فضل محمود روخانکالم

رنگ محلہ کا سوئی گیس مسئلہ اور ایم این اے سلیم الرحمان

فضل واحد اور اُن کے ساتھی گذشتہ چند سالوں سے مسلسل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ مینگورہ رنگ محلہ میں سوئی گیس کم پریشر کا مسئلہ حل ہو، لیکن یہ حل ہونے کا نام اس لیے نہیں لے رہا کہ یہ عوام کا مسئلہ ہے، خواص کا نہیں۔ عوام بے چارے خواص کو صرف ووٹ دینے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ یہی خواص جب اسمبلی میں قدم رکھتے ہیں، تو پھر بھول جاتے ہیں کہ ہم عوام کے نمائندے ہیں، اور ہمیں ان کے مسائل حل کرنے ہیں۔
رنگ محلہ مینگورہ کی آبادی تقریباً پچاس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ سوئی گیس کا یہ مسئلہ محکمانہ غلطی سے پیدا ہوا ہے۔ وہ یوں کہ جب مذکورہ محکمہ مینگورہ شہر کو سوئی گیس سپلائی لائن بچھا رہا تھا، تو اُس وقت چار انچ قطر کی بجائے سوا انچ پائپ لائن رنگ محلہ میں بچھائی گئی۔ جب کہ پرانا ڈاکخانہ روڈ محلہ چار باغیان کو دو انچ پائپ لائن دی گئی۔ پھر اسی لائن سے ایوب چرم مرچنٹ کے گھر کے سامنے سوا انچ پائپ لائن جوائنٹ کی گئی۔ یہ لائن محلہ ڈاکٹر سراج سے ہوتی ہوئی رنگ محلہ چوک تک کھدائی کے دوران میں 2004ء میں غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے بچھائی گئی۔اسی وجہ سے 2006ء سے سوئی گیس کے کم پریشر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا جو کہ اہلِ محلہ کے لیے عذابِ مسلسل ہے۔ سردیوں میں صبح چھے بجے سے رات بارہ بجے تک گیس غائب رہتی ہے۔ اس شکایت کو دور کرنے کے لیے اہلِ محلہ نے کافی دوڑ دھوپ کی مگر بے سود۔
قارئین کرام! جب نواز حکومت میں انجینئر امیر مقام صاحب مشیر اعلیٰ تھے، اور سوئی گیس اور محکمہ بجلی میں اُن کا حکم چلتا تھا، تو اہلِ محلہ نے اُن سے رابطہ قائم کیا۔مشیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ تو میرا پانچ منٹ کا کام ہے۔ اس کے لیے بلدیاتی انتخابات میں رنگ محلہ سے میرے نامزد امیدوار مراد کو جنرل کونسلر کے لیے کامیابی دلائیں۔ اہلِ محلہ نے مراد کو ووٹ دیا، لیکن وہ ہار گئے۔ نتیجتاً امیر مقام نے بھی مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔
قارئین، فضل واحد اور اُن کے ساتھیوں نے ایسا در نہیں جسے کھٹکھٹایا نہ ہو۔ عوامی نیشنل پارٹی کی جب صوبے میں حکومت تھی، تو سوئی گیس محکمے میں فاروق خان صاحب سب ایریا انچارج تھے۔ جب مذکورہ مسئلہ اُن کے سامنے پیش کیا گیا، تو انہوں نے اس کو حل کرنے کی ٹھان لی، لیکن اللہ کو منظور نہیں تھا۔ محکمے نے اُنہیں سوات سے کسی دوسرے علاقہ بھیج دیا۔
اس طرح سوات کی تحصیلِ بابوزئی میں ایک اسسٹنٹ کمشنر ”فرخ عتیق“نے 2013ء میں اس مسئلے کا نوٹس لیا۔ اُس وقت فضل حکیم (ایم پی اے صاحب) کو وہ ایک آنکھ نہ بھائے۔ نتیجتاً اُسے سوات سے کوہاٹ بھیج دیا گیا۔
باری ایم ایم اے کی آئی۔ اُس دورِ میں اہلِ رنگ محلہ نے اپنی شکایت ایم پی اے محمد امین صاحب کے گوش گزار کی۔ انہوں نے اُس وقت فرمایا کہ یہ کام بلدیہ مینگورہ کی سطح کا ہے۔ اس کے بعد جب ظفر الملک خان المعروف کاکی خان اس حلقے کے ایم این اے بنے، تو انہوں نے 2012ء کو رنگ محلہ کا سروے کرایا۔ ایک نقشہ بنوایا کہ اس مسئلے سے چھٹکارا حاصل ہو، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ پھر جب مراد سعید صاحب یہاں کے ایم این اے منتخب ہوئے، تو انہوں نے 2014ء کو اس مسئلے کو حل کرنا چاہا۔2014ء میں ایک بار پھر نقشہ بنوایا گیا۔ اُس وقت میراوس صاحب ایریا انچارج تھے۔ اب مراد سعید صاحب مرکز میں ایک اہم اور با اثر وزیر ہیں، لیکن مسئلہ جوں کا توں لاینحل پڑا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ امیر مقام صاحب نے 2017ء میں ایک اور نقشہ بنوایا، لیکن وہ بھی یہ کام نہ کرسکے۔ اگر چہ انہوں نے کہا تھا کہ میرا پانچ منٹ کا کام ہے۔ اکتوبر 2018ء کے پہلے ہفتے میں اہلِ محلہ نے موجودہ ایم این اے جناب سلیم الرحمان کو اپنی تکلیف سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی، لیکن تا حال 2020ء جنوری میں بھی یہ مسئلہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
قارئین، بات صرف4 انچ پائپ لائن (250 گز طویل)کی ہے، جس کو ڈاکخانہ روڈ کی چھے انچ لائن سے منسلک کرنا ہے۔ مگر کوئی مردِ میدا ن ہو، تو یہ مسئلہ حل ہو!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں