فضل رازق شہابکالم

سیدو ہسپتال کی ابتدائی صورتِ حال

  سیدو ہسپتال کی بہت ہی ابتدائی صورت اپنی یادداشت سے سنا رہا ہوں۔ اس کی ’’اُوپی ڈی‘‘ پتھر کی دیواروں اور لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔ اوپر سی جی آئی شیٹ لگے تھے۔ برآمدے کے دو ستونوں کی جوڑی کے بیچ لکڑی کی خوب صورت جافریاں بنی تھیں، جن پر سبز رنگ کیا ہواتھا۔ اُوپی ڈی کے پیچھے ایک پختہ ٹین کی چھت والی آبادی تھی، جو گھر کے مشابہ تھی۔ یہ آبادی دراصل باورچی خانہ تھی، جس میں داخل مریضوں اور عملہ کے لیے کھانا پکتا تھا۔ اس کے قریب ہی زیتون کے نہایت قدیم درخت اور ایک قبر کا چبوترا بنا ہوا تھا۔
روٹیاں پکانے والی دونوں خواتین افسر آباد میں رہایش پذیر تھیں۔ان میں سے ایک کا بیٹا ہم سے سکول میں ایک کلاس آگے تھا۔ وہ چھٹی کے بعد سیدھا ہسپتال کے باورچی خانے ماں کے پاس جاتا اور وہیں پر روٹی کھاتا۔
اُس لڑکے کا ماموں جس کو ہم ’’سنڈا ماما‘‘ کہتے، ’’پرشین وہیل‘‘ والے کنویں کا بھینسا ہنکاتا جس کا پانی مختلف وارڈز اور کچن تک ملازمین لے جاتے۔ اس وقت بجلی کا پمپ کسی نے شاید دیکھا بھی نہ ہوگا۔ سنڈا ماما کا اصلی نام شاید ایزاگل تھا۔
میل وارڈ عین اُس جگہ تھا، جس پر بعد میں عطاء اللہ وارڈ بن گیا تھا۔ یہ بھی لکڑی اور ٹین کی چھت والی خوبصورت عمارت تھی۔فی میل وارڈ دوسرے اینڈ پر تھا۔
میل وارڈ کی صفائی جس شخص کی ذمے داری تھی، اُس کا نام جمعہ گل تھا۔ اُس کی آنکھیں بھینگی تھیں اور لہجہ اور مریضوں کے ساتھ رویہ بہت ناگوار تھا۔
ایک نہایت کالی، لمبی اور پہلوان قسم کی خاتون ہسپتال کی انچارج تھی۔ سفید گھاگرا میں اس کا رنگ مزید کالا لگتا تھا۔ ننگی ٹانگوں پر سیاہ رنگ کی جھالیدار لمبی جراب چڑھی ہوتی تھی۔ وہ اکیلی سوات آئی تھی۔ اس کے آگے پیچھے شائد کوئی نہ تھا۔ایک سیدو وال کمپاونڈر جو بہت ہی شریف اور خاموش طبع انسان تھا، اس خاتون کے ساتھ اس کے بنگلے میں رات گزارتا تھا۔ دونوں چھٹی کے وقت جاتے، تو شکل و صورت سے بہن بھائی لگتے تھے ۔
یہ خاتون بہت دبدبے والی تھی۔ کیا مریض اور کیا سٹاف…… سب اُس کے سامنے خاموش کھڑے ہوتے۔ اکثر اُوپی ڈی کے وقت باہر برامدے میں کرسی ڈال کر خواتین مریضوں کو دیکھتی۔ ایک بڑے دانتوں والی مقامی عورت ٹوٹی پھوٹی اُردو میں ترجمانی کرتی۔
مجھے یاد نہیں کہ مَیں اُس وقت ہسپتال میں کیا کر رہا تھا، مگر اُدھر اُوپی ڈی کے سامنے لان میں کھڑا ضرور تھا۔ ایک مریض خاتون ڈاکٹرنی سے اپنا حال پشتو میں بیان کر رہی تھی۔ اُس نے مترجم سے کہا کہ اسے کیا شکایت ہے؟ خاتون کو شائد ’’یرقان‘‘ تھا، جس کو وہ ’’زیڑے‘‘ (پیلاہٹ) کَہ رہی تھی۔ دائی نے اس کا ترجمہ کچھ یوں کیا: ’’اس کو زردی ہے!‘‘ ساتھ ہنستی بھی گئی۔
اُس کے اس عمل پر ڈاکٹر صاحبہ غصہ ہوگئی اور ترجمان کی خوب خبر لی۔ مَیں جو وہاں کھڑا یہ ماجرا دیکھ رہا تھا، ڈر کے مارے بھاگ نکلا۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں