روح الامین نایابکالم

ڈپٹی کمشنر سوات اور کھلی کچہری

قارئین، محترم ثاقب رضا اسلم صاحب جب سے سوات میں تعینات ہوئے ہیں، انتظامی امور کے حوالے سے ضلع میں سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ وہ ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ مسائل حل ہوں یا نہ ہوں، لیکن اپنی کوشش کرتے ہیں۔ ہر ایک کو سنتے ہیں اور ہر جگہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مسائل سے آنکھیں نہیں چراتے، بلکہ مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ہر مکتبہ فکر سے ملنے اور اُن کے سننے میں دلچسپی لیتے ہیں۔
اس حوالہ سے آپ دس جولائی کو منگلور اور سنگوٹہ کے عوامی نمائندوں سے ملنے اور اُن کے مسائل سننے نیز اُن پر بحث کرنے کے لیے ایکسلشیئر کالج تشریف لائے۔ آپ کے آنے سے پہلے تمام اداروں کے متعلقہ افسران اور اسسٹنٹ کمشنر صاحب بھی تشریف لے آئے تھے۔ یہ کھلی کچہری تقریباً بارہ بجے قاری فرمان کی تلاوتِ کلام پاک سے شروع ہوئی۔ نظامت کے فرائض ایکسلشیئر کالج کے محمد عنان نے ادا کیے۔ انہوں نے منگلور اور سنگوٹہ کے عوام کی طرف سے ڈپٹی کمشنر صاحب اور تمام متعلقہ اداروں کے افسران کو خوش آمدید کہا اور یہاں آنے، عوام کے ساتھ ملنے اور انہیں سننے پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔
ڈپٹی کمشنر صاحب نے اپنے مختصر سے خطاب میں کہا کہ موجودہ حکومت کی ہدایات پر ہم عوام کے ساتھ اس کھلی کچہری کا انعقاد کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد عوام سے ملنا اور اُن کی تکالیف اور مسائل کو سننا ہے۔ انہوں نے کھلی کچہری میں عوام کی شرکت اور دلچسپی لینے پر علاقے کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد پھر عام بحث کے لیے سب کو دعوت دی۔ سب سے پہلے ڈسٹرکٹ ممبر سرور علی نے ڈپٹی کمشنر کی توجہ سول ہسپتال کی طرف مبذول کرائی کہ کڈنی ہسپتال کے لیے ہم پچھلی حکومت (ن لیگ) کے شکرگزار ہیں۔ کیوں کہ اس وقت یہ ہسپتال صرف سوات نہیں بلکہ دیر، چترال اور پورے پختونخوا صوبے کے گردوں کے حوالے سے جملہ امراض کی ضروریات پوری کر رہا ہے، لیکن یہاں سول ہسپتال کی بھی از حد ضرورت ہے۔ عام مریض ایمرجنسی میں سیدو شریف پہنچتے پہنچتے زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ یہاں پہلے والیِ سوات کے دور میں سول ہسپتال موجود تھا، جو علاقے کے صحت کے حوالے سے عوامی ضروریات پورا کر رہا تھا۔ انہوں نے نواز شریف کڈنی ہسپتال میں ڈائی لیسز مشینوں کی تعداد بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا کہ چودہ مشینیں ناکافی ہیں۔ یہ تعداد تیس تک بڑھانی چاہیے۔ انہوں نے ملم جبہ فیڈر کے بارے میں مطالبہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ امیر مقام نے یہ سکیم منظور کرائی ہے اور اس کے بجٹ کے لیے رقم بھی فراہم کی ہے۔ فضاگٹ اور کڈنی ہسپتال کے آس پاس سڑک کنارے لائن بچھانے کے لیے پول بھی ڈالے گئے ہیں۔ اس پر جلد از جلد کام شروع کرنا چاہیے، تاکہ علاقے کے عوام کو بجلی لوڈشیڈنگ سے نجات مل سکے۔
تھانہ اصلاحی کمیٹی کے سربراہ اور سنگوٹہ سے تعلق رکھنے والے ملک فضل قادر صاحب نے اس موقع پر دریائے سوات کے کنارے عوام کی قیمتی زمین بہہ جانے اور ضائع ہونے پر افسوس اور تشویش کا اظہار کیا کہ غریب عوام کے پاس لے دے کر یہی تھوڑی سی زمین ہے۔ اگر یہ بھی دریائے سوات کے کٹاؤ میں بہہ گئی، تو لوگ کیا کریں گے؟ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دریا کی طرف مضبوط پشتے تعمیر کیے جائیں۔ انہوں نے سنگوٹہ، شاملی اور دنگرام روڈ کے بنانے کی طرف کمشنر صاحب کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اس پراجیکٹ پر کم پیسہ خرچ ہوگا، لیکن فائدہ زیادہ ہوگا اور مینگورہ میں ٹریفک کا مسئلہ کافی حد تک کم ہوجائے گا۔ پانڑ، دنگرام، کوکارئی اور جامبیل جانے والوں کو مینگورہ جانے کی ضرورت نہیں ہوگی، لہٰذا مینگورہ پر ٹریفک کا دباؤ کم ہوجائے گا۔ ان کی طرف سے سنگوٹہ میں سٹریٹ لائٹ لگانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
زاہد خان عرف مٹھو نے بجلی میٹر ریڈنگ کے اہم مسئلے کے بارے میں ڈی سی صاحب کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ واپڈا والوں کے پاس اس کام کے لیے سٹاف نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہزاروں میٹروں کی ریڈنگ دو یا تین میٹر ریڈرز کیسے لے سکتے ہیں؟ لہٰذا عوام کو اندازوں پر ہزاروں روپے کے بجلی بل دینا پڑتے ہیں۔ لہٰذا واپڈا کو چاہیے کہ سٹاف بھرتی کرے۔ انہوں نے دکانوں میں گندے پاپڑ فروخت ہونے پر بھی پابندی کا مطالبہ کیا۔ امن و امان کے حوالے سے مقامی پولیس سٹیشن کے عملہ اور ایس ایچ او صاحب کی کارکردگی کو سراہا۔ اُن کی حوصلہ افزائی کی اور منگلور کے عوام کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
تحصیل ممبر جناب بونیرے خان نے منگلور میں صفائی کے حوالے سے مینگورہ کے ٹی ایم اے والوں کو ذمہ دار گردانا کہ وہ وقت پر گاؤں کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ حالاں کہ یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ہفتے بلاناغہ گاڑی بھیج دیا کریں اور کوڑے دانوں سے کچرا اُٹھا دیا کریں۔ انہوں نے محکمہئ جنگلات سے اپیل کی کہ وہ منگلور کا کوٹا بحال کرے۔ انہوں نے سرکاری اداروں میں بھرتیوں کے غلط طریقہئ کار پر بھی اعتراض کیا۔
منگلور قومی جرگہ کے صدر گوہر سید باچا نے اس موقع پر منگلور مقبرے کی حدود اور ایکسلشیئر کالج کے تجاوزات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور اس اہم مسئلے کی طرف ڈپٹی کمشنر صاحب کی توجہ مبذول کراتے ہوئے پچھلی تمام جدوجہد اور سرگرمیوں پر تفصیل سے بات کی کہ اس بارے میں سابقہ ریکارڈ کو نکال کر آگے کی کارروائی کی جائے۔ منگلور کے یوتھ کونسلر اور قومی امن جرگہ کے رکن فلک ناز نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے گاؤں کی صفائی کے حوالے سے ٹی ایم اے کی سُستی کا ذکر کیا۔ منگلور میں پانی کی کمی اور گندگی کا حوالہ دیا۔
بنجوٹ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن فضل واحد نے منگلور بنجوٹ روڈ کی خستہ حالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عرصہ دراز سے یہ روڈ کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس پر پورے درے کی آمد و رفت کا انحصار ہے۔ عوام نے بار بار احتجاج کیا، مظاہرے کیے، لیکن روڈ محکمے کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ انہوں نے علاقے میں پینے کے صاف پانی کی کمی کی بھی نشان دہی کی۔ شکرو کے ظہور اقبال استاد نے علاقے کے لیے سبزی منڈی کا مطالبہ کیا اور پلے گراؤنڈ بنانے پر بھی زور دیا۔ انہوں نے علاقے کے مختلف پوسٹوں (نوکریوں) پر علاقے کے لوگوں کے بھرتی ہونے کا مطالبہ کیا۔
منگلور قومی امن جرگے کے اہم رکن احسان اللہ خان نے منگلور گرلز ہائی سکول کا مطالبہ کیا جب کہ علاقے کے قبرستان کی زمین پر قبضہ مافیا ختم کرنے کے لیے انتظامی اقدامات اٹھانے پر زور دیا۔ اصغر خان نے منگلور گراؤنڈ کے حقوق کا مسئلہ اُٹھایا کہ یہ گراؤنڈ منگلور کے عوام کی ملکیت ہے، منگلور کی جائیداد ہے اور اس پر منگلور ہائی سکول کے طلبہ کا حق ہے جب کہ اسے سازش کے ذریعے ایکسلشیئر کالج کے غیر قانونی قبضے میں دیا گیا ہے۔ فضل اکبر بابا نے سول ہسپتال بنانے کا مطالبہ کیا اور ڈپٹی کمشنر کے وزٹ کرنے کا شکریہ ادا کیا۔
موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راقم الحروف نے محلہ عالی خان خیل کے لیے پینے کے صاف پانی کے لیے نئی سکیم کا مطالبہ کیا۔ پانی کے زنگ آلود پائپ بدلنے، پانی کی مساوی تقسیم، نیز نئے ٹیوب ویل نکالنے کے مطالبہ پر زور دیا۔ انہوں نے پرانے کھنڈرات پر گرلز کالج بنانے کا مطالبہ کیا۔ گرلز کالج نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لڑکیاں میٹرک کے بعد اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتیں۔ راقم نے ڈپٹی کمشنر صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے صبر و تحمل سے علاقے کے عوام کے مسائل سنے۔
قارئین، ڈپٹی کمشنر صاحب سارا وقت اپنے روسٹرم پر کھڑے رہے۔ انہوں نے تمام مسائل غور سے سنے۔ موقع پر موجود متعلقہ اداروں کے افسران کو جواب دِہ بنایا اور اپنی طرف سے مسائل کے حل کے لیے پوری یقین دہانی کرائی۔ اس موقع پر عوام نے اپنے منتخب نمائندے ایم این اے اور ایم پی اے کے آنے اور عوام کا سامنا کرنے کا پُرزور مطالبہ کیا کہ وہ بھی کھلی کچہری کے وقت موجود ہوں، اور علاقے کے عوام کے سامنے جواب دہ ہوں۔ کیوں کہ منتخب ہونے کے بعد اب وہ دوربین میں بھی نظر نہیں آ رہے۔ یہ ایک کامیاب کھلی کچہری تھی۔ عوام نے کھل کر اپنے مسائل بیان کیے، اپنے مطالبات پیش کیے جب کہ ڈپٹی کمشنرصاحب اور اُس کے ساتھ متعلقہ اداروں کے افسران نے غور و خوص کے ساتھ تمام تحفظات اور مطالبات سنے۔ بہرحال عوام اور انتظامیہ کے درمیان اس طرح کے پروگرام اور آپس کے تبادلہئ خیال کو خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ پروگرام بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔ ایکسلشیئرکالج کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا گیا اور جاتے جاتے کالج کی ضرورت کے پیشِ نظر پینے کے پانی کی کمی کی بھی نشان دہی کی گئی۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں