روح الامین نایابکالم

منگلور سول ہسپتال

قارئین کرام! اس وقت ضلع سوات کی ہر تحصیل اور ہر گاؤں کے ہسپتال اپ گریڈ ہو رہے ہیں۔ اپ گریڈ ہونے کے ساتھ تعمیرات ہو رہی ہیں۔ مشینریاں آرہی ہیں۔ ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ نئے جاب کے لیے مواقع پیدا ہورہے ہیں۔ عوام کے لیے صحت کے حوالے سے سہولیات بڑھ رہی ہیں۔ بس اگر کچھ کہیں اچھا نہیں ہورہا، تووہ بدنصیب گاؤں منگلور کے لیے نہیں ہورہا۔ اس سے زیادہ بدنصیبی اور کیا ہوگی کہ اکیسویں صدی کے اس دورِ جدید میں منگلور جیسا تاریخی گاؤں اور ہزاروں کی آبادی پر مشتمل ایک بڑا علاقہ سول ہسپتال کی بنیادی ضرورت سے محروم ہے۔ جب سول ہسپتال ہی نہیں، تو اپ گریڈیشن کہاں سے آئے گی؟ ایمرجنسی کی صورت میں ٹھوکریں کھا کھا کر، ٹریفک جام کی ہزیمت اٹھا کر، اگر مریض زندگی کی چند سانسوں کے ساتھ سنٹر ہسپتال پہنچ بھی گیا، تو یہ اس کی خوش قسمتی ہوگی۔ ورنہ وہ کسی بھی لمحے، کسی بھی جگہ اللہ کو پیارا ہوسکتا ہے۔
دنیا میں یہ ریت چلی آرہی ہے کہ اگر کہیں نئی سہولیات دینی ہوں، تو پرانی سہولت کو مزید جدید اور آراستہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں ”نواز شریف کڈنی ہسپتال“ بناکر جہاں ایک طرف نئی سہولت دینے کا احسان کیا گیا، وہاں دوسری طرف منگلور کے والیِ سوات کے زمانے سے قائم پرانے سول ہسپتال کا جنازہ نکال لیا گیا، بلکہ اس کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ آخر کیوں؟ یہ کون سا ترقی دینے کا طریقہ ہے اور آخر ہمارے علاقے کے نام نہاد لیڈر حضرات اور قیادت کیوں خاموش رہی؟ اسے یہ احساس نہیں ہوا کہ آخر اتنی بڑی آبادی کے لیے ایمرجنسی واقعات کے پیش آنے کا کیا ہوگا؟ کیا کڈنی ہسپتال سے مستفید ہونے کے لیے علاقے کے ہر فرد کو گردوں کی بیماری میں مبتلا ہونا پڑے گا؟
مَیں نواز شریف کڈنی ہسپتال کی مخالفت نہیں کررہا۔ میرا مؤقف بس یہ ہے کہ آخر نواز شریف کڈنی ہسپتال کے بنانے کے ساتھ سول ہسپتال کی بنیادی ضرورت اور سہولت کیوں چھینی گئی؟ آخر ہر بار منگلور کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟ ہمارا گناہ کیا ہے؟
اس سے پہلے دن دہاڑے منگلور ہائی سکول کے کھیل کے گراؤنڈ کو جھوٹ اور دھوکے بازی سے چھین لیا گیا۔ اب ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمارے تاریخی گراؤنڈ اور ہمارے آبا و اجداد کی جائیداد میں سے ہمیں منت سماجت کے بعد چند گھڑیاں اُدھار میں دی جاتی ہیں۔ ہمیں اس کے لیے باقاعدہ طور پر ممنون و مشکور بنایا جاتا ہے۔ یہ ہے عدل و انصاف کا مظاہرہ، لیکن گلہ کس سے کریں؟ جب انسان کے خود اپنے ہاتھ پاؤں دشمن ہوجائیں اور اپنے گھر سے لوگ دشمن کے ساتھ شامل ہوجائیں، تو پھر تباہی و بربادی کو کون روک سکتا ہے؟ ہمارے اپنے رہبروں کی خاموشی ہماری تباہی کا باعث بن رہی ہے۔
قارئین، لیکن زندگی تو بچانا لازمی ہے۔ جینا تو پڑے گا۔ زندگی گزارنے اور جینے کے لیے اچھی صحت کا ہونا ضروری ہے اور اچھی صحت کے لیے شفا خانوں اور ہسپتالوں کا ہونا ضروری ہے۔ ہمیں افسوس اور دکھ اس بات کا ہے کہ یہ سہولت بجائے دینے کے ہم سے چھینی جا رہی ہیں۔ علاقے کے عوام تکلیف میں ہیں۔ مَیں ضلعی انتظامیہ کو، محکمہئ صحت کو دو ٹوک الفاظ میں بتانا چاہتا ہوں کہ علاقے کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔ ہر ذی شعور منگلوری کو اپنی کسمپرسی کا احساس ہورہا ہے۔ اس سے پہلے کہ سینوں میں پکتا لاوا پھٹ پڑے۔ مَیں متنبہ کرنا چاہتا ہوں محکمہئ صحت کے حکامِ بالا کو، ضلعی انتظامیہ کے بالا افسران (بشمول ڈپٹی کمشنر صاحب) کو، اور خبردار کرنا چاہتا ہوں مقامی تمام سیاسی قیادت کو جس میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران حضرات شامل ہیں کہ وہ اس حوالے سے فی الفور اقدامات کریں اور منگلور کے عوام کی تسلی کرائیں تاکہ جلد از جلد اس زیادتی اور ظلم کا اِزالہ ہوجائے۔ اس حوالے سے ایک مسئلہ یہ اٹھایا جاتا ہے کہ سول ہسپتال کہاں تعمیر کی جائے؟ زمین نہیں ہے۔ زمین خریدنا پڑے گی اور آسانی سے کوئی زمین دینے کو تیار نہیں۔ تو اس بارے میں بھی ہم کچھ عرض کردیتے ہیں اور یہ بنیادی مسئلہ بھی حل کردیتے ہیں۔ اس کا قابلِ عمل آسان حل یہ ہے کہ موجودہ نواز شریف کڈنی ہسپتال کا رقبہ 81 کنال ہے جس پر 34کنال پر موجودہ ہسپتال تعمیر ہوگیا ہے، جب کہ باقی 47 کنال زمین اب بھی فالتو پڑی ہوئی ہے۔ مذکورہ 47 کنال زمین بہت بڑا رقبہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ تمام زمین پہلے پنجاب ہاسپٹل ٹرسٹ (Punjab Hospital Trust) کی ملکیت تھی لیکن اب خوش قسمتی سے یہ زمین خیبر پختونخوا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی ملکیت ہے۔ باقاعدہ خیبر پختونخوا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے نام اس زمین کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس تمام پراسس کا کریڈیٹ موجودہ نواز شریف کڈنی ہسپتال کے ایم ایس جناب غلام رحمانی ڈاکٹر صاحب کے سر جاتا ہے، اُن کی اَن تھک کوششوں اور محنت سے یہ کارنامہ پایہئ تکمیل تک پہنچا ہے۔ لہٰذا 47 کنال زمین کسی بھی حکومتی ایک بڑے پراجیکٹ کے لیے کافی سے بھی زیادہ ہے۔
حال ہی میں منگلور قومی امن جرگہ نے اس حوالے سے اپیل کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس جاکر اپنی گذارشات بھی پیش کی ہیں۔ ہم اس کالم کے ذریعے گزارش کریں گے کہ منگلور قومی امن جرگہ علاقے کے عوام کا ایک نمائندہ جرگہ ہے، لہٰذا اس کی گذارشات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ التجا ہے کہ علاقے کے عوام کے اس دیرینہ ضرورت اور مطالبے کو پورا کرنے کے لیے فی الفور ضروری اقدامات کریں۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں