امجدعلی سحابؔکالم

فلائنگ کوچ مولوی صیب

  آج سے 22 یا 23 سال قبل نمازِ تراویح پڑھنے کے لیے ہمیں ’’محمد رحمان مسجد‘‘ (زڑہ ڈاکخانہ، مینگورہ) جانا پڑتا تھا، جہاں ’’فلائنگ کوچ مولوی صیب‘‘ محض 17، 18 منٹ کے دورانیے میں مختصر تراویح کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ بلا کے خوش طبع تھے لیکن رُکیے، اُن کے بارے میں کچھ رقم کرنے سے قبل مسجد کی تاریخ پر تھوڑی سی روشنی ڈالتے ہیں۔
زڑہ ڈاکخانہ، مینگورہ کے رہایشی اور مشہور سیاسی شخصیت ریاض احمد ایڈوکیٹ (جن کا تعلق پی پی پی سے ہے) کہتے ہیں کہمسجد کی زمین کا کچھ علم نہیں کہ کس کی ملکیت ہے، مگر سنہ 1974ء کو یہ خستہ حالی کی وجہ سے تقریباً زمین بوس ہونے کے قریب ہوئی۔ ’’اُس وقت میں صرف پندرہ سال کا ایک نوخیز لڑکا تھا، جس کی ابھی مسیں بھی پوری طرح نہیں بھیگی تھیں۔ یہ مسجد ہمارے والد حاجی حبیب الرحمان نے تعمیر کی تھی، مگر یہ اُن کے چھوٹے بھائی اور ہمارے چچا حاجی محمد رحمان کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے لیے سرمایہ حاجی حبیب الرحمان کی والدہ ماجدہ یعنی ہماری دادی نے مہیا کیا تھا۔‘‘
مسجد کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں؟ اس حوالے سے ریاض احمد ایڈوکیٹ نے معلومات تو دیں، مگر ساتھ یہ عہد بھی لیا کہ اس کا ذکر کسی سے نہ کیا جائے۔
ریاض احمد صاحب کہتے ہیں کہ فلائنگ کوچ مولوی صیب، شانگلہ کے علاقہ پورن کے باسی تھے۔ مولانا گل محمد جعفری صاحب (دارالعلوم کے صدر) کے صاحب زادے تھے۔ گورنمنٹ پرائمری سکول نویکلے (پولیس لائن کے عین سامنے) میں ٹی ٹی (تھیالوجی ٹیچر) تھے۔ وہاں سے سبک دوش بھی ہوئے۔
فلائنگ کوچ مولوی صیب کے اصل نام کے بارے میں ریاض احمد ایڈوکیٹ نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم سب اُنھیں ’’علامہ‘‘ کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔
مگر دوسری طرف میرے بچپن کے دوست اور بنجاریانو محلہ کے احسان اللہ کہتے ہیں کہ علامہ کا اصل نام ’’نور الاسلام‘‘ تھا۔ اِس کے علاوہ اُن کے دو چھوٹے بھائی شریف اللہ اور ضیاء اللہ (ایک اور دوست کے مطابق شریف الاسلام اور ضیاء الاسلام) کے نام سے بھی تھے۔
احسان اللہ کہتے ہیں کہ علامہ زندہ دل انسان تھے۔ گاہے گاہے ہمارے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کا سامان کرتے۔ کہتے ہیں: ’’ایسے ہی ایک موقع پر جب چاند رات تھی، عشا پڑھنے سے پہلے گویا ہوئے کہ صدقۂ فطر پر میرا پورے کا پورا حق ہے۔ پورا سال سارنگی مَیں بجاؤں گا اور صدقۂ فطر آپ کسی اور کی جھولی میں ڈالیں گے…… یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی!‘‘
دل میں جو ہے وہی زبان پے ہے
اور کوئی ہم میں خاص بات نہیں
شمیم عباسی کا یہ شعر آدھا یعنی اس کا پہلا مصرع علامہ پر صادق بیٹھتا ہے۔ واقعی جو اُن کے دل میں ہوتا، وہی زبان پر بھی ہوتا۔ اس کے علاوہ بھی اُن میں کئی کام کی باتیں تھیں، جو اس تحریر میں آگے پیچھے ذکر کی گئی ہیں۔
احسان اللہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جمعہ پڑھاتے ہوئے مسجد کے درمیان میں ایک شخص کو لگا کہ علامہ کی آواز آخری صف تک نہیں پہنچ رہی، تو مقتدین کی سہولت کی خاطر مسجد کے درمیان سے اُس نے علامہ کی تکبیرِ اولیٰ کے بعد بہ آوازِ بلند ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا لگائی اور علامہ کے ہر کلمہ کے بعد بلند آواز سے تکرار جاری رکھتا۔ جیسے ہی علامہ نے سلام پھیرا، تو اُس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آیندہ ایسا مت کرنا، ابھی مجھ میں اتنا دم خم باقی ہے کہ آخری صف تک اپنی آواز پہنچا سکوں، اپنی آواز کسی اور وقت کے لیے بچا کے رکھنا۔ کام آجائے گی!
قارئینِ کرام! علامہ پر خوش طبعی کی انتہا تھی۔مجھے یاد پڑتا ہے، ایک دفعہ عشا کے ساتھ تراویح پڑھنے جیسے ہی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے، تو بہ آوازِ بلند کہا: ’’مومنانو! پرتوغاخونہ ٹیٹ کئی!‘‘ یعنی مومنو! ناڑے کس کے باندھ لو۔ کیوں کہ علامہ کے بقول: ’’میری نمازِ تراویح چکڑا بس کا سفر نہیں بلکہ فلائنگ کوچ کا تیز ترین سفر ہے!‘‘
ریاض احمد ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ ’’علامہ 80ء کی دہائی میں محمد رحمان مسجد اپنے والدِ بزرگوار مولانا گل محمد جعفری کے ساتھ آئے تھے۔ مولانا گل محمد جعفری، محمد رحمان مسجد آنے سے قبل ملوک حاجی صاحب کی تعمیر کردہ مسجد (شاید اُس کا نام جامع مسجد ملوک آباد ہے، راقم) میں پیش امام تھے۔ اُن دنوں علامہ لڑکپن کے دور میں تھے۔ ہمارے خاندان نے اُنھیں رہنے کے لیے اپنا ذاتی مکان دیا۔ اُن دنوں مولانا گل محمد جعفری ہماری مسجد کے پیش امام تھے اور علامہ طالبِ علم کی حیثیت سے زندگی گزار رہے تھے۔‘‘
ریاض احمد صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’علامہ شوگر کے مریض تھے۔اُن کے بچے حیات ہیں۔ بچوں کی تعداد کے بارے میں مجھے علم نہیں۔ البتہ وہ اب پورن ہی میں زندگی کے روز و شب گزار رہے ہیں۔‘‘
علامہ کے بارے میں ریاض احمد ایڈوکیٹ کا کہنا ہے: ’’علامہ، عالم نہیں تھے، اس لیے درس نہیں دیا کرتے تھے۔ ماہِ رمضان میں مسجد میں چھے راتوں پر مشتمل تراویح میں ختم القرآن کا اہتمام کیا جاتا۔ گوگدرے سے ایک عالم کو ہم دعوت دیتے، ختم القرآن کے لیے، اُس کے بعد مولانا گل محمد جعفری کی امامت میں مختصر تراویح کا اہتمام کیا جاتا۔ یہ تان آگے چل کر علامہ پر ٹوٹی۔‘‘
کہتے ہیں: ’’علامہ مختصر تراویح 18 منٹ کے دورانیے میں پڑھاتے۔ محلے کے بڑے بوڑھوں نے ناگواری کا اظہار کیا، تو علامہ نے یہ سلسلہ 25 منٹ تک طویل کیا۔ ایک روز ایک مسافر مختصر تراویح پڑھنے مسجد میں رُکا۔ نماز پوری ادا کرنے کے بعد اُس نے علامہ کی طرف دیکھتے ہوئے بہ آوازِ بلند کہا کہ ’مولوی صاحب! تراویح کا حق ادا نہ ہوا۔‘ علامہ کے والد گل محمد جعفری نے بلا توقف جواباً کہا: ’جب صدرِ دارالعلوم (گورنمنٹ دارالعلوم اسلامیہ سیدو شریف) گل محمد جعفری، علامہ کی امامت میں تراویح پڑھتا ہے، تو ایک ایسے شخص کو علامہ پر اُنگلی اُٹھانے کا کوئی حق نہیں، جسے دین کی کچھ خاص سمجھ بوجھ نہیں۔‘‘
اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ علامہ کا نام ’’فلائنگ کوچ مولوی صیب‘‘ کیوں کر مشہور ہوا؟
اس حوالے سے ریاض احمد ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ ’’علامہ کا نام ’فلائنگ کوچ مولوی صیب‘ یوں پڑا کہ جیسے ہی دو تین شب برق رفتاری سے نمازِ تراویح پڑھائی، تو ایک شب جوشِ خطابت میں فرمانے لگے : ’احباب! اگر ایک شخص مردان سے روستم جائے گا، اور اگر وہ چکڑا بس (اُس وقت رائج بسوں کے لیے عام استعمال ہونے والی اصطلاح) میں بیٹھے گا، تو اُسے ٹھیک دو گھنٹے روستم پہنچنے میں لگیں گے…… اور اگر وہ فلائنگ کوچ کا انتخاب کرے گا، تو وہ زیادہ سے زیادہ 45 منٹ میں وہاں پہنچے گا۔‘ مذکورہ خطاب کے بعد علامہ کا نام ’فلائنگ کوچ مولوی صیب‘ پڑا۔‘‘
ریاض صاحب نے اس نکتے پر زور دیا کہ اُن دنوں فلائنگ کوچ گاڑی سفر کا نیا اور تیز ترین ذریعہ تھی۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے، جب ایک دفعہ ایک ’’شدت پسند‘‘ نے بھری مسجد میں علامہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نمازِ تراویح کا حق ادا نہیں کر رہے۔ اُس کے منھ سے جھاگ اُڑ رہی تھی۔ اُن دنوں طالبان سوات میں زور پکڑ رہے تھے۔ ایسی ہی ایک شب مولانا نے جیسے ہی وتر پڑھانے کے بعد سلام پھیرا، تو سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’احباب! یہ میری آخری نماز تھی۔ کل سے مسجد کے لیے کسی اور مولوی کا انتظام کیجیے۔ شاید اب یہاں سے ہمارا دانہ پانی اُٹھ چکا ہے۔‘‘
مسجد میں ایک شور اُٹھا، مگر علامہ فیصلہ کرچکے تھے۔
قارئینِ کرام! آپ اسے ہماری بدبختی پر محمول کیجیے، مگر اُس رات کے بعد کبھی ہمیں نمازِ تراویح پڑھنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی۔
جب مرگ پھرا کر چابُک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا
کوئی ناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سیے اور ٹانکے گا
ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا
اس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
رہے نام اللہ کا!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں