روح الامین نایابکالم

جنازے (تبصرہ)

”جنازے“ نامی پشتوکا نثری مجموعہ ہمارے مہربان دوست سید صابر شاہ صابرؔ کا قلمی کارنامہ ہے۔ اس کتاب میں مشہور سیاسی، ادبی اور فنکاروں کے آخری سفر یعنی جنازوں کا آنکھوں دیکھا حال لکھا گیا ہے۔ یہ اعزاز پہلی بار صابر شاہ صابرؔ کو جاتا ہے کہ انہوں نے اس انوکھی صنفِ ادب کو ایجاد کرکے ادبی حلقوں میں ایک کھلبلی مچا دی ہے۔
سید صابر شاہ صابرؔ جسے ہم پیار سے ”باچا جی“ بھی کہتے ہیں، ایک ملنسار اور مہمان نواز انسان ہے۔ اُس کے تعلقات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ غریب آباد تہکال بالا میں اُس کا دولت خانہ ”پختون کوٹ“ ہر وقت مہمانوں سے بھرا رہتا ہے۔ وہ خود اور اُس کے بچے مہمانوں کی خدمت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ وہ خود سادہ طبیعت کے انسان ہیں اور مہمان نوازی میں بھی سادگی اختیار کرتے ہیں، لیکن اس کی مہمان نوازی پیار اور خلوص سے بھرپور ہوتی ہے۔ وہ سکول کے زمانے سے شاعری کرتے تھے، اور اس حوالے سے آٹھویں نویں جماعت سے اپنے وقت کے مشہور و معروف ادیبوں اور شاعروں سے وابستہ رہے ہیں۔ اس کی پرورش اور تربیت ابتدا ہی سے اس کے گھر کے میں ہوئی ہے۔ یہ اس کی خوش قسمتی ہے یا پیار اور خلوص کی وجہ کہ وقت کے بڑے اور قابل لوگ ”باچا جی“ پر مہربان رہے ہیں۔ وہ اگر چہ ادب، دولت اور شہرت میں باچا جی سے بڑے اور اہم ہوتے تھے، لیکن اُس کی خدمت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔
”جنازے“ میں جن شخصیات کے جنازوں کا آنکھوں دیکھا حال باچاجی نے بیان کیا ہے، وہ کوئی معمولی شخصیات نہیں بلکہ سیاسی، ادبی اور سماجی حوالوں سے اپنے وقت کی اہم شخصیات ہیں۔ اس کتاب میں علی حیدر جوشیؔ، خان عبدالولی خان، ارباب سیف الرحمان، مولانا سمیع الحق، یاسمین خان، پریشان خٹک، غازی سیال، ڈاکٹر محمد اعظم اعظم، تقویم الحق، عبداللہ جان مغموم اور اشرف مفتون جیسے نابغہ روزگار شخصیات شامل ہیں۔
مذکورہ کتاب جنازوں کے سلسلے کا دوسرا حصہ ہے، اس کا پہلا قابلِ دید اور اہم حصہ غالباً نومبر 2002ء میں شائع ہوچکا ہے، جس میں اُس وقت کی اہم شخصیات جیسے فخرِ افغان باچا خان، بہادر شاہ ظفر کاکا خیل، جنرل فضل حق، یونس خلیل، خیبر آفریدی، عیسیٰ خان شہید، حبیبی صاحب کی بیگم ”زلیخہ“ اور اجمل خٹک کے جنازوں کا احوال شامل ہے۔ ”جنازے“ نے اُس وقت ادبی حلقوں میں ایک تہلکہ مچایا اور سلیم راز، م ر شق، لیاقت سیماب، پروفیسر زمان سیماب، شہاب بنوسے اور عمر دراز مروت جیسے مشہور و معروف ادیبوں نے شان دار اور حوصلہ افزا تحریروں سے اس پر تبصرے کیے، اور اس نئی صنف کو سراہا۔
کتاب کے دوسرے حصے پر اسلامیہ کالج کے قابلِ فخر اُستاد، ادیب اور محقق نورالامین یوسف زئی نے ایک بھرپور قابل ستائش دیباچہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہی کہ ”یہ کتاب موضوع کے لحاظ سے جدت اور انفرادیت کی حامل ہے جو ادبی دنیا میں بنیادی طور پر ایک نیا تجربہ ہے۔“
مَیں کہتا ہوں کہ سید صابر شاہ صابرؔ صاحب اس نئے تجربے میں مکمل طور پر کامیاب رہے ہیں۔ اُسے یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔
کتاب میں تقریباً 19 جنازوں کا آنکھوں دیکھا حال ہے، جو نہایت دلچسپ ہے۔ تعریف و ستائش کی بات یہ ہے کہ یہ صرف متعلقہ شخصیات کے جنازوں کا آنکھوں دیکھا حال نہیں بلکہ انتقال کرنے والی شخصیات کی پیدائش سے لے کر موت تک پوری زندگی کا احوال بیان کیا گیا ہے، جس سے قاری کو بہت اہم معلومات مل جاتی ہیں۔ جنازے کے ساتھ مرحوم شخصیت کی تاریخ پیدائش، شجرہئ نسب، زندگی کے نشیب و فراز، ادبی خدمات اور کارنامے اور خود ”باچا جی“ سے تعلق کے بارے میں پوری تفصیلات سپردِ قلم کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے مذکورہ کتاب نہایت دلچسپی کی حامل ہوگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے خود ان شخصیات کے حوالے سے بہت سی معلومات سے آگاہی حاصل ہوئی۔
جیسے کہ سوات عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ راہنما، کالمسٹ، پشتو اور پشتون عاشق اور ادب دوست جناب ابراہیم دیولئی اس کتاب میں اپنا تمہیدی تبصرہ لکھتے ہیں۔ کتاب پر پروفیسر اباسین یوسف زئی، ڈاکٹر اظہار اللہ اظہار، عبدالرحیم روغانی، فضل نعیم نعیم، ظفر علی ناز، مشتاق شاہین کے تبصرے اور تجزیے دیکھنے کے لائق ہیں۔ کوئی اُسے ”بابائے سفر نامہ“ کہتے ہیں اور کوئی ”بابائے تخلص“ سے پکارتے ہیں، لیکن مَیں اُس کی جنازہ نگاری کو ایک بڑا اور انوکھا کارنامہ سمجھتا ہوں۔
سید صابر شاہ صابر ایک انسان دوست، ادب دوست، پختون دوست، مہمان دوست اور وطن دوست شخصیت ہے۔ وہ اپنے آشیانہ پختون کوٹ میں ہر وقت پختونخوا کے کونے کونے سے آئے ہوئے شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور نقادوں کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے ہوتا ہے۔
سید صابر شاہ صابر صاحب نظم کے ساتھ ساتھ نثر کے میدان کا بھی شاہ سوار ہے۔ سفرنامہ سے لے کر رپورتاژ تک، مقالہ سے لے کر کالم تک ہر فن کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ وہ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر صابر شاہ صابر کی تخلیق شدہ کتابوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ دیا جائے تو اُس کی اونچائی صابر شاہ صابر کے قد سے زیادہ ہوگی۔
میری دعا ہے کہ صابر شاہ صابر کا زورِ قلم اور زیادہ ہو۔ اُس کی تحریروں کا بہاؤ سلامت رہے۔ مَیں باچا جی کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اپنا قیمتی قلمی سرمایہ ”جنازے“مجھے تحفتاً ارسال کیا، اور اپنے دوست روزی خان لیونے بابا کا ممنون ہوں کہ انہوں نے میری غیر حاضری میں اسے سنبھال کر رکھا، اور میرے آنے کے دوسرے روز مجھے نہایت عزت و احترام سے پیش کیا۔ مجھے کتابیں عزیز ہیں، اور اُس سے زیادہ پیش کرنے اور دینے والے عزیز و محترم ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں