اُس پر کام تیزی سے جاری ہے۔ یہاں ایک ندی کنارے خوبصورت کھلی شاہراہ پر ہماری ملاقات ایک نئے نوجوان شاعر گل داؤد لالکو ال سے کرائی گئی، جو سعودی عرب میں محنت مزدوری کر رہے ہیں اور ابھی ایک ہفتہ ہوا چھٹی پر وطن آئے ہوئے ہیں۔ گل داؤد، واحد زمان کے دوست اور ادبی ساتھی ہیں اور اُس کے ”رونڑ سحر ادبی ٹولنہ“ کے رکن ہیں۔ گل داؤد ایک نوجوان اور خوبصورت انسان ہیں۔ وہ ہم سے ملنے کے لیے دور پہاڑوں سے پیدل سڑک تک آئے تھے۔ اُس نے وہاں بھی ہماری مہمان نوازی کی اور پُرتکلف چائے پلائی۔ واحد زمان کے ذریعے گل داؤد نے اپنے پشتو کے دو شعری مجموعے ”اوخکی پہ لیمو کے“ اور ”چاپیرہ اور بلیگی“ ہمیں تحفتاً عنایت کیے۔ گل داؤد نے وہاں ہمیں ہماری فرمائش پر ایک غزل بھی سنائی جس میں ”سو کالہ مخکی“ سوات کے ماضی کی حسین یادوں کا ذکر بہت دردناک انداز سے کیا گیا تھا۔ اس غزل کی خاص بات یہ تھی کہ شعر کے دونوں مصرعوں کے قافیے اور ردیف کمال کے ملے ہوئے تھے۔
”چاپیرہ اور بلیگی“ یعنی چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ ایک خوبصورت، جاذب نظر پشتو شعری مجموعہ ہے۔ گل داؤد ایک حساس دل کے مالک ہیں۔ شعر میں پختگی کے ساتھ ساتھ نازک خیالی بھی ہے۔ قوم پرستی اور وطن دوستی سے آشعار میں رنگ آمیزی ہوچکی ہے۔ مجھے تو حیرانی بھی ہوئی، اور از حد خوشی بھی کہ ان دور دراز پہاڑوں کے دامن میں ایسا نوجوان حساس شاعر بھی موجود ہے، جو پختونوں کا درد و غم اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، اور دل کے نہاں خانوں میں اُسے بھر پور جگہ دی ہوئی ہے۔ ذرا یہ شعر ملاحظہ کریں:
یو خوا د ٹال پڑی شوکیگی بل خوا خاخ ماتیگی
د بیری ونہ سوزی نن پہ بیرہ اور بلیگی
بیلتون ظالم راتہ روغ زائے د دیدن پاتی نہ کڑو
یو بل لیدے نہ شو افسوس چاپیرہ اور بلیگی
”رونڑ سحر ادبی ٹولنہ“ کے صدر اور ہمارے میزبان دوست واحد زمان زمان، گل داؤد کے شاعری کے بارے میں فرماتے ہوئے گل داؤد کو صرف اچھا شاعر نہیں بلکہ اپنا اچھا دوست بھی قرار دیتے ہیں۔ اُسے ایک اچھا انسان اور وفادار بھائی مانتے ہیں۔ اُس کی شاعری کو حساس دل کی آواز مانتے ہیں۔
گل داؤد اپنی شاعری میں اپنے وطن اور ارد گرد ماحول کی دردناک حالت پر غم زدہ ہے۔ اُس کی شاعری حالات کی مکمل ترجمانی کرتی ہے۔ اُس کی شاعری میں لمبی سیاہ زلفوں، قاتل آنکھوں، سرخ لبوں کا ذکر نہیں بلکہ پوری شاعری میں قومی مسائل، عوامی درد اور غریبوں کی آہ و زاری سموئی ہوئی ہے۔
مشہور شاعر محمد الیاس ثاقبؔ، گل داؤد کے شاعری کے بارے میں اپنے تمہیدی تعارف میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں کہ ”گل داؤد ایک پختون احساس رکھتے ہیں۔ وہ زندہ ضمیر کے مالک ہیں۔ پختون قوم کے درد میں درد مند اور غموں کا غم خوار، وہ جنگ سے نفرت کرتے ہیں اور امن سے پیار۔ اُنہوں نے شاعری میں غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ پختونوں کی بے اتفاقی اور لاچاری کا غم بھی رویا ہے۔“
گودری ورانی، حجرے شڑی شوے زمونگ د وطن
زکہ پہ زڑونو کے یو خس خوشحالئی پاتی نہ شوی
اوس پیغلی نہ کوی سنگار زلمی ڈولونہ نہ کڑی
اوس اخترونہ بی مزی شو، سیالئی پاتی نہ شوی
برہ درشخیلہ کے صاحب زادہ اسلم زیب اپنے تعارفی دیباچہ میں گل داؤد کے بارے میں کچھ اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں کہ ”گل داؤد ایک نازک خیال اور حساس شاعر ہے۔ اپنی زبان، اپنی مٹی اور قام سے محبت کرتے ہیں۔ اُن کے اشعار سادہ اور بے باک ہیں۔ وہ ہر قسم کے لحاظ اور پابندیوں سے مبرا ہیں۔ ذرا یہ اشعار ملاحظہ کریں۔
سو چی مونگ پُرامن پُرسکون نہ یو
ھسی د خکلا پہ سپرلی سہ کووم
گل گل ماشومان می پکی قتل شو
اور شوہ پختونخوا پہ سپرلی سہ کووم
پختونخوا کے مشہور شاعر اور بابائے قطعہ عبدالرحیم روغانےؔ، گل داؤد لالکوال کی شاعری کے بارے میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں کہ ”شاعر نے پختونوں کے موجودہ دردناک حالات سے گہرا اثر قبول کیا ہے۔ اُسی اثر نے اُس کی شاعری میں ایک درد سمودیا ہے۔ اُس کی شاعری موجودہ صورت حال کی پوری عکاسی کرتی ہے۔ اُس کا دل انسانیت کے درد سے لبریز ہے۔
مرگ می قبول دے خو پختون یم سر ٹیٹی نہ منم
دلتہ دے ژوند کول سزا چاپیرہ اور بلیگی
عمرونہ تیر شو د قاتل پتہ اونہ لگیدہ
بس قتلوی مو بے گناہ چاپیرہ اور بلیگی
گل داؤد لالکوال پختونوں کے ماضی کی اچھی روایات کا ذکر بھی بہت دلدوز انداز سے کرتے ہیں۔ اُس پر ماضی پرستی کا گمان کیا جاسکتا ہے۔ ذرا یہ اشعار ملاحظہ کریں:
ھغہ حق گویہ مشران د خاورو لاندی شول ٹول
چی پہ انصاف بہ ئی د کلی فیصلے کولے
کچہ کوٹہ بہ سسیدہ مونگ لہ بہ خوب نہ راتلو
د بارانہ پہ شپہ بہ نیا راتہ قیصی کولے
گل داؤد، گاؤں کے خان سے شکوہ کررہے ہیں کہ
زما کچہ کوٹہ راساسی پہ ما
نہ کووم سوال، ماتہ باران معلوم دے
د غریب حق کے فیصلہ نہ کوی
ماتہ د دغہ کلی خان معلوم دے
گل داؤد کا یہ دوسرا شعری مجوعہ ہے۔ اس سے پہلے ایک مجموعہ ”اوخکی پہ لیمو کی“ شائع ہوچکا ہے۔ اُس کی شاعری بھی سوات کے درد ناک اور حسرت ناک حالات کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔ دونوں کتابیں مجلد ہیں۔ خوبصورت کاغذ، ترتیب و تدوین اور ایسا کیوں نہ ہو، دونوں کتابیں شعیب سنز پبلشرز سوات نے بہت اہتمام سے شائع کی ہیں۔ شعیب سنز کا ادارہ پبلشنگ کے حوالے سے اپنا ایک خاص نام و مقام رکھتا ہے۔ اس کی پبلش کردہ کتابوں کا اپنا ایک معیار ہوتا ہے، جس میں خامی یا کمی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ موجودہ کتابیں بھی اپنی خوبصورتی اور گٹ اَپ میں ثانی نہیں رکھتیں۔
مَیں ان دو شعری مجموعوں پر گل داؤد کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں، اور دعا کرتا ہوں کہ اُس کا زورِ قلم اور زیادہ ہو، بلاشبہ اُس کے ذکر شدہ دونوں شعری مجموعے پشتو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہیں۔ مَیں شکر گزار ہوں واحد زمان زمان کا کہ اُس نے یہ کتابیں ہمیں بطورِ تحفہ دیں اور ہمارے ساتھ اتنے اچھے شاعر کا تعارف کرادیا۔ 176 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت صرف دو سو روپیہ ہے، جو نہایت موزوں قیمت ہے۔ شعیب سنز پبلشر اینڈ بک سیلرز جی ٹی روڈ مینگورہ سے ہر وقت دستیاب ہے۔ ان اشعار کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ
زہئ جنتی ووم خو افسوس چی دوزخی ئی کڑمہ
درون پختون ووم بعضو سپکو پختنو پریخودم
اغیارہ شر یی راتہ جوڑ کڑو تہ د مینزہ لاڑی
زہ دی پہ خلہ کے د سنگرو او مورچو پریخودم

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں