امجدعلی سحابؔکالم

کیا واقعی سوات میں حالات خراب ہیں؟

  25 ستمبر کی شام بعد از نمازِ عشا سینئر صحافی نیاز احمد خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بُک‘‘ کی اپنی وال پر ایک مختصر سی پوسٹ دی جس کے مطابق ’’آر پی اُو ملاکنڈ ڈویژن اور ڈی پی اُو سوات کو فوری طور پر تبدیل کیا گیا اور اُنھیں سی پی اُو آفس رپورٹ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔‘‘
دوسرے ہی لمحے منجھے ہوئے نوجوان صحافی حسن چٹان کا برقی پیغام موصول ہوا جس کا متن کچھ یوں تھا: ’’سوات، سفیروں کے قافلے پر دھماکا، سیکورٹی غفلت، ڈی آئی جی ملاکنڈ ڈویژن اور ڈی پی اُو سوات کو سینٹرل پولیس آفس رپورٹ کرنے کی ہدایت، عرفان اللہ ڈئی آئی جی ملاکنڈ ڈویژن اور ایس پی بادشاہ حضرت قائم مقام ڈی پی اُو کی خدمات سر انجام دیں گے۔‘‘
سفیروں کے قافلے پر حملے کے بارے میں سوات کے سینئر صحافی فیاض ظفر اپنی تحریر ’’سوات کے خلاف ایک اور سازش‘‘ میں کئی سوالات اُٹھا چکے ہیں، جن کا جواب شاید ہی انتظامیہ یا سیکورٹی اداروں کے کسی ترجمان کے پاس ہوں۔ مشتے نمومہ از خروارے کے مصداق ذرا فیاض ظفر کی مذکورہ تحریر کا یہ پیرا ملاحظہ ہو: ’’اب یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ 10، 12 ممالک کے سفیروں کی سوات آمد کی اطلاع صرف پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کو تھی۔ سوات کے باخبر صحافی اور 22 لاکھ عوام کو اس بارے کانوں کان خبر نہیں تھی، تو ’’بم رکھنے والوں‘‘ کو کیسے خبر ہوئی؟ دھماکے کے بعد پولیس کو سفیروں والی خبر چھپانا چاہیے تھی، تاکہ سوات کی بدنامی نہ ہو، لیکن سوات کے صحافیوں کو خبر نہیں اور امریکہ میں نیوز ایجنسی کے رپورٹر کو خبر مل جاتی ہے کہ 12 ممالک کے سفیر سوات گئے تھے اور اُن کے قافلے پر دھماکا ہوا ہے۔ پھر وہ رپورٹر ایک اعلا پولیس آفیسر کو فون کرتا ہے اور وہ آفیسر اُس خبر کی مکمل تصدیق کرکے عالمی سطح پر اُس خبر کو جنگل کی آگ کی طرح پھیلاتا ہے ، جس کے بعد عالمی میڈیا اور پھر پاکستانی میڈیا پر ’بریکنگ نیوز‘ چلتی ہے کہ سوات اتنا خطرناک علاقہ ہے جہاں 10، 12 ممالک کے سفیر بھی محفوظ نہیں۔‘‘
اس واقعے کے بعد مجھے اپنے ایک جاننے والوں نے فون کرکے پوچھا کہ کیا واقعی سوات میں حالات خراب ہیں؟ مَیں نے اُسے جوا باً کہا کہ حالات بالکل نارمل ہیں۔ بس ریاست کو یرغمال بنانے والوں کے پاس پیسے ختم ہوگئے ہیں اور ’’ٹام اینڈ جیری کڈز‘‘ (چوہے بلی کا کھیل) کھیلنا مقصود ہے۔
بہ قول مشر منظور پشتین: ’’چائینہ اور امریکہ اپنی جنگ ہماری زمین سے دور لے جائیں، تو ہم ان کے مشکور رہیں گے۔‘‘
اور ہم اپنے بڑوں کے مشکور رہیں گے اگر وہ اپنی کمائی کے لیے ہمیں پرائی جنگوں کا ایندھن نہ بنائیں۔ نیز بہ یک وقت دو کشتیوں میں سوار ہونے کے عمل پر ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے، کیوں کہ ہماری پشتو کی ایک مشہور کہاوت ’’دو کشتیوں کا سوار ہمیشہ ڈوبتا ہے‘‘ کے مصداق تباہی بڑوں کے ساتھ ہم چھوٹوں ں کا بھی مقدر ہوگی۔
ابھی یہ گرد بیٹھی بھی نہیں تھی کہ 24 ستمبر کو رات گئے ایک خبر آئی کہ مٹہ تحصیل میں اشاڑے کے مقام پر پولیس وین پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا ہے۔ جوابی فائرنگ میں کچھ ’’دہشت گرد‘‘ مارے گئے ہیں، جب کہ پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ صبح سویرے سینئر صحافی فیاض ظفر کی ڈی پی اُو سوات (جو کہ اَب خیر سے سابقہ ہوچکے ہیں) سے ملاقات ہوئی۔ مذکورہ ملاقات کے بعد فیاض ظفر نے اپنی خبر کچھ یوں فائل کی: ’’تحصیل مٹہ کے علاقہ اشاڑے میں ڈاکوؤں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دو ڈاکو ہلاک اور دو پولیس زخمی ہوگئے۔ ڈی پی اُو سوات ڈاکٹرزاہد اللہ کے مطابق پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ علاقہ میں کچھ ڈاکو موجود ہیں، جو ڈاکے کی نیت سے علاقہ میں داخل ہوئے ہیں۔ اطلاع ملتے ہی انچارج چوکی اشاڑے سب انسپکٹر نور ولی شاہ نفری کے ہمراہ پہنچے، تو موجود ڈاکوؤں نے پولیس کی گاڑی پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں سب انسپکٹر نور ولی شاہ اور سپاہی زکریا زخمی ہوگئے۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے احمد حسین اورظاہر خان ساکنان بیلہ جانو خوازہ خیلہ ہلاک ہوگئے اور تین ڈاکو فرار ہوگئے۔ علاقے کے لوگ فائرنگ کی آواز سن کر سمجھ بیٹھے کہ علاقہ میں دہشت گرد آگئے ہیں۔ سابق صوبائی وزیر ایوب اشاڑی سمیت علاقہ کے لوگ مسلح ہوکر نکلے اور جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور صبح تک پولیس کے ساتھ رہے۔ ڈی پی اُو بھی واقعے کا سن کر علاقہ پہنچ گئے اور صبح تک پولیس اور علاقہ کے لوگوں کے ساتھ رہے۔ ریجنل پولیس آفیسر محمد علی خان نے ہسپتال جاکر زخمی پولیس اہلکاروں کی عیادت کی۔‘‘
اس واقعے پر کل شام (25 ستمبر) کو ہماری بیٹھک ہوئی جس میں سینئر صحافی فیاض ظفر، فضل خالق، انور انجم، پرویز عالم پاپا، ایڈوکیٹ عطاء اللہ جان اور ایڈوکیٹ عباس علی حیدر شامل تھے۔ سب نے اپنے اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑائے، دوڑائے کیا بل کہ دوڑا دوڑا کے خوب تھکائے۔ حاصلِ نشست یہ تھی کہ معمولی چور اُچکوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر باقاعدہ خوف و ہراس پھیلایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ سوات میں ایک بار پھر ’’اماوس کی رات‘‘ اپنے سائے گہرے کرنے جا رہی ہے۔ ساتھ یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ پولیس یہ معاملہ ٹھیک طریقے سے ہینڈل نہیں کرپا رہی۔ اگر اس قسم کے دو تین واقعات اور ہوتے ہیں، تو ملٹری آپریشن کے لیے راہ ہم وار سمجھی جائے۔ ایڈوکیٹ عطاء اللہ جان نے تو ’’دہشت گرد‘‘ گردانے اور اس آڑ میں مارے جانے والوں کے لیے’’ماورائے عدالت قتل‘‘کی اصطلاح تک استعمال کی اور کہا کہ اس واقعے کی باقاعدہ جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے۔
مجھے بہ طورِ خاص بڑا تعجب ہوتا ہے یہ فرسودہ نظام چلانے اور ہم پر جبراً لاگو کرنے والوں پر، جو خود کو بڑا شاطر سمجھتے ہیں۔ اُن کو کون جاکر یہ سمجھائے کہ اب اہلِ سوات وہ 2010ء کی دَہائی والے سادہ لوح نہیں رہے۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔ یہاں ہر چھوٹی بڑی بات پر بحث کی جاتی ہے۔ بال کی کھال اُتاری جاتی ہے۔ اس سوشل میڈیائی دور میں ’’طالب و مطلوب‘‘ والا کھیل نہیں جمنے والا۔ اگر کوئی جمانا چاہتا ہے، تو کوشش کرکے دیکھ لے۔ لگ پتا جائے گا!
اور ہاں جہاں تک بات آر پی اُو اور ڈی پی اُوکے تبادلے کی ہے، تو جاتے جاتے پڑوسی ملک کی ایک فلم کا وہ مشہور ڈائیلاگ پڑھتے جائیں اور سر دُھنتے جائیں کہ ’’بڑے بڑے دیشوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ حالات پہلے بدلے تھے، نہ مستقبلِ قریب میں بدلنے کا اندازہ ہے۔ ہاں! بند باندھنا ہمارا کام ہے، جو ہم کرتے رہیں گے۔
رات آکر گزر بھی جاتی ہے
اِک ہماری سحر نہیں ہوتی

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں