کالمنیاز احمد خان

گاؤں ڈڈہ ہرہ میں طبی سہولیات کا فقدان

تحصیل کبل کے علاقہ ڈڈہ ہرہ میں چھ ہزار سے زائد گھرانو کے لئے صحت کی سہولیات موجود نہیں، مقامی لوگ عطائیوں اور از خود علاج کرانے پر مجبور، ایمبولنس نہ ہونے کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں مقامی عمائدین۔
تحصیل کبل کے گاؤں ڈڈہ ہرہ جس کی آبادی تیرہ ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔مقامی رہائشی بخت کرم جوکہ سماجی کارکن ہے اور مقامی تنظیم انجمن خدمتگارانِ خلق کے جنرل سیکرٹری ہیں، کا کہناہے کہ ہمارے گاؤں میں نصف صدی قبل ایک ڈسپنسری قائم ہوئی تھی اور اس وقت پورے گاؤں کی آبادی بمشکل چھ سو گھرانو پر مشتمل تھی لیکن اب 1977ء میں قائم ہونے والی ڈسپنسری بڑی آبادی کے لئے ناکافی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ گاؤں کی ڈسپنسری میں صبح سے دوپہر تک ڈاکٹر اور اس کے ساتھ ڈسپنسر موجود ہوتاہے مگر وہ اتنی بڑی آبادی کو صحت کی سہولیات نہیں دے سکتے۔ ڈسپنسری میں نہ کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود ہے اور نہ ہی زچگی کے لئے کوئی وارڈ قائم کیاگیاہے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ علاقے کے زیادہ تر لوگ معمولی امراض کے لئے مقامی سپرسٹور سے بخار اور درد کی گولی خریدکر کام چلاتے ہیں جو اکثر فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بن جاتی ہے۔اس طرح جب کوئی زیادہ بیمارہوتاہے تو اس کو پچیس کلومیٹر دور سیدوشریف اسپتال لے جانا پڑتاہے۔ ڈڈہ ہرہ کے سابقہ کونسلر اور سماجی کارکن شاہ وزیر خان کا کہناہے کہ ڈ ڈہ ہرہ بڑی شاہراہ کے قرب میں واقع گاؤں ہے۔ جب بھی سڑک پر کوئی حادثہ ہوتاہے تو ڈسپنسری میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ہسپتال پہنچنے سے قبل ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس طرح اگر گاؤں میں بھی کوئی ایمرجنسی ہوجاتی ہے تو یہی صورتحال ہوتی ہے۔سب سے بڑا مسئلہ خواتین کو زچگی کے دوران پیش آتاہے کیوں کہ گاؤں میں کوئی مستند لیڈی ڈاکٹر اور دائی موجود نہیں۔ خواتین کوبیس کلومیٹر دور کبل اسپتال یا بریکوٹ اسپتال لے جاناپڑتا ہے جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر پیچیدہ کیس کی صورت میں خواتین راستے میں ہی جاں بحق ہوجاتی ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ڈڈہ ہرہ میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور ایک خاتون ڈاکٹر کو مستقل تعینات کیاجائے جوکہ ایمرجنسی میں عوام کو طبی امداد بھی دے سکیں۔ علاقے کے بزرگ سیدقاسم جوکہ ریٹائرڈ استاد ہیں، کا کہناہے کہ ڈ ڈہ ہرہ میں زیادہ تر لوگ زمینداری کرتے ہیں۔پہاڑ بھی موجود ہیں، یہاں پر کتے اور سانپ کے کاٹنے کا کوئی علاج موجود نہیں۔ پچھلے سال ان کے ایک بیٹے کو کتے نے کاٹاتھا، بڑی مشکل سے اسے سیدوشریف اسپتال پہنچایا گیا اور اس کو متعلقہ ٹیکے لگوائے گئے۔ انہوں نے مزید کہاکہ اگر حکومت ڈسپنسری کو بی ایچ یو کا درجہ دے تو عوام کو بہت آسانی ہوگی۔ اس طرح اگر علاقے کے لئے اس کے ایم پی اے ڈاکٹر امجد جوکہ صوبائی وزیر بھی ہیں، ایمرجنسی کے لئے ایک ایمبولنس کا انتظام کریں تو اس سے ڈڈہ ہرہ کے عوام کو طبی امداد میں بہت زیادہ آسانی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہاکہ گاؤں کی خواتین کو گھر پر صحت کی سہولت دینے کے لئے لیڈی ہیلتھ ورکر کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے گاؤں کی خواتین کو طبی سہولیات دینے میں آسانی ہوگی۔
ڈ ڈہ ہرہ گاؤں کی طبی سہولیات کے بارے میں علاقے کے منتخب ایم پی اے اور صوبائی وزیر ڈاکٹر امجد کا کہناہے کہ گاؤں میں موجود ڈسپنسری عوام کو تمام تر طبی سہولیات دے رہی ہے کیوں کہ ڈسپنسری میں بھی بی ایچ یو کی سہولیات موجود ہیں۔ موجودہ حکومت نے تمام ڈسپنسریوں کو بی ایچ یو کا درجہ دیاہے۔ اس طرح ڈسپنسری میں اب تمام دوائیاں اور ڈاکٹر موجود ہیں۔ لوگوں کو باقاعدہ سہولیات دی جارہی ہیں۔ البتہ گاؤں کے لئے ایمبولنس فراہم کرنے کے لئے کوشش کروں گا۔
سوات میں محکمہ صحت کی طرف سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق پورے ضلع کے 65 یونین کونسلوں کے لئے 41بیسک ہیلتھ یونٹ قائم ہیں جن میں آٹھ سے نو تک میڈیکل سٹاف کام کرتا ہے۔ قانون کے مطابق ایک مستند ڈاکٹر، دو ایل ایچ وی، ایک دائی باقی کلاس فور جن میں چوکیدار بھی شامل ہے، فراہم کیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک بی ایچ او کو اوسطاً سالانہ ڈھائی سے تین لاکھ روپے مالیت کی ادویات اور طبی سہولیات دی جاتی ہیں۔ سوات میں ہر اس یونین کونسل کے لئے ایک بی ایچ یو قائم کی جاتی ہے جس کی آبادی بارہ سے سولہ ہزار نفوس پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق اس وقت سوات کے دوردراز علاقے جن میں کالام، اتروڑ، برشور بشمول ایسے دیگر دس بی ایچ یوقائم ہیں جن میں ڈاکٹر موجود نہیں، کوئی ڈاکٹر وہاں ڈیوٹی دینے کے لئے راضی ہی نہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت کے اصولوں کے مطابق پانچ ہزار کی آبادی کے لئے ایک ڈاکٹر کا ہونا ضروری ہے۔ اس طرح سوات کے تمام بی ایچ یو ز میں لیبر روم سرے سے موجود نہیں۔ زچگی کے لئے صرف ابتدائی طبی امداد دی جاتی ہے جبکہ بی ایچ یو ایک ہی شفٹ میں کام کرتی ہے یعنی روزانہ صبح آٹھ بجے سے دوپہر دوبجے تک۔ اس کے علاو ہفتہ وار سرکاری چھٹی بھی کی جاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں