ڈاکٹر محمد طاہر بوستان خیلکالم

ھسی دیوالونو تہ خبری

ادب کی خدمت کرنے والے تو بہت ہوں گے لیکن دیارِ غیر میں رہ کر ادب کی خدمت کرنے والوں کو مَیں دو نوں ہاتھوں سے سلام کرتا ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ مسافر لوگ اپنے گھر بار، یار دوستوں اور رشتہ داروں سے سیکڑوں کلومیٹر دوررہتے ہیں۔ اس درد کو سہتے ہوئے وہاں کی انتہائی مصروف ترین زندگی میں ادب کی خدمت کے لیے وقت نکال کر ادب کو پروان چڑھانابڑے دل گردے کا کام ہے۔ ایسے بڑے دل والوں میں ایک زندہ جاوید نام نقیب یوسف زےؔ کا بھی ہے۔ وہ ضلع شانگلہ کے پیشکنڈ گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں اور آج کل سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ ادب کی آبیاری بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی شاعری کی کتاب ”ھسے دیوالونو تہ خبرے“ حال ہی میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے۔ کتاب کی خوب صورتی کا سہرا ”گران خپر ندویہ ٹولنہ“ کے سر ہے۔اس کتاب میں شعر کی زبان پر شاعر نقیب یوسف زےؔ کی صاف گوئی کا پتا چلتا ہے۔ صاف گو تو اس لیے ہیں کہ کتاب میں صفحہ نمبر55 پر شعر میں کمی یا قافیہ وغیرہ کی غلطی پر باقاعدہ طور پر اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر مجھ سے بھول چوک ہو جائے، تو معاف کردینا۔وہ کہتے ہیں۔
زہ شاڑ سڑے یمہ دا خلق دی ما نہ گرموی
چرتہ غلطی کہ می د شعر قافیہ کی اوکڑہ
نقیب یوسف زے ؔکی پختونوں سے شدید محبت اور وابستگی کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں جا بجا پختونوں کو ان کا مقام نہ بھولنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ بدلتے ہوئے معاشرے کے بدلتے حالات کے ذمہ دار وں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ان حالات کو کون قابو میں کرے گا اور کون پختونوں کے خون کا حساب دے گا؟ اس لیے وہ پختونوں کو بیدار کرنے کے لیے کہتے ہیں:
پہ شپیلئی د اسرافیل بہ پورتہ کیگی
پختانہ داسی د مرگ پہ خوب اودہ دی
کتاب کے متعلق لکھتے ہوئے سوات کے معروف شاعر امجد علی سورجؔ کہتے ہیں کہ اگرچہ ان کی شاعری کی عمر اتنی نہیں، تاہم پھر بھی انہوں نے قلم کے ذریعے بہت کچھ سمجھانے کی اپنی پوری کوشش کی ہے اور کم عمری ہی میں بہت گہرا سوچا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو وہ جواتنے پُرامید دکھائی دیتے ہیں:
ؤرک د بارودو بہ لوگے شی خو بس زہ بہ نہ یم
وطن بہ ٹول سپرلے سپرلے شی خو بس زہ بہ نہ یم
دغہ خبرہ می د مور راتہ اوس ھم یادہ دہ
زما بچے بہ لوئے سڑے شی خو بس زہ بہ نہ یم
نقیب یوسف زے ؔ کی شاعری پر اُردو کے انقلابی شاعر حبیب جالب ؔ کا رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح جالب ؔ نے کھل کر استعماریت کے خلاف نظمیں کہیں، اسی طرح نقیب یوسف زے ؔ نے بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر اتنی بڑی حقیقت سے پردہ سرکایا۔ کہتے ہیں:
چی زما دَ سر سودا پکی تل کیگی
ستر مرکز اسلام آباد راتہ معلوم دے
زہ د ؤرکے قبیلے نہ یم نقیبہؔ
دخپل پلار نیکہ جائیداد راتہ معلوم دے
استعماریت کے خلاف بولنے والے آئے دن بڑھتے جا رہے ہیں۔اُردو ادب میں استعماریت کی بھر پور مذمت کرنے والے شعرا میں فیضؔ،فرازؔ اور جالبؔ وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ جب کہ پشتو ادب میں امیر حمزہ خان شنواریؔ، اجملؔ خٹک، صاحب شاہ صابرؔ کے علاوہ اور بھی بہت سے نام لیے جاسکتے ہیں۔آج کل کے دَور میں نقیب یوسف زےؔ بھی باقاعدہ طور پر استعماری نظام کے خلاف نامور لکھنے والوں کی صف میں شامل ہیں۔ استعمار کے خلاف ان کا کہنا کچھ یوں ہے۔
ماتہ پہ ھرہ لار زما د سر قاتل ولاڑ دے
زکہ د کور لہ دروازے نہ بھر نہ شم وتے
استعماریت کے خلاف کتاب میں صفحہ نمبر 247 پر ان کی نظم”دا لا سنگ مسلمانی دہ؟“ عظیم شاہکار ہے۔نظم میں وہ اس نظام کے ذمہ داروں کو اس معاشرے ہی کا انسان ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں:
دا پہ مونگہ چی قیامت دے
زمونگ زڑونوکی نفرت دے
زکہ جوڑہ زان زانی دہ
دا لاسنگ مسلمانی دہ؟
ویسے تو شاعری کے لیے خیال، رنگین فکر، الفاظ کی بندش اور مرصع سازی چار بڑے درجے ہیں مگر بہت سارے شعرا کے نزدیک محض مرصع سازی کمال نہیں۔ اچھی عشقیہ شاعری صرف عشقیہ نہیں کچھ اور بھی ہو تی ہے یعنی عشق زندگی کی علامت بن جاتا ہے۔ یہاں نقیب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی دکھا ئی دیتا ہے۔ فکر ِ آخرت ان کو یوں ستاتی ہے:
زہ چی اکثر پہ تصور کی مرگ تہ فکر شمہ
قبر رایاد شی دوزخونہ راتہ مخی تہ شی
یا حقیقی توبہ کے حوالے سے ان کا یہ شعر
چی د گناہ پری کنار نہ شومہ
خکاری ویستلی می توبہ خہ دہ
کتاب کے صفحہ نمبر 241 پر نقیب یوسف زےؔ کی نظم”پردے مزدور“ ان کی شاعری کی بنیاد ہے۔ یہ نظم ان کی تمام شاعری پہ بھاری ہے جو قاری کورونے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس نظم میں دیار ِ غیر میں رہنے والوں کی ذہنی کیفیت کی خوب عکاسی کی گئی ہے۔ شاعر نے چیخ چیخ کر مسافروں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو اچھوتے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ راقم کے نزدیک اس نظم کی نظیر نہیں ملتی۔
اس کے علاوہ نقیب یوسف زےؔ نے شعر کی زبان سے انسانوں کو صبر کی تلقین بھی کی ہے۔ نیز انہوں نے پختونوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ اس میں پختونوں کی ناسمجھی اور آپس کی بے اتفاقی کو بھی بنیادی وجہ قرار دی ہے۔ وہ انسان کو دوسرے انسان کی قدر کرنا سکھاتے ہیں۔ انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے بزرگوں کا کہا ماننے کی طرف راغب کرتے ہیں۔
کتاب دیدہ زیب ہے صفحات کی تعداد 250 اور قیمت 300 روپے ہے۔یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور کے علاوہ پشتو اکیڈمی پشاور اور انصاف بک سٹیشنری سواڑی بونیر میں بھی دستیا ب ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں