روح الامین نایابؔکالم

وقار کا پُروقار انتقال

عوامی نیشنل پارٹی کے ممبر صوبائی اسمبلی اور اپر سوات شاہ ڈھیرئی کے رہنے والے جناب وقار احمد خان دل کے دورے کے سبب پچھلے دنوں انتقال کر گئے۔ یہ صرف وقار احمد خان کی شخصیت کی موت نہیں بلکہ صبر، برداشت، رواداری، نرم گفتاری، مستقل مزاجی اور بردباری کی موت تھی۔ ان کے منھ سے کبھی بھی سخت الفاظ اور اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں سنی گئی۔ وہ ہمیشہ نرم اور آہستہ گفتگو کرتے۔ مخالفین کو کبھی گالم گلوچ کا نشانہ نہیں بنایا اور برے القابات سے انہیں یاد نہیں کیا۔
قارئین! یہ 2013ء کی بات ہے، مَیں سعودی عرب کے دمام شہر میں سعودی اوجر کمپنی کی طرف سے آرامکو کے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ میرے ساتھ کام کی مناسبت سے مین پاور کی کمی تھی۔ چناں چہ کمپنی نے ایک سپلائر سے میرے لیے پندرہ عدد لیبرز کا بندوبست کیا۔ سارے پختون نوجوان تھے…… اور تمام کے تمام شاہ ڈھیرئی کے رہنے والے تھے۔ جب انہیں پتا چلا کہ ہمارا انچارج ایک پختون ہے، تو وہ بہت خوش ہوئے۔ سب میرے ملاقات کو آئے۔ مَیں نے اُن کا حوصلہ بڑھایا اور ٹائم دینے کا وعدہ کیا۔ بعد میں اُن کے پسند کے گروپ بناکر کام پر لگادیا۔
چند دن بعد 2013ء کے الیکشن شروع ہوئے۔ رات کو الیکشن کے نتایج کے بعد اگلے دن یہ پندرہ پختون جوان کام پر نہ آئے۔ فون پہ پتا چلا کہ انتخابی نتایج کی وجہ سے سارے ناراض ہیں…… اور یہ کہ کام پر نہیں آنا چاہتے۔ شاہد نامی لڑکے نے مجھے درخواست کی کہ ’’سر! آپ شام کو ڈیرے پر آجائیں اور انہیں سمجھائیں۔‘‘ مَیں بھی اس تجسس میں تیار ہوا کہ آخر الیکشن کے نتایج میں ایسا کیا حادثہ ہوا ہے کہ یہ لوگ سارے کے سارے یک دم کام سے انکاری ہیں۔
ڈیرے پر پہنچ کر واقعی مجھے افسوس ہوا کہ ہونہ ہو خدانخواستہ الیکشن میں کوئی بڑا سانحہ ہوچکا ہے۔ ساروں نے رُو رُو کر اپنا برا حال کیا تھا۔ سب کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔ میرے پوچھنے پر مجھے حیران و پریشان نظروں سے دیکھنے لگے اور کہنے لگے کہ سر آپ کو پتا نہیں کہ ہمارے ہیرو، ہمارے اَن داتا، ہمارے قاید وقار خان صرف دو سو ووٹوں سے ہار گئے ہیں۔ مَیں نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ بھئی! سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ صبر اور حوصلہ سے کام لیں…… لیکن وہ سارے بہت غصہ تھے کہ ہم وقار خان کی ہار کو نہیں مانتے۔ وہ بلے والوں پر گل پاشی کر رہے تھے۔ وہ وقار خان کی سخاوت، اخلاق و وقار کی کہانیاں سنارہے تھے۔ وقار خان پر دل و جان سے فدا ہورہے تھے۔ اپنے آپ کو کوس رہے تھے کہ ہم کیوں یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم ہوتے، تو دیکھتے کہ بلا ہم سے کیسے جیتتا ہے؟ اُن سب کی محبت، اشتیاق، وفاداری دیکھ کر مجھے بھی وقار صاحب سے ملنے کی دلچسپی پیدا ہوگئی۔
2014ء میں مستقل طور پر سعودی عرب سے واپس پاکستان آیا، تو سوات پریس کلب میں اے این پی کے ایک پروگرام میں جب بلبلِ سوات اور ہمارے قومی شاعر نے ترنم میں ایک نظم سنائی۔ سٹیج سے جانے لگے، تو سٹیج پر بیٹھے ہوئے حضرات میں سے سفید لباس میں ملبوس ایک مضبوط اور گھٹے جسم کے مالک ایک جوان نے اُٹھ کر ظفر علی ناز کو گلے لگایا…… اور اُسے 5000روپے کا نوٹ اپنی جیب سے بہ طورِ انعام عنایت کیا۔ مَیں نے پاس بیٹھے ہوئے ساتھی سے پوچھا کہ یہ حضرت کون ہے؟ انہوں نے بڑے پیار اور حیرانی سے کہا: ’’یہ وقار خان ہے۔ تم وقار خان کو نہیں جانتے!‘‘
پھر انہوں نے بھی وقار خان کی سخاوت، انسانیت اور محبت و اخلاص کے قصے سنانے شروع کردیے۔
وقار احمد خان خاندانی انسان تھے۔ ان کا خاندان شاہ ڈھیرئی کے خوانین کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ وہ شاہ ڈھیرئی کے مشہور خان محمد خان مرحوم کے آٹھ بیٹوں میں سے ایک بہادر بیٹے تھے۔ عمر میں سب سے چھوٹے تھے۔ وقار احمد خان، خلیل احمد خان، افتخار احمد خان ، رفیق احمد خان، شفیق احمد خان، کمال احمد خان، نثار احمد خان اور سب سے بڑے اقبال احمد خان تھے۔
اقبال احمد خان کے ساتھ طالبان کے ظالمانہ دور میں جو کچھ ہوا، وہ اللہ کسی کو نہ دکھائے۔ وہ داستانِ غم خونِ قلم سے لکھنے کے قابل ہے۔ اُن ظالموں نے خاندان کے خواتین کے سامنے اقبال احمد خان کو دو بیٹوں اور نوکروں سمیت گولیاں مار کر شہید کردیا۔ اگلی صبح ایک دروازے سے سات جنازے نکلے۔ کتنے افسوس کی بات ہے…… لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ انتخابات میں دوسروں کو ووٹ دیتے ہوئے ہمارا دل لرزتا ہے…… نہ ہماری انگلیاں کانپتی ہیں۔ آخر ملک و قوم کے لیے اس سے بڑی قربانی کیا ہوگی؟
افسوس پختون قوم کو آج بھی دوست، دشمن کی پہچان نہیں ہوئی۔ قربانیوں اور شہادتوں کے اس طویل سلسلے کا کوئی آغاز ہے…… نہ انجام…… برس ہا برس سے شہادتوں کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری ہے۔ کئی بار ہم بھٹک گئے۔ مختلف جذباتی نعروں پہ بہلائے گئے، لوٹے گئے…… لیکن ہم نے نہ سنبھلنا تھا، نہ سنبھلے…… ہم نے نہ سمجھنا تھا، نہ سمجھے۔
وقار احمد خان صرف وقار نہیں بلکہ ایک پُروقار شخصیت کے مالک تھے۔ جائیداد کا زیادہ تر حصہ سیاست اور عام لوگوں کے ساتھ مالی امداد کرنے میں نذر ہوچکا ہے۔ جس نے بھی اپنی حاجت بیان کی…… جیب میں پڑی تمام رقم سپرد کردیتے۔
دس پندرہ سال سے مامور سکیورٹی گارڈ کے انچارج حوالدار سید احمد شاہ سے جب مَیں نے وقار خان کے بارے میں پوچھا، تو اُس نے روتے ہوئے کہا کہ ایسا سخی مہربان شخص میں نے نہیں دیکھا۔ جب مَیں نے ایک بار اُسے اپنے بچوں کے بارے کچھ یاد دہانی کرائی، تو کہنے لگے احمد شاہ اللہ پر بھروسا رکھو۔ یہ سب میرے بچے ہیں۔ مَیں ان سب کا خیال نہیں رکھوں گا، تو کون رکھے گا!
تب مجھے سعودی عرب میں نوجوانوں کا رونا دھونا یاد آیا کہ واقعی اس انسان میں کچھ ایسے گن تھے جس کے پیچھے رویا جاسکتا تھا۔ وہ بہت خوب صورت اور عظیم رات لیلۃ القدر کی رات 30اپریل کو دل کے دورے سے وفات پاگئے۔ وہ اس عظیم اور برکتوں والی رات کے اہل تھے۔ جسے خداوندِ کریم کسی کسی کو نصیب کردیتا ہے۔ اللہ تعالا اُس کی مغفرت کرے…… اور مجھ سمیت ہزاروں انسانوں کی دعاؤں کو قبول فرمائے۔ مَیں تیسرے روز اپنے دوستوں انجینئر سلیم اور رستم کے ساتھ فاتحہ کے لیے گیا تھا، لیکن سمئی میں پھر بھی بے انتہا رش تھا۔ ایک مخلوق اُمڈ آئی تھی۔
وقار احمد خان صاحب جانے میں بہت جلدی کرگئے…… لیکن اپنے پیچھے نہ بھولنے والی بے شمار یادیں چھوڑ گئے۔ وہ ہزاروں دلوں میں زندہ رہیں گے۔ اُن کی سخاوت اور اخلاقی اقدار زندہ رہیں گی۔ اُسے ہر وقت آس پاس محسوس کیا جائے گا۔
بقولِ علامہ محمد اقبالؔ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں