فياض ظفرکالم

سوات کو بچایا تھا، آگے بھی بچائیں گے

مینگورہ بائی پاس پر ایک دردناک خود ساختہ آپریشن میں معصوم باپ علی سید اور ان کے بیٹے کی شہادت کے بعد جب خبر آئی کہ بائی پاس میں سیکورٹی فورسز نے آپریشن میں انتہائی خطر ناک دہشت گردوں کو واصلِ جہنم کیا ہے، تو یہ خبرسوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ حیران تھے کہ مینگورہ بائی پاس جیسی مصروف جگہ میں ایک گھر کے اندر اتنے خطرناک دہشت گرد کیسے موجود تھے؟ مجھے ایک محب وطن سواتی نے صبح وٹس ایپ پر پیغام بیجھا کہ تم دفتر میں ہو؟ مَیں نے جواباً لکھ بھیجا کہ جی ہاں! دفتر ہی میں ہوں۔ کچھ دیر بعد وہ آیا اور مجھے کہا کہ بائی پاس پر جس باپ بیٹے کو قتل کیا گیا ہے، وہ دہشت گرد نہیں تھے اور یہ پیسوں کے لین دین کا معاملہ تھا۔
اس کے کچھ دیر بعد آج نیوز کے بہادر رپورٹر انور انجم دفتر پہنچے۔ انھوں نے بھی یہی پیغام دیا، لیکن ثبوت نہیں تھا۔ مَیں دفتر سے اُٹھ کر سنٹرل ہسپتال کے پوسٹ مارٹم پہنچا۔ وہاں مردے تو موجود تھے، لیکن کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔ مَیں بائی پاس پر جاکر اُن کے گھر پہنچا، تو وہاں شہید علی سید کا چھوٹا بیٹا ملا، جس نے مجھے کہانی سنائی اور اپنے بھائی کا فون نمبر دیا۔ مَیں نے شہید علی سید کے بیٹے وقاص سے رابطہ کیا، تو انھوں نے پوری تفصیل بتائی۔ شام تک مَیں نے تمام شواہد اکھٹے کیے اور سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کے ذریعے وہ تمام تفصیل شیئر کی، جس سے واضح ہوگیاکہ مرنے والے دہشت گرد نہیں تھے بلکہ محب وطن پاکستانی، پشتون اور سواتی تھے۔
مذکورہ پوسٹ ہزاروں لوگوں نے شیئر کی، جس کے اگلے روز ’’سوات اولسی پاسون‘‘ کے بانی ارکان فواد خان، آفتاب خان، ضیا خان، احتشام، جواد خان اور دیگر دفتر آئے اور اس واقعے کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا۔
اس احتجاج میں شرکت کے لیے مَیں نے سنیٹر مشتاق احمد خان کو فون کیا، تو انھوں نے کہا کہ سینٹ کا اجلاس ہے۔ مَیں نے انھیں کہا کہ سینٹ کے اجلاس سے زیادہ یہ احتجاج ضروری ہے۔ سنیٹر مشتاق احمد خان نے بھی ایک لمحہ ضائع کیے بنا ہاں کردی اور کہا کہ وہ احتجاج میں شرکت کریں گے۔
اس طرح مَیں نے اے این پی کے سردار حسین بابک کو بھی فون کیا اور ان کو صورتِ حال سے آگاہ کرکے احتجاج میں شرکت کی دعوت دی۔ بابک صاحب نے کہا کہ مَیں چارسدہ میں ایمل ولی خان کے انتخابی مہم میں ہوں۔ مَیں نے بابک صاحب سے سوال کیا کہ انتخابی مہم ضروری ہے یا سوات کے مظلوم عوام……! اس کے بعد انھوں نے بھی شرکت کی دعوت قبول کرلی۔
بابک صاحب کے بعد ایم این اے محسن داوڑ کو فون کیا، تو انھوں نے کہا کہ مَیں ایک ضروری کام کی وجہ سے نہیں آسکوں گا، لیکن میں اپنی جگہ افراسیاب خٹک کو بھیج دوں گا۔
منظور پشتین سے ادریس باچا یا عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ نے رابطہ کیا۔ منظور پشتین نے جواباً کہا کہ ہر روز اگر سوات کے عوام کے لیے مجھے آنا پڑا، تو ہر روز حاضری دوں گا۔
اس کے بعد ’’سوات اولسی پاسون‘‘ نے ساتھیوں کو ذمے داریاں دیں اور سوشل میڈیا ٹیم کو متحرک کیا۔ مَیں اور عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ روزانہ بیٹھ کر اس احتجاج کی کامیابی کے لیے باہمی صلاح و مشورہ کیا کرتے۔ احتجاج سے ایک دن قبل مَیں نے پھر سنیٹر مشتاق احمد خان، سردار حسین بابک اور افراسیاب خٹک کے ساتھ رابطہ کیا اور انہوں نے اگلے دن آنے کی یقین دہانی کرائی۔
احتجاج والے دن ہم سواایک بجے نشاط چوک پہنچے۔ سوات کے غیور عوام جوق در جوق شریک ہو رہے تھے۔ دو بجے تک نشاط چوک میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ اُس روز احتجاج میں ایسے لوگوں نے بھی شرکت کی جنھوں نے اس سے پہلے کسی احتجاج میں شرکت نہیں کی تھی۔ نشاط چوک کا بازار، گلیاں، عمارتوں کی چھتیں بھر گئیں اور پھر اُس احتجاجی جلسے سے جن مقررین نے خطاب کیا، وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہوگئے ہیں۔ اُس روز سوات کے غیور عوام اپنی سرزمین کے دفاع اور دہشت گردوں کے خلاف جس بہادری سے نشاط چوک پہنچے، اُس احتجاج نے دہشت گردوں کو سوات سے نکل جانے پر مجبور کیا اور دہشت گردوں پر واضح ہوا کہ اگر پھر کسی دہشت گرد نے سوات میں گھسنے، اپنی بہن کی عیادت کے لیے آنے یا سوات میں حالات خراب کرنے کی کوشش کی، تو سوات کے عوام اس سے زیادہ تعداد میں نکلیں گے۔
آج ملک کے دیگر حصوں میں جہاں دہشت گردی ہورہی ہے، وہاں جلسوں میں لوگ سوات کی مثال دیتے ہیں۔ اُس احتجاج کو کامیاب بنانے والے سوات اولسی پاسون، اس میں شرکت کرنے والے تمام سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور تمام لوگوں کا شکریہ (سوائے قائدینِ تاجر برادری و قائدینِ تحریکِ انصاف) جنھوں نے سوات کو بچایا اور یہی بہادر لوگ آیندہ بھی اپنی ’’ماں‘‘ (سوات) کو بچائیں گے۔ نیز کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ سوات کی سرزمین پر دہشت گرد یا دہشت گردی مسلط کریں۔ سوات پُرامن تھا، ہے اور رہے گا۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں