ڈاکٹر سلطان رومکالم

ریاستِ سوات کے خاتمے کا مروڑ

ایک محترم کالم نگار اپنے کالم، بہ عنوان ’’ریاست سوات 1965ء میں ‘‘، شائع شدہ جون 2019ء، میں لکھتاہے کہ’’جس سوات میں ہم اور تم زندگی گزاررہے ہیں، یہ وہی سوات نہیں ہے جوہمارے بچپن میں تھا، جو والی سوات کے دورِحکومت میں تھا۔‘‘ اور یہ کہ ’’اُس دور میں خوشحالی تھی، سکون تھا، آرام اور اطمینان تھا۔ اِس دور میں بے سکونی اور پریشانی ہے۔ اُس دور میں اپنائیت تھی، اس دور میں اجنبیت ہے۔ جب سوات میں والی کی حکمرانی تھی، تو یہ اہل سوات کے لیے تھا۔ وہ ہمارا اپنا سوات تھا اور اب الحاق کے بعد پرایا ہوگیا ہے۔‘‘
آگے جاکر محترم لکھتا ہے کہ اُس دور میں ’’پورے سوات میں اعلیٰ درجے کا تعلیمی نظام تھا۔ جگہ جگہ سکول اور کالج تھے۔ تعلیم مفت، علاج مفت، اعلیٰ معیار کے اسپتال اور اعلیٰ درجے کے ڈاکٹر تھے۔ علاج مفت، ادویہ مفت، اسپتالوں میں مریضوں کے لیے کھانا مفت۔ اس کے علاوہ انصاف بھی فوری اور مفت، نہ کورٹ کے چکر، نہ وکیل کے نخرے۔ سوات کے ہر باشندے کے لیے باعزت روزگار کے مواقع ہر وقت دستیاب ہوا کرتے تھے۔ قارئین، ریاست سوات کی جتنی بھی تعریف کروں،کم ہی ہوگی۔‘‘
مزید آگے جاکر 1957ء میں شائع شدہ ایک کتاب’’نورکہستان ‘‘سے لیے گئے اقتباس میں درج ہے کہ’’اس لیے دفتری نظام میں ذرہ برابربھی بدنظمی،سستی،اقرباپروری اور رشوت ستانی راہ نہیں پاسکتی۔ ‘‘
کالم کے آخر میں، محترم نے ریاست سوات کے بجٹ برائے مالی سال 1969۔1970ء میں دی گئی آمدنی، اخراجات اور بچت کے اعداد و شمار دیے ہیں۔ اس کے بعد لکھتا ہے کہ ’’قارئین! اس بجٹ سے آپ اندازہ لگالیں کہ ریاست سوات ایک خود کفیل ریاست تھی۔ ہمیں حکومتِ پاکستان کی ایک پیسے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے باوجود یحی خان کے پیٹ میں مروڑ پیدا ہوا اور 1969ء کو اُس نے ریاست کو پاکستان میں ضم کیا۔ اب بھی اگر حکومت پاکستان چاہے، توہم ریاست سوات کی بحالی کی صورت میں اپنا ریاستی خرچہ اور جملہ اخراجات اپنے سوات کے وسائل سے پورا کرسکتے ہیں اور سوات کو پھرسے ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ بس، آزمائش شرط ہے، قارئین،اُس وقت سونے کا بھاؤ کیا تھا؟ شاید80 روپے تولہ اور اب 70 ہزار روپیہ فی تولہ ہے۔ ‘‘
اس طرح، ستمبر2020ء کے ایک کالم’’والئ سوات کی یاد میں‘‘ میں محترم کالم نگار رقم طراز ہے کہ دسمبر 1949ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد والی صاحب نے دوسرے اُمور کے علاوہ’’ہر گاؤں میں سکول تعمیر کروائے جہاں زیب کالج کی بنیاد رکھی۔ یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے والیِ سوات اپنے خرچہ پر طلبہ کو انگلینڈ اور یورپ بھیجا کرتے تھے۔‘‘
مزید یہ کہ ’’دریائے سوات پر جگہ جگہ بڑے بڑے پل تعمیر کرائے۔ امن و امان پر خصوصی توجہ دی۔ ’آنکھ کے بدلے آنکھ ‘ کے مصداق قاتل کوایک ہفتے کے اندراندر موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا۔ چور اور ڈاکو کا نام و نشان تک نہ تھا۔ برائے نام ٹیکس نافذ تھا جو زیادہ سے زیادہ سو روپے سالانہ تھا۔ عموماً پانچ روپے سالانہ ہوا کرتا تھا۔ البتہ عشر کا نظام سختی سے لاگو تھا۔ اور اس سے سوات کی مقامی فوج کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔ ہر میٹرک پاس فرد کے لیے بغیر کسی رشوت اور سفارش کے ملازمت مہیا کی جاتی تھی۔ کوئی بے روزگار نہیں تھا۔ اگر کوئی کام کرنا چاہتا تھا، تو اس کے لیے ہمیشہ دروازے کھلے رہتے۔ ہر طرف خوشحالی کا دوردورہ تھا، اور مزے کی بات یہ تھی کہ یہ سب کچھ سوات کے اپنے وسائل کو بروئے کار لاکر کیا جاتاتھا۔‘‘
محترم اس کے بعد 28 جولائی 1969ء کویحیٰ خان کے سوات کے ریاستی نظام کو ختم کرنے کے فیصلے کا ذکر کرنے کے بعد لکھتاہے کہ’’یحیٰ خان کا ادغام کا فیصلہ ایک طرفہ تھاجس میں عوام کی اکثریت کی رائے شامل نہیں تھی۔ اس لیے ریڈیو پر تقریر سنتے ہی سوات کے عوام سڑکوں پر نکل آئے ۔‘‘
اس کے بعدمحترم کالم نگار، کاروبارِ زندگی کی بندش، مشتعل عوام کے احتجاج، جلوس اور والی صاحب کے محل تک پہنچنے سے قبل، سنٹرل اسپتال پہنچنے پر والی صاحب کے اعلا نمائندے کے آپہنچنے اور احتجاج کرنے والوں کو والی صاحب کا پیغام پہنچانے کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے کہ ’’اور بپھرے ہوئے عوام کو والی سوات کا پیغام سنایا۔ پیغام یہ تھا: ’اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ لوگوں کے درمیان رہوں، تو براہِ کرم اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ اوراپنے اپنے کاموں میں لگ جاؤ۔ اگرآپ لوگ میرایہ کہنا نہ مانیں گے، توپھرحکومت پاکستان، نوابِ دیر کی طرح مجھے بھی ہوائی جہاز میں بٹھا کر دور کہیں جیل میں نظر بند کردے گی۔ اور میں نہیں چاہتا کہ میں آپ سے دور رہوں، اور اس طرح سوات کے عوام نے اپنے اپنے دلوں پر پتھر رکھ کر والیِ سوات کا حکم مان لیا۔ دوسری جانب والیِ سوات نے سوات کا چارج دیتے ہوئے اپنے محل سے ’یا ہادی‘ کا جھنڈا اُتار دیا اور خود اپنے ہاتھوں سے ایک محب وطن پاکستانی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا، اور اس کو سلامی دی۔ ایک صابر و شاکرانسان کی طرح سوات میں رہنے لگا۔ ‘‘
محترم اپنے مذکورہ کالم کا اختتام ان الفاظ پر کرتا ہے کہ ’’سابق والئی سوات میجر جنرل میاں گل عبدالحق جہان زیب کی وفات کے ساتھ سوات کا ایک تاریخی باب بند ہوا۔ ‘‘
محترم کالم نگار نے اپنے درجِ بالا باتوں میں بہت سے ایسے دعوے اور باتیں کی ہیں جن کی تنقیدی پرکھ ضروری ہے، تاکہ ڈھیر ساری غلط فہمیوں کا اِزالہ ہوسکے۔
محترم کی یہ باتیں کہ ریاستِ سوات کے ’’دور میں خوشحالی تھی، سکون تھا، آرام اور اطمینان تھا‘‘ اور ریاست کے خاتمے کے بعد کے ’’دور میں بے سکونی اور پریشانی ہے ‘‘ تو یہ خوشحالی، سکون، آرام، اطمینان،بے سکونی اور پریشانی ایسی مستقل چیزیں نہیں کہ جو جن کے لیے اُس وقت تھیں، وہ اُن کے لیے تا ابد ہی ہوتیں…… بلکہ یہ تغیرپذیر چیزیں ہیں، اوراسی وجہ سے ڈھیر سارے لوگوں کے لیے اور ان کی نظر میں وہ دور خوشحالی، آرام، اطمینان اور سکون کا تھا، لیکن ڈھیر ساروں کی نظر میں وہ ان کے لیے بے سکونی، بے اطمینانی، نا خوشحالی اور پریشانی کا دور تھا۔ جب کہ ریاست کے خاتمے کے بعد کئی لوگوں کے لیے صورتِ حال اُلٹ گئی اور اس وجہ سے اس حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں، اُس دور میں آج کل جیسی مختلف قسم کی سہولیات کہاں تھیں…… جس کے لیے لوگوں کو زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر لوگ اُس دور جیسی سادہ زندگی گزارنا چاہیں جس میں آج کل جیسے آرام اور سہولیات نہ ہوں، تو یہ اَب بھی ممکن ہے…… لیکن اس کے لیے انھیں ڈھیر ساری جدید سہولیات، کھانے پینے کی اشیا، پُرتعیش زندگی، شادی و غمی وغیرہ کے موقعوں پرپُر تعیش اخراجات وغیرہ اور اس طرح کے دوسرے اُمور سے اجتناب برتنا ہوگا۔ مشکل نظر آ رہا ہے کہ اس کے لیے کوئی تیار بھی ہو۔
محترم لکھتا ہے کہ ’’وہ ہمارا اپنا سوات تھا اور اب الحاق کے بعد پرایا ہوگیا ہے۔‘‘ تو ریاستِ سوات کا پاکستان سے الحاق یحیٰ خان نے نہیں بلکہ پاکستان بننے کے بعد 3 نومبر 1947ء کو ریاستِ سوات کے اُس وقت کے حکم ران میاں گل عبدالودود نے کیا تھا، جب اُس نے ’’انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘‘ یا ’’ضابطۂ الحاق‘‘ دستخط کیا تھا اوراس وقت کے گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح نے 24 نومبر 1947ء کو اس پر دستخط کرکے اسے منظور کیا تھا۔ یحیٰ خان کے دورِ اقتدار میں تو صرف اس کاخاتمہ (یا جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ادغام یاانضمام) کیاگیا تھا۔
محترم کی تحریروں میں والی صاحب کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جگہ جگہ اسکول اور کالج ہونے اور ہر گاؤں میں اسکول تعمیر کروانے کاذکر کیا گیاہے، لیکن 1969ء میں ریاستِ سوات کے خاتمے کے وقت ریاست بھر میں، جوموجودہ اضلاع سوات، بونیر، شانگلہ اور اباسین کوہستان کے بعض علاقوں پرپھیلا ہوا تھا، میں لوئر پرائمری سے لے کرہائی اسکولوں تک کل تعدادکچھ یوں تھی: 37 ہائی اسکول، 33 مڈل اسکول، 14 لوئر مڈل اسکول، 164 پرائمری اسکول اور 120 لوئر پرائمری اسکول، جو کہ پوری ریاست کے گاوؤں کی کل تعداد کا عشرِعشیربھی نہیں بنتی۔ لہٰذا والی صاحب کا ہر گاؤں میں اسکول تعمیر کروانا صرف ایک واہمہ ہے۔ اور جگہ جگہ کالجوں کا ہونا بھی مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے کہ ریاست کے خاتمے کے وقت پوری ریاست میں صرف ایک جہان زیب کالج ہی 1952ء سے پہلے انٹر (ایف اے، ایف ایس سی) اور پھر ڈگری لیول (بی اے، بی ایس سی) کی تعلیم کی سہولت فراہم کر رہا تھا اور دو کالج (ایک مٹہ اورایک بونیر میں) زیرِ تعمیر تھے یا دوسرے لفظوں میں ان میں درس و تدریس کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔
علاوہ ازیں تعلیم ہر کسی کے لیے مکمل طور پرمفت نہیں تھی۔ اس لیے کہ تعلیمی اداروں میں ٹیوشن فیس وصول کی جاتی تھی۔ تاہم غریب طلبہ کے لیے فیس کی معافی کے علاوہ مفت یونیفارم اورکتابوں کی فراہمی کی شق اورگنجایش موجود تھی۔ جہاں تک والی صاحب کا اپنے ذاتی خرچے پر طلبہ کو انگلینڈاوریورپ بھیجنے کا تعلق ہے، تواس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت ابھی تک کوئی بھی سامنے نہیں لاسکا۔ خود والی صاحب کے مطابق: All levels and groups of society were eager for education: all they could obtain here within the State, and even outside at State expense or at their own expense. یعنی معاشرے کے تمام پرت اور گروہ تعلیم کے نہایت آرزو مند تھے: جتنا وہ یہاں ریاست کے اندر حاصل کرسکتے تھے، اور حتیٰ کہ ریاست کے باہر ریاست کے خرچ پر یا اپنے ذاتی خرچ پر۔ (ملاحظہ ہو والی صاحب کی فریڈرک بارتھ کو بیان کردہ انگریزی میں خود نوشت سوانح عمری ’’دی لاسٹ والی آف سوات‘‘، بنکاک سے 1995ء میں شایع شدہ ایڈیشن، کا صفحہ 112۔)
جو سکالر شپ ریاستِ سوات کے طلبہ کو ریاست سے باہر پڑھائی کے لیے دی جاتی تھی، وہ اُس رقم سے دی جاتی تھی جو پاکستان والی صاحب کے والد اور پیش رو حکم ران میاں گل عبد الودود المعروف باچا صاحب کوبہ طورِ حکم ران سالانہ وظیفہ کے طور پر دیتی تھی، لیکن اُس نے اُس کی وصولی سے یہ کَہ کردست برداری اختیار کی کہ قاید اعظم اسے پاکستان کے عوام کے کسی تعلیمی مقصد کے لیے استعمال کریں۔ اِس پیشکش کو قبول کیا گیا، تاہم صوبائی حکومت نے اس رقم کو ریاستِ سوات کے اُن طلبہ کو بہ طورِ وظیفہ دینے کے لیے مختص کیا جن کے نام ریاست کا حکم ران تجویز کرے۔ (ان اُمورکی تفصیل کے لیے میری انگریزی کتاب ’’سوات سٹیٹ (1969-1915)‘‘ یا اس کے اُردو ترجمے ’’ریاستِ سوات(1915ء تا1969ء)‘‘ کے باب 9 کوملاحظہ کیا جاسکتاہے۔)
مفت اورفوری انصاف اور وکیلوں کے نخرے نہ ہونے کے ضمن میں یہ واضح ہو کہ مقدمات کے فیصلے یقینا فوری ہوجاتے تھے اور وکلا کے نخرے بھی نہیں تھے، لیکن ریاستِ سوات میں انصاف کی فراہمی کے حوالے سے بہت مبالغے موجود ہیں۔ تحصیل دار سے لے کر حکم ران تک، جس کے بھی ہاتھ میں مقدمات کے فیصلے کرنے کا اختیار تھا، تو انصاف سے زیادہ فیصلہ کنندہ کا صواب دید کار فرما رہتا تھا اور کئی ایک عوامل مقدمات کے فیصلوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہوتے رہتے تھے، جن کی تفصیل دینے کی یہاں گنجایش نہیں۔ تاہم اُس نظام میں اس حوالے سے جو خوبیاں تھیں، وہ مقدمات کا جلد فیصل ہونا اور مقدمات کے فیصلے ہونے کے بعد انھیں بلاتاخیر لاگو کیا جانا تھا۔ لہٰذامقدمات کے فیصلے مبنی برانصاف ہوتے یا نہ ہوتے، ان کا فوری عملی نفاذ مقدمات کو ختم ہی کر دیتا تھا۔
جہاں تک انصاف بلکہ دوسرے لفظوں میں مقدمات کے فیصلوں کا مکمل طور پر مفت ہونے کا تعلق ہے، تو اگرچہ مقدمات کے فیصلوں پر فریقین کو بہت زیادہ مالی اخراجات برداشت نہیں کرنے پڑتے تھے، لیکن مقدمات کے فیصلے بالکل مفت بھی نہیں تھے۔ اس لیے کہ درخواست دایر کرتے وقت اسٹامپ پیپر کی قیمت کی صورت میں ایک طرح کی کورٹ فیس ادا کر دی جاتی تھی۔ مزید یہ کہ بعض دوسرے اخراجات کے علاوہ اکثر نقد ی یاتحفوں کی صورت میں رشوت بھی دینا پڑتی تھی، خاص کر زیریں عدالتوں میں۔ والی صاحب کے دورِ حکم رانی میں، زیریں عدالتوں میں رشوت دینے اورلینے کی موجودگی (نقد اور تحفوں دونوں کی صورت میں) کا اُس دور کے بہت سارے لوگوں کو علم تھا اور ہے۔
اس حوالے سے عبدالحلیم ایڈوکیٹ (آف غالیگے، جو والی صاحب کے اسسٹنٹ سیکریٹری اور انفارمیشن افسر کے عہدوں پر فایز رہ چکا تھا) بھی اکثر باتوں باتوں میں مثالوں کے ساتھ ذکر کیا کرتا تھا۔
تاہم 12 اکتوبر 2014 ء کو راقم کو دیے گئے باقاعدہ انٹرویومیں اُس کی یہ باتیں اِس پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں۔ حلیم صاحب نے بتایا کہ جب باچا صاحب نے کہا کہ والی صاحب اپنے بیٹوں کو ریاستِ دیر والوں اور دوسرے حکم رانوں کی طرح حکومتی منصب دیں، یعنی اُن کو مختلف علاقوں میں تحصیلوں کے سربراہ مقرر کریں، تو والی صاحب نے کہا کہ نہیں…… اس لیے کہ تحصیل دار وغیرہ رشوت لیتے ہیں۔ اس کے بغیر ان کا گزارا نہیں ہوتا۔ اگر میں اپنے بیٹوں کو یہ عہدے دے دوں اور مختلف علاقے جیسا کہ شانگلہ اور بونیر وغیرہ ان کے حوالے کروں، تو یہ بھی رشوت لیں گے۔ اس کا اثر اچھا نہیں ہوگا۔ لوگ تنگ بھی ہوں گے اور کچھ کَہ بھی نہیں سکیں گے۔ (یاد رہے کہ حلیم صاحب کا والد بھی باچا صاحب اور والی صاحب کے ا دوار میں ریاستی منصب پرفایز رہا تھا۔)
والی صاحب کے دور میں نہ صرف تحصیل دار وغیرہ رشوت لیتے تھے بلکہ سیدو شریف کے مرکزی دفاتر میں متعین کلرک وغیرہ میں بھی اس جرم کا ارتکاب کرنے والے موجود تھے۔ اس حوالے سے دوسرے افراد کے بیان کردہ ثبوتوں کے علاوہ، حلیم صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ کسی نے والی صاحب سے کہا کہ فُلاں کلرک رشوت لیتا ہے۔ جواب میں والی صاحب نے کہا کہ اس کے ایک بھائی کی مینگورہ میں دکان ہے اور وہ بہت کماتا ہے۔ اگر یہ کلرک رشوت نہ لے، تو اس کی بیوی بچے اس کی تنخواہ میں اُس طرح یا اُس سطح کی زندگی کیسے گزاریں گے جیسا کہ اس کے دکان دار بھائی کی بیوی بچے گزارتے ہیں۔ اس کا مقابلہ خاندان کے اندر ہی ایک کاروباری یا تاجر پیشہ فرد سے ہے۔
علاوہ ازیں ’’آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘ کا قانون کبھی مکمل طور پر نافذ نہیں رہا اور سارے قاتلوں کو کبھی موت کے گھاٹ نہیں اُتاراگیا۔ خود والی صاحب کے مطابق، ریاستِ سوات میں سالانہ اوسطاًقتل کے 22 واقعات ہوتے تھے، جن میں دو یا تین میں قاتلوں کو قصاص میں قتل کیا جاتاتھا۔ باقی کو جیل کی سزا دی جاتی تھی یا ان پربھاری جرمانہ عاید کیا جاتا تھا۔ (ملاحظہ ہو والی صاحب کی محولہ بالا انگریزی میں خود نوشت سوانح عمری ’’ دی لاسٹ والی آف سوات‘‘، کے صفحات 124 تا126 ۔)
1965ء میں ریاست بھرمیں نہ بہت زیادہ اسپتال تھے اورنہ اعلا درجے کے زیادہ ڈاکٹر۔ اس بات میں بھی زیادہ وزن نہیں کہ والی صاحب نے ’’دریائے سوات پر جگہ جگہ بڑے بڑے پل تعمیرکرائے۔ ‘‘ اس لیے کہ دریائے سوات پر تین بڑے پل یعنی مدین، باغ ڈھیرئی اور کانجو کے قریب والے پل، والی صاحب کے والد و پیش رو باچا صاحب کے دور میں بنائے گئے تھے۔ والی صاحب کے دور میں صرف بری کوٹ اور پارڑیٔ کے قریب اور خوازہ خیلہ کے پلوں کا اضافہ ہوا تھا۔ تاہم کانجو کے قریب والا پل، جو پہلے لکڑی کا بنا ہواتھا، سیمنٹ کابنایا گیا۔
جہاں تک سوات کے ہر باشندے کے لیے باعزت روزگار کے مواقع میسرہونے اور اگر کوئی کام کرنا چاہتاتھا، تواس کے لیے ہمیشہ دروازے کھلے رہنے اور کوئی بے روزگار نہ ہونے کا تعلق ہے، توسوات کے بے شمار باشندوں کا روزگار کی تلاش میں سوات سے باہر جانا اور وہاں پر مختلف قسم کے ملوں میں مزدوری کے کام اور دوسری قسم کی تمام مزدوریوں کے عام کام ایسے ثبوت ہیں جن کی کسی طرح تردید کی کوئی گنجایش موجود نہیں۔ اوریہ اس کا بھی ثبوت ہے کہ سوات میں بے روزگاری بھی تھی، ہر کسی کو ملازمت اور مزدوری بھی میسر نہ تھی اور ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ بھی نہیں تھا۔
اگر مذکورہ دعوے درست ہیں، توسوات کے باشندے کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں کے علاوہ ملک سے باہر روزگار کے لیے دردر کی ٹھوکریں کیوں کھاتے رہے؟ اور کراچی میں ریاستِ سوات کے باشندوں کا’’مجلس پختون ریاستِ سوات ‘‘ یا ’’مجلس پختون سوات‘‘ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟اور کراچی میں قایم کیے گئے ’’سوات یوتھ ایسوسی ایشن ‘‘ کے ممبروں کا تعلق کہاں سے تھا؟
کالم نگار کے مذکورہ دعوؤں کی تردید کے لیے دوسرے شواہد کے علاوہ خود والی صاحب کا 1960ء میں جاری کردہ یہ حکم نامہ ہی کافی ہے جس کو اُردوکے قالب میں کچھ اس طرح ڈھالا جاسکتا ہے کہ جو لوگ مزدوری کی خاطر سوات سے باہر گئے ہیں، وہ اپنی بے چارگی یاغربت کی وجہ سے گئے ہیں۔ لہٰذا اگر سوات سے خوانین و ملک یا دوسرے لوگ وہاں اُن کے ہاں چلے گئے، اُن کے ساتھ سکونت اختیار کی، اپنے اخراجات کے لیے ان پر بوجھ بنے، ان سے رقم مانگی یاان کے ذریعے سے چندہ کرنے لگے اوریہ ذکر شدہ باتیں ان کے خلاف ثابت ہوئیں، توان سے مبلغ پانچ سو روپے جرمانہ وصول کیا جائے گا۔
والی صاحب کے اس واضح حکم نامے کے بہ طورِثبوت موجود ہونے کے باوجودبھی اگرکوئی اس پربہ ضد ہو کہ ریاستِ سوات اور والی صاحب کے دورِحکم رانی میں خوشحالی کا دور دورہ تھا، سوات کے ہر باشندے کے لیے سوات میں باعزت روزگا رکے مواقع ہر وقت میسر تھے، اورجو کوئی کام کرنا چاہتاتھا، تواس کے لیے ہمیشہ دروازے کھلے رہتے تھے اور کوئی بے روزگار نہیں تھا،تواُس پرافسوس کے سواکچھ بھی نہیں کیاجاسکتا۔
  والی صاحب کے دورِ حکم رانی میں مستقبل میں بھی اس حوالے سے حوصلہ افزا صورتِ حال اور نوکریوں کی فراہمی کی کوئی ضمانت یا یقینی صورت حال نہیں تھی۔ اس ضمن میں خود والی صاحب کی تشویش کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ عبدالحلیم ایڈوکیٹ (والی صاحب کے اسسٹنٹ سیکریٹری اور انفارمیشن آفیسر) کے مطابق: ایک دفعہ میں والی صاحب کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا۔ جب ہم مینگورہ سے گزر رہے تھے، تو ایک گلی سے بہت سے لڑکے نمودار ہوئے۔ اُن کو دیکھتے ہوئے والی صاحب نے کہا کہ اتنے لوگوں کو روزگار یا نوکریاں کون مہیا کرے گا؟
جہاں تک ریاستِ سوات میں ہر میٹرک پاس فرد کے لیے بغیر کسی رشوت اور سفارش کی ملازمت مہیا کرنے کی بات ہے، تو یہ سب کچھ کسی اُصول، پالیسی اور مقابلے کے امتحانات کے تحت نہیں بلکہ والی صاحب کے صواب دید پر منحصر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ والی صاحب میٹرک نہیں بلکہ انگریزی میں ایم اے یعنی ماسٹر کرنے کے باوجود مینگورہ سے تعلق رکھنے والے محمد ہراج صاحب کو نوکری دینے سے اپنے اقتدار کے اختتام تک انکاری رہا اور وہ والی صاحب کے دورِحکم رانی میں اس کے دفتر کے چکر کاٹنے کے باوجود ملازمت سے محروم رہا۔ تاہم ریاست اور والی صاحب کی حکم رانی کے خاتمے کے بعد لیکچرر تعینات ہوا اور بعد میں بہ طورِ پروفیسر اور پرنسپل جہان زیب کالج سرکاری نوکری سے سبک دوش ہوا۔ اگر والی صاحب کی حکم رانی برقرار رہتی، تو ہراج صاحب کی طرح دوسرے بھی اہلیت کے باوجود اُس کی ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر سرکاری ملازمتوں سے محروم رہتے۔ لہٰذا ریاستِ سوات اور والی صاحب کے دورِ حکم رانی میں سرکاری ملازمتوں کا حصول اور مہیا کیا جانا بلا امتیاز نہیں تھا۔
ریاستِ سوات کے دفتری نظام میں اقربا پروری اور رشوت ستانی ایک کھلی حقیقت تھی۔ رشوت ستانی کے ضمن میں اوپر بیان شدہ مثالیں کافی ہیں اور اقربا پروری کی کسی حد تک توثیق خود والی صاحب کی انگریزی میں تحریر خود نوشت سوانح عمری ’’دی لاسٹ والی آف سوات‘‘ سے بھی ہوتی ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’’برائے نام ٹیکس نافذ تھا جو زیادہ سے زیادہ سو روپے سالانہ تھا۔ عموماً پانچ روپے سالانہ ہوا کرتا تھا۔‘‘ تو اُس دور کے 100 اور پانچ روپے کی قدر کتنی زیادہ تھی؟ یہ آج کل کے 100 یا پانچ روپے نہ تھے۔ اُس وقت کے 100 یا پانچ روپے کی قدر کا اندازہ کالم نگار کے ذکر کردہ اُس وقت کے سونے کے بھاؤ سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔
ریاستِ سوات کے بجٹوں میں ریاستی آمدنی کے دیے گئے ذرایع سے واضح ہے کہ یہ ساری آمدنی ریاستی عوام ہی سے مختلف مدوں میں وصول کی جاتی تھی۔ خاص کر عشر اور دوسرے ٹیکسوں کی صورت میں، جس کے ادا کرنے کے لیے محترم کالم نگار کے ساتھ ساتھ دوسرابھی کوئی اَب ادا کرنے کو تیار نہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی ایک واہمہ ہے کہ ریاستِ سوات میں تمام ترقیاتی کام اپنے ہی وسایل سے کیے جاتے تھے۔ ان کاموں میں پہلے ہندوستان کی انگریز سرکار اور بعد میں کالم نگار کے دعوے کے برعکس حکومتِ پاکستان کی طرف سے بھی مختلف مدوں میں ریاستِ سوات کو مالی مدد ملتی رہی ہے۔ (ریاستِ سوات کی آمدنی کے ذرایع کے لیے ملاحظہ کیجیے میری انگریزی کتاب ’’سوات سٹیٹ (1969-1915)‘‘ یا اس کے اُردو ترجمہ ’’ریاستِ سوات (1915ء تا 1969ء)‘‘ کا باب 8۔)
یہ بات کہ’’ اب بھی اگر حکومت پاکستان چاہے، توہم ریاست سوات کی بحالی کی صورت میں اپنا ریاستی خرچہ اور جملہ اخراجات اپنے سوات کے وسایل سے پورا کرسکتے ہیں اور سوات کو پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ بس، آزمائش شرط ہے، قارئین، اُس وقت سونے کا بھاؤ کیا تھا؟ شاید 80 روپے تولہ اور اب 70 ہزار روپیہ فی تولہ ہے۔‘‘ یہ ایک واہمہ اورخواہش تو ہوسکتی ہے لیکن عملیت پسندی نہیں۔ اس لیے کہ وقت کا پہیہ پیچھے نہیں گھمایا جاسکتا۔ گذشتہ 53 سالوں میں پُل کے نیچے سے ڈھیر سارا پانی بہہ چکا ہے۔ حالات اور لوگوں کی سوچ بہت بدلچکی ہے۔ لوگوں کی نئی سوچ، تعلیم، چیزوں اور اُمورکو دیکھنے کے انداز اور اقداروغیرہ میں جوبہت بڑی کلیدی اور بنیادی تبدیلیاں آ ٓئی ہیں، ان میں شخصی طرزِ حکم رانی کی کوئی گنجایش نہیں۔
ریاستِ سوات میں خود والی صاحب ہی کا دورِ حکم رانی آخر میں اُس جیسا نہیں رہا تھا جو پاکستان میں ایوب خان کے برسرِاقتدار ہونے کے دور میں تھا۔ اِس کا اعتراف خود والی صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح عمری ’’دی لاسٹ والی آف سوات‘‘ میں کیا ہے۔ مزید یہ کہ اس بات کی کون سی ضمانت اور یقین ہے کہ اب کی بار جو شخصی حکم رانی قایم ہوگی، اگر اس میں نئے حکم رانوں کا تعلق والی صاحب کی اولاد میں سے ہو، تو اس کے حکم رانوں میں وہ جوہر ہی ہوں گے جو ان کے اجداد میں تھے؟ یہ بھی کہ اب کی بار قایم ہونے والی ریاستِ سوات، سابقہ ریاستِ سوات جیسی ہی ہوگی؟ ریاستِ سوات کے سابقہ حکم رانوں کی اولاد میں تو اتنی رقابتیں اورایک دوسرے کے لیے ناپسندیدگیاں ہیں جو سابقہ ریاستِ دیر کے حکم ران خاندان میں موجود رقابتوں کو مات دیتی ہیں۔ سابقہ ریاستِ دیر میں سابقہ ریاستِ سوات جیسے ترقیاتی کاموں کے نہ ہونے یا کم ہونے، اورسیاسی عدم استحکام کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ وہاں کے حکم ران خاندان کے اندر ہمیشہ سے اختلافات اور ذاتی اقتدار کے حصول کی خاطر جاری کشمکش اور رسہ کشیاں ہی تھی۔ اس عامل کا اِدراک ریاستِ دیر کے بارے میں لکھنے والے عمومی طور پر نہیں کر پائے ہیں یا ریاستِ دیر میں ترقیاتی کاموں کے نہ ہونے یا کم ہونے میں اس عامل کے کردار کو سمجھنے سے عاری رہے ہیں۔
اگر نئی ریاستِ سوات کا حکم ران، والی صاحب کے خاندان سے ہو، تو اُس کے چناو یا انتخاب کے لیے اہلیت کا معیار و پیمانہ اور طرزِ انتخاب کیا ہوگا؟ اور اگر والی صاحب کے خاندان سے نہ ہو اور کوئی دوسرا شخص یا کسی دوسرے خاندان سے ہو، تو بھی اُس کے چناو یا انتخاب کے لیے اہلیت کا معیار و پیمانہ اور طرزِ انتخاب کیا ہوگا؟ اور اِن سب اُمور کے ضمن میں فیصلہ سازی کے اختیارات کس یا کن کے ہاتھوں میں ہوں گے؟ یہ اور اس طرح کے دیگر چبھتے ہوئے سوالات کا جواب اور حل اتنا سادہ اور آسان نظر نہیں آرہا۔
علاوہ ازیں ریاستِ سوات میں مختلف قسم کے جو براہِ راست ٹیکس لاگو تھے اور جس طریقے سے انھیں وصول کیا جاتا تھا، وہ بھی اب قابلِ عمل نہیں۔ جہاں تک اُس وقت کے اور اب کے سونے کے بھاو کا تعلق ہے، تو نہ تو سونا سوات میں پیدا ہوتا تھا کہ اس کے بھاو کم تھے، اور نہ اس کے بھاو کا تعین ریاستِ سوات کرتی تھی…… اور نہ ریاست پاکستان کرتی ہے، بلکہ یہ کئی ایک بین الاقوامی عوامل پر منحصر ہوتا ہے اور وہ اس کا تعین کرتے ہیں۔ نیز اس کو بھی دیکھنا ہے کہ اس وقت لوگوں کی تنخواہ یا آمدنی وغیرہ کتنی تھی اور اب کتنی ہے؟ تقابلی جایزے کے لیے بہت سے عوامل کو بہ غور دیکھنا اورمدِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ یہ سادہ اورآسان کام نہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یحیٰ خان کے پیٹ میں ریاستِ سوات کو ختم کرنے کا مروڑ کیوں پیدا ہوا؟ اور اس مروڑ کو پیدا کرنے میں دوسرے عوامل کے علاوہ سوات کے اپنے ہی بعض سرکردہ افراد کا کیا کردار تھا؟ یہ مروڑ تو دوسرے عوامل کے علاوہ ریاستِ سوات کے بعض افراد کے پیٹ میں مروڑ کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ اس مروڑ کو پیدا کرنے والوں میں سوات کے اپنے سرکردہ اور نامی گرامی افراد اور ’’ملکی رورولی‘‘ اور’’سوات لبریشن مومنٹ‘‘ جیسی تنظیموں کے ساتھ ساتھ خود والی صاحب بھی شامل تھا۔ والی صاحب خود ہی اعتراف کرتا ہے کہ اس نے کئی افسروں اور افراد کے ذریعے یحیٰ خان کو پیغام بھیجا کہ to take over the State یعنی کہ ریاستِ سوات پر قبضہ کرو۔ اس لیے کہ If one cannot rule properly, it is better to retire honourably. یعنی اگر کوئی صحیح طور حکم رانی نہیں کرسکتا، تو اس سے با عزت طور پر سبک دوش ہونا ہی بہتر ہے۔ (کچھ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو والی صاحب کی محولہ بالا انگریزی میں خود نوشت سوانح عمری ’’دی لاسٹ والی آف سوات‘‘ کے صفحات 132 اور 133)۔ (ریاستِ سوات کے خاتمے میں والی صاحب کے کردارکے لیے میری انگریزی کتاب ’’سوات سٹیٹ (1969-1915)‘‘ یا اس کے اُردو ترجمہ ’’ریاستِ سوات (1915ء تا1969ء)‘‘کا باب 10 ملاحظہ کیاجاسکتاہے۔)
اور والی صاحب کا مذکورہ بیان اس بات کا اعتراف ہے کہ آخر میں انتظامیہ پر اُس کا کنٹرول ڈھیلا پڑگیا تھا اور وہ صحیح طور پر حکم رانی کے قابل نہیں رہاتھا یاصحیح طور پر حکم رانی نہیں کر پاسکتا تھا۔
بہ قولِ عبدالحلیم ایڈوکیٹ (آف غالیگے، جو، جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے، والی صاحب کا اسسٹنٹ سیکریٹری اور انفارمیشن آفیسر تھا) والی صاحب ریاست کے خاتمے کے حق میں تھا۔ حلیم صاحب مجھے بتایا کرتا تھا کہ والی صاحب کہا کرتا تھا کہ “There is no justification for the state. Why it should survive?” یعنی ریاست کے وجود کا کوئی جواز نہیں۔ یہ کیوں برقرار رہے؟ جواب میں، مَیں کَہ دیتا کہ “There is the justification that it is federal area.” یعنی کہ اس کا جواز یہ ہے کہ یہ ایک وفاقی علاقہ ہے، مطلب یہ کہ یہ وفاقِ پاکستان کا حصہ ہے۔ اس جواب پر والی صاحب ہر دفعہ خاموش رہا اور مَیں بھی۔ ہم نے اس نکتہ پر کبھی مزید بحث نہیں کی۔ حلیم صاحب کے بہ قول، والی صاحب ریاست کے خاتمے پر ناخوش نہیں تھا۔ وہ کہا کرتاتھا کہ مَیں نے اسے بہت میچور یعنی پختہ حالت میں حوالے کیا۔ حلیم صاحب کی یہ باتیں، جو کہ وہ اکثر بتاتے تھے، اُس نے مجھے 12 اکتوبر 2014ء کوپشاور میں ایک طویل ملاقات اور باقاعدہ انٹرویو کے دوران میں بھی بتائیں جو کہ میری اُن سے آخری ملاقات اور انٹرویو ثابت ہوا۔
حلیم صاحب کی یہ باتیں، والی صاحب کی محولہ بالا باتوں کی پشت بانی کرتی ہیں کہ والی صاحب نے یحیٰ خان کو ریاست کے ختم کرنے کا کہا۔ حلیم صاحب کے بہ قول، والی صاحب اپنے ولی عہدمیاں گل اورنگ زیب کے رویے اور کردار سے ناخوش تھا جس کی وجہ سے وہ اس بات کی طرف مایل تھا کہ ریاست کو اُس کی زندگی ہی میں ختم کیا جائے۔ حلیم صاحب کی ان باتوں کی تصدیق، فضل رازق شہاب صاحب کی 16 اکتوبر 2019 ء کو بتائی ہوئی اُن باتوں سے بھی ہوتی ہے کہ والی صاحب ریاستِ سوات کے خاتمے کے حق میں تھا اور یہ کہ والی صاحب، ولی عہد کے رویے اور طرزِ عمل سے خوش نہیں تھا۔
حلیم صاحب یہ بھی بتایا کرتا تھا کہ مَیں نے پاکستان کے اُس وقت کے ایک نام ور وکیل بیرسٹر ظہورالحق سے بات کی تھی کہ ہم ریاست کے خاتمے کو عدالت میں اس بنیاد پر چیلنج کرتے ہیں کہ یہ اختیار لوگوں کی رضا مندی سے مشروط ہے، کسی اور کے ہاتھ میں صرف اُس کی ذاتی مرضی پر منحصر نہیں۔ اس لیے ریاست کا یہ خاتمہ ٹھیک نہیں۔ یہ اس لیے کہ میرے خیال میں ریاستِ سوات ایک فیڈرل سٹیٹ بن سکتی تھی۔ بیرسٹر ظہورالحق کی بھی یہی رائے تھی۔ ہم نے کیس یا رِٹ پٹیشن کا ایک ڈرافٹ بھی تیار کیا تھا۔ تاہم کیس یا رِٹ پٹیشن دائر کرنے میں ایک رُکاوٹ کیس کے اخراجات اور وکیل کی فیس کی اور دوسری فریق بننے کی آئی۔ چوں کہ اس کیس میں والی صاحب کوفریق بنانا تھا، تو اس کے لیے مَیں تیار نہ تھا۔ اس دوران میں والی صاحب کا بیٹا میاں گل امیر زیب آیا۔ ہم نے اُس سے وکیل کی فیس کے ضمن میں بات کی۔ اُس کا جواب تھا کہ یہ حلیم صاحب مجھ سے زیادہ والی صاحب کے نزدیک ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ میں والی صاحب سے اس حوالے سے بات نہیں کرسکتا۔ اس طرح بات آگے نہ بڑھ سکی۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، ریاستِ سوات کا پاکستان سے الحاق یحیٰ خان نے نہیں بلکہ پاکستان بننے کے بعد 3 نومبر 1947ء کو ریاستِ سوات کے اُس وقت کے حکم ران میاں گل عبدالودود نے کیا تھا، جب اُس نے ’’انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘‘ یا’’ضابطۂ الحاق‘‘ دستخط کیا تھا اوراُس وقت کے گورنر جنرل پاکستان محمدعلی جناح نے 24 نومبر 1947ء کو اس پر دستخط کرکے اسے منظور کیا تھا۔ اس کے بعد والی صاحب نے 12 فروری 1954ء کو ’’سپلی منٹری انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘‘ یا ’’ضمنی ضابطۂ الحاق ‘‘ پر دستخط کرکے ڈھیر سارے اُمور کے ضمن میں اپنے اختیارات پاکستان کے وفاقی قانون ساز ادارے کو سونپ دیے۔ اب اُسے پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح اس ریاست کے لیے بھی تمام وفاقی اوردیگر متفرقہ اُمورمیں (فہرست I، III اور VII شیڈول آف گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935ء)قانون سازی کا اختیارمل گیا جس میں اگر وہ چاہے، تو ریاست کا خاتمہ بھی شامل تھا۔
اگرچہ اس کے بعد کی تمام آئینی دستاویزات میں ریاستِ سوات کی خصوصی حیثیت کو بحال رکھا گیا (پہلے’’اسٹبلیشمنٹ آف ویسٹ پاکستان ایکٹ،1955ء‘‘ اور 1956 ء کے آئین کے تحت ’’اسپیشل ایریا‘‘ یا ’’خصوصی علاقے‘‘ کے نام سے اور بعد میں 1962ء کے آئین کے تحت ’’ٹرائبل ایریا‘‘ یا ’’قبائلی علاقے‘‘ کے نام سے) لیکن ان تمام دستاویزات میں، اُس ریاست کی اُس خصوصی اور علاحدہ حیثیت کو ختم کرنے کی مشروط شِق شامل رہی۔ وہ شرط یہ تھی کہ اس خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے (’’اسٹبلیشمنٹ آف ویسٹ پاکستان ایکٹ، 1955ء‘‘ کے تحت گورنر جنرل کو اور 1956 ء اور 1962ء کے آئین کے تحت صدرِپاکستان کو، ایسے طریقے سے جیسا کہ وہ مناسب سمجھے، عوام کی رائے اس بابت لیناتھی۔
یحیٰ خان نے ’’پرویژنل کانسٹیٹیوشن آرڈر، 1969‘‘یا ’’عبوری آئینی حکم نامہ،1969ء‘‘ کے تحت ریاستِ سوات کی خصوصی آئینی حیثیت کو برقرار رکھا لیکن اسی ’’پرویژنل کانسٹیٹیوشن آرڈر، 1969ء‘‘ کے تحت ریاستِ سوات کے ضمن میں بھی اُسے پاکستان کے مجلسِ قانون ساز کا وہ اختیار حاصل تھا جو’ ’ضمنی ضابطۂ الحاق‘‘ کے تحت والی صاحب نے اُسے دیا تھا۔ یحیٰ خان نے 28 جولائی 1969ء کوقوم سے اپنے خطاب میں ریاست ِسوات کے’ ’ مرجر ‘‘ ( ادغام یا انضمام) کا اعلان کیا اور 15 اگست 1969ء کو ’’دیر، چترال اینڈ سوات (ایڈمنسٹریشن) ریگولیشن، 1969ء‘‘ (ریگولیشنI آف 1969ء) کے اجرا کے ذریعے والی صاحب کو حکم رانی کے اختیارات سے سبک دوش کیاگیا۔
لیکن جیسا کہ ذکر ہوا ریاستِ سوات کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے آئینی شرط یہ تھی کہ صدر، ایسے طریقے سے جیسا کہ وہ مناسب سمجھے، اس بابت عوام کی رائے لیں گے۔ چوں کہ یحیٰ خان نے بہ طورِ صدر اس بابت عوام کی رائے نہیں لی تھی، لہٰذا مذکورہ ریگولیشن یعنی ’’دیر، چترال اینڈ سوات (ایڈمنسٹریشن) ریگولیشن، 1969ء‘‘ (جو کہ مارشل لا ایڈ منسٹریٹر زون اے نے، مغربی پاکستان کے گورنر کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے، صدر کی منظوری سے نافذ کیا تھا) میں چترال، دیر اور سوات کی ریاستوں کے ادغام یا انضمام کا ذکر نہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ ان قبایلی علاقوں میں چند انتظامی تبدیلیاں لائی جائیں جو سابقہ ریاستوں چترال، دیر اور سوات پر مشتمل ہیں۔
اس ضابطہ کی شق 3 میں مذکورہ ریاستوں کے حکم رانوں کے اختیارات کے استعمال اور انتظامی اُمور کی انجام دہی کے خاتمے کی بات کی گئی ہے اور ان ریاستوں کی چترال، دیر اور سوات کی سابقہ ریاستوں کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ مذکورہ ریاستوں کے حکم رانوں کے اختیا رات کسی فرد، افسر یا اتھارٹی کے سپرد کیے جائیں گے، جو وہ مغربی پاکستان کی صوبائی حکومت کی عمومی نگرانی اور ہدایات کے تحت استعمال کرے گا۔ اس کے اگلے دن یعنی 16 اگست 1969ء کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ اختیارات کمشنر ملاکنڈ ڈویژن کو تفویض کیے گئے، جو بعد میں متعلقہ ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں کو تفویض کیے گئے۔ لہٰذا ریاست ِ سوات اور والی صاحب کی حکم رانی کے خاتمے کو انتظامی تبدیلی اور اختیارات کی منتقلی سے تعبیر کیا گیا ہے، نہ کہ ریاست کاخاتمہ کہا گیا ہے۔
پس ریاستِ سوات کو پاکستان کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب نے 3 نومبر1947ء کو ’’ضابطۂ الحاق‘‘ دستخط کر کے بنایا، لیکن اس کی اندرونی خود مختاری کو برقرار رکھا گیا۔ تاہم والی صاحب نے 12 فروری 1954ء کو ’’ ضمنی ضابطۂ الحاق‘‘ دستخط کرکے اس کی جداگانہ یا اندورنی طور پر خود مختار ریاست کے طور پر اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے خاتمے کی راہ ہم وار کی۔
مندرج بالا قانونی اُمور اور موشگافیوں کی وجہ سے یحیٰ خان کے دورِ اقتدار میں تو صرف اس کی بہ طورِ ریاست علاحدہ حیثیت یا شناخت کا خاتمہ (یا جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ادغام یا انضمام) کیا گیا تھا، ورنہ پاکستان کے ساتھ اس کا الحاق 1947ء ہی میں کیا گیاتھا اور یہ اُسی وقت سے ریاست اور وفاقِ پاکستان کا حصہ تھا۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگرچہ 15 اگست 1969ء کو ریاستِ سوات کی علاحدہ شناخت اور اس کے حکم ران کی حکم رانی کو باقاعدہ طور پر ختم کیا گیا، لیکن اس علاقے کو ’’اسٹبلیشمنٹ آف ویسٹ پاکستان ایکٹ، 1955ء‘‘ کے تحت آئینی اعتبار سے جو علاحدہ حیثیت دی گئی تھی اور جسے بعد کی تمام آئینی دستاویزات میں برقرار رکھا گیا تھا، اُسے ویسے ہی برقرار رکھا گیا۔ اس لیے کہ اس حیثیت کو، اس بابت، اس علاقے کے عوام کی رائے لینے کے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس حیثیت کو بعد کی آئینی دستاویزات میں بھی برقرار رکھا گیا اور 1972ء کے عبوری آئین میں اسے صوبہ کے زیرِانتظام قبایلی علاقوں یعنی ’’پراونشلی ایڈ منسٹرڈ ٹرائبل ایریاز‘‘ (عرفِ عام میں ’’پاٹا‘‘) کا حصہ بنایا گیا۔ اس خصوصی آئینی حیثیت کوختم کرنا 1973ء کے آئین میں عوام کی رائے اس بابت جرگہ کے ذریعے لینے سے اس طرح مشروط کی گئی کہ بہ شرط یہ کہ اس کلاز کے تحت کوئی حکم جاری کرنے سے قبل صدر، جس طریقے سے وہ مناسب سمجھے، اس متعلقہ قبایلی علاقے کے لوگوں کی رائے نمایندہ قبایلی جرگے کے ذریعے اس بابت لے لیں۔ـ
1973 ء کے آئین میں پہلے ہی سے وضع کردہ طریقۂ کار کے مطابق چوں کہ ’’پاٹا‘‘ کے کسی نمایندہ جرگے کا اس خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے پر رضا مندی کا حصول مشکل نظر آرہا تھا، لہٰذا پہلے سے وضع کردہ اس طریقۂ کار کوپسِ پشت ڈلا گیا اور اس کے توڑ کے لیے آئین میں ترمیم کی حکمت عملی اپنائی گئی۔ اس حکمتِ عملی کے تحت مئی 2018 ء میں اسی آئین میں 25ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبے کے زیرِانتظام قبایلی علاقے یا ’’پاٹا ‘‘ (جس میں سوات بھی شامل تھا) کی اس خصوصی حیثیت کو آئین کے آرٹیکل 246 میں تبدیلیاں اور آرٹیکل 247 کو مکمل طور پر حذف کرنے کے ذریعے ختم کیا گیا۔
ایک اور اہم نکتہ یہ کہ آئین میں ترمیم کی منظوری تک صرف وفاق کے زیرِانتظام قبایلی علاقوں (عرفِ عام میں ’’فاٹا‘‘)کی خصوصی آئینی حیثیت کی ختم کرنے کی بات کی جاتی رہی۔ اس حوالے سے ’’پاٹا‘‘ کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے پر ’’پاٹا‘‘ کے لوگوں کی مخالفت اور مزاحمت کے پیشِ نظر اُن کو تاریکی میں رکھتے ہوئے آئین میں ترمیم تک اِس کا کوئی بھی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ (اس خصوصی آئینی حیثیت کو کیوں ختم کیا گیا اور اس کے لیے آئین میں پہلے سے موجود طریقۂ کارکو پسِ پشت ڈالتے ہوئے کون سا حربہ استعمال کیا گیا؟ اس کی کچھ تفصیل کے لیے دیکھیے میری انگریزی کتاب The North-West Frontier (Khyber Pukhtunkhwa): Essays on History کی نظرِثانی شدہ ایڈیشن کے صفحہ 241 تا243۔) دلچسپ بات یہ کہ پاکستان کے اس اقدام کی پیروی کرتے ہوئے ہندوستان نے پاکستان کی اس آئینی ترمیم کے چودہ ماہ بعد اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرتے ہوئے جموں اور کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو واپس لے لیا۔
والی صاحب کے علاوہ جن دوسری شخصیات نے ریاستِ سوات کے خاتمے میں کردار ادا کیا تھا، محترم کالم نگار نے اُن کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا ہے۔ محترم ایک طرف یحیٰ خان کو ریاستِ سوات کے خاتمے اور اس خاتمے کے بعد کے سوات کے حالات کا ذمے دار ٹھہراتاہے اور دوسری طرف ریاستِ سوات کے خاتمے کے خلاف لوگوں کے غم و غصے اور احتجاج کو ختم کرانے اور ریاستِ سوات کے خاتمے کے اقدام کی کوئی مخالفت نہ کرنے پر والی صاحب کی ستایش میں لکھتا ہے کہ ’’یحی ٰخان کا ادغام کا فیصلہ ایک طرفہ تھاجس میں عوام کی اکثریت کی رائے شامل نہیں تھی۔ اس لیے ریڈیوپرتقریرسنتے ہی سوات کے عوام سڑکوں پر نکل آئے ۔‘‘
اس کے بعد کاروبارِ زندگی کی بندش، مشتعل عوام کے احتجاج، جلوس اور والی صاحب کے محل تک پہنچنے سے قبل، سنٹرل اسپتال پہنچے پر والی صاحب کے اعلا نمایندے کے آ پہنچنے اور احتجاج کرنے والوں کو والی صاحب کے پیغام پہنچانے کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے کہ ’’اور بپھرے ہوئے عوام کو والی سوات کا پیغام سنایا۔ پیغام یہ تھا: ’اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ لوگوں کے درمیان رہوں، تو براہ کرم اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ اوراپنے اپنے کاموں میں لگ جاؤ۔ اگر آپ لوگ میرا یہ کہنا نہ مانیں گے، تو پھر حکومت پاکستان، نوابِ دیر کی طرح مجھے بھی ہوائی جہاز میں بٹھا کر دور کہیں جیل میں نظربند کردے گی۔ اورمَیں نہیں چاہتا کہ مَیں آپ سے دور رہوں، اور اس طرح سوات کے عوام نے اپنے اپنے دلوں پر پتھر رکھ کر والیِ سوات کا حکم مان لیا۔ دوسرے جانب والیِ سوات نے سوات کا چارج دیتے ہوئے اپنے محل سے ’یا ہادی‘ کا جھنڈا اُتار دیا اور خود اپنے ہاتھوں سے ایک محب وطن پاکستانی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا، اور اس کوسلامی دی۔‘‘
ایک طرف ریاستِ سوات کے خاتمے کے فیصلے کے لیے یحیٰ خان کو کوسنا اور موردِ الزام ٹھہرانا اور اس اقدام کو اس کے پیٹ میں مروڑ پیدا ہونا قرار دینا اور دوسری طر ف والی صاحب کا ریاستِ سوات کے خاتمے کے اس فیصلے کی کوئی مزاحمت نہ کرنے، اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ٹھنڈاکرنے، اور اس خاتمے کو بہ خوشی قبول کرنے کے اقدام کو سراہنا، ایں چہ بوالعجبی است۔
ایک اوربات یہ کہ ریاست کے خاتمے کے اعلان پر سوات بھرکے عوام نہیں بلکہ مینگورہ اور سیدو شریف کے عوام کا ایک حصہ احتجاج کی خاطر نکل آیا تھا۔ مزید یہ کہ والی صاحب نے اپنے ذاتی محل پر پاکستان کا پرچم کون سے اصول کے تحت لہرایا؟ ریاستی پرچم تو عام حالات میں گھروں پر نہیں بلکہ سرکاری دفاتر اور جگہوں وغیرہ پر لہرایا جاتا ہے۔ ریاستِ سوات تو اب پاکستان کا حصہ نہیں بنا بلکہ جیسا کہ پہلے ہی کافی وضاحت سے بتایا گیا ہے، یہ تو 1947ء میں پاکستان کے ساتھ ’’انسٹرومنٹ آف ایکسیشن ‘‘ یا ’’ضابطۂ الحاق‘‘ کے دستخط کرنے کے ساتھ پاکستان کا حصہ بنا تھا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’’سابق والئی سوات میجر جنرل میاں گل عبدالحق جہان زیب کی وفات کے ساتھ سوات کا ایک تاریخی باب بند ہوا۔‘‘ تو سابق والئی سوات کی وفات کے ساتھ سوات کی تاریخ کا ایک باب نہیں بلکہ اُس کی زندگی کا باب بند ہوا۔ سوات کی تاریخ کا ایک باب 15 اگست 1969ء کو ’’دیر، چترال اینڈ سوات (ایڈمنسٹریشن) ریگولیشن، 1969ء‘‘ (ریگولیش I آف 1969ء) کے اجرا کے ساتھ والی صاحب کی حکم رانی کے اختیارات سے سبک دوشی اور اس کے نتیجے میں ریاستِ سوات کے اختتام کے ساتھ ہی بند ہوا تھا۔
کالم نگار صاحب کی مذکورہ بالا باتیں اور دعوے، غیر ہم آہنگ بیانات اورباتوں کا مرقع ہونے کے علاوہ ذہنی الجھن کی عکاسی بھی ہیں۔ ستم ظریفی ہے، کہ یہ اوراس طرح کے دوسرے ملغوبات، محترم نے اپنی کتاب’’ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘ میں بھی شامل کیے ہیں۔
محولہ بالا کالموں اور تحریروں میں نہ صرف مذکورہ بالا باتیں اور دعوے غیرحقیقت پسندانہ ہیں، بلکہ ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو تاریخی حقایق کے منافی ہے۔ تاہم ان سب کا یہاں پر اِحاطہ اور تجزیہ ممکن نہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہمارے صاحبانِ قلم کچھ لکھتے وقت، قلم اور تحریر کے تقدس کا خیال رکھتے اور مختلف اُمور کو ضبطِ تحریر میں لانے میں احتیاط سے کام لیتے۔ نیز مبالغہ آمیزی سے اجتناب برتتے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں